پاکستان میں سکہ اسلام آباد کا حکم واشنگٹن کا

موجودہ پاکستانی حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ ’’ملک میں پرویز مشرف کی مدد سے امریکہ اور اس کے حلیف، پاکستان کے طول و عرض اور ہر ریاستی و غیر ریاستی ادارے میں اپنی خفیہ ایجنسیوں اورپوشیدہ عسکری طاقت کے فعال نیٹ ورک قائم کر چکے ہیں‘‘ سابق حکمرانوں نے پاکستان میں امن وامان کی صورتحال خراب کرنے کی سازش کی ہے۔تاریخی حوالہ جات اور مبصرین کی آراء کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتاہے کہ اصل کہانی کہاں سے شروع ہوئی۔ آزادی ایسی کہ ہرجگہ سکہ اسلام آباد کا مگر حکم واشنگٹن کا چل رہا ہے ۔ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرامریکی و مغربی مفادات کے تحفظ کی ’’ دسویں صلیبی جنگ ’’ میں خوا مخواہ کود کر ہم اپنے دوستوں کو بھی اپنا جانی دشمن بنا کر چالیس ہزار شہری اور فوجی قربان چکے ہیں۔ قربان جائیے ایٹمی اسلحہ سے مسلح اس قوم کی معصومیت کے کہ اسے ابھی بھی پورا یقین ہے کہ ہم صرف موم بتیاں جلا کر ہی کشمیر فتح کر لیں گے ۔ سو یوم کشمیر کے آتے ہی کسی بارونق چوراہے پر شمعیں جلا کرمظلوم کشمیری بھائیوں سے اظہار یک جہتی کا ایمان افروز طریق سے فرض ادا کرتے ہیں۔

ہمارے سیاست دانوں کا خام خیال ہے کہ وہ صرف دھرنے دے کر ہی نیٹو کی قاتل سپاہ کو مسلم خطے چھوڑنے پر مجبور اور امریکہ کا بیڑا غرق دیں گے ۔ کون انکار کرے گا کہ ہمارے صاحب مزاج حکمرانوں کا دوعالمین سے بے نیاز ہوش ربا کردار، اسی محمد شاہ رنگیلے جیسا ہے جو ایرانی حملہ آور نادر شاہ درانی کے شاہی محل میں داخل ہونے تک ہنوز دلی دوراست کی سدا دیتا رہا۔ صد شکر کہ ہماری پاک فوج، رنگیلے شاہ کے ان یہجڑے سپاہیوں جیسی رنگ رنگیلی نہیں، جو نادر شاہ کی فوجوں پر تالیاں بجا کر’’ ہائے اﷲ ان کی توپوں میں کیڑے پڑ جائیں’’ اور ’’ اﷲ ان کی تلواریں ٹوٹ جائیں’’ کے وار کرتے ہوئے کٹ مرے تھے ۔ حقیقیت یہی ہے کہ ہم اپنی عظمت رفتہ کی تاریخ سے چشم پوشی کرتے ہوئے یہ جاننا ہی نہیں چاہتے کہ مقبوضہ علاقہ جات موم بتیاں جلا کر یا ڈرائینگ روم میں کلاشنکوف لہرا کر نہیں بلکہ آگ کے شعلوں پرشمشیر و سناں کے مردانہ وار کھیل سے جیتے جاتے ہیں۔

ہم بھول جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے مدین النبوی پر حملہ آور صلیبی لشکر کیخلاف موم بتیاں جلا کر احتجاج نہیں بلکہ آتش گیر مادے سے میدان جنگ میں چاروں طرف بھیانک آگ بھڑکا کراس آتشیں ماحول میں حطین کے مقام پر تاریخ کی وہ خوف ناک جنگ جیتی تھی جس کے انجام کو یاد کر کے آج بھی صلیبی دہشت گردوں کے کانوں سے گرما گرم دھواں نکلتا ہے ۔ حطین کی فتح کے بعد موم بتیوں کے احتجاج سے نہیں سات روزہ خونریز جنگ سے اکانوے برس کے بعد بیت المقدس دوبارہ فتح ہوا تھا۔ جو مابعد سات سو باسٹھ سال تک مسلمانوں کے قبضہ میں رہا اور پھر عالم اسلام کی نااتفاقیوں، شاہانِ بدکردار اور غدارین ملت کی وجہ سے دوبارہ عالم کفر کے قبضہء ستم میں چلا گیا۔

آج حالات یہ ہیں کہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر ماتم کرنے والی امت مسلمہ، یہود و ہنود جیسے سفاک دشمنان ملت سے احمقانہ امن کی آشا اور کشمیر و فلسطین کے مظلوم مسلم برادر سے اظہار یک جہتی کیلیے صرف شمعیں جلا کر اپنا ملی و قومی فریضہ انجام دیتی ہے ۔ آج صلاح الدین ایوبی کی مثالیں دینے والوں کا نام نہاد جہاد میڈیا ٹاک شوز اور ڈرائینگ روم تصاویر کی اشاعت تک محدود ہے ۔ اب خطبات جہد حق مصر و حطین کے میدان کارزار یا دشت کربل کے تپتے صحراؤں میں نہیں، عالیشان ولائیتی محلات سے بذریعہ ٹیلیفون یا بم پروف اے سی کنٹینروں میں بیٹھ کر دیے جاتے ہیں۔ تمنائے شہادت کی جرات مندانہ تقریریں اب میدان جنگ سے نہین بلکہ بم پروف شیشہ گھروں کے خول میں محفوظ سٹیجوں سے نشر ہوتی ہیں۔

احباب دور رفتہ میں امت مسلمہ کی ذلت و رسوائی کا دوسرا بڑا سبب، صلیبی آقاؤں کی غلامی و پروردگی اور اغیار کے مفادات کے محافظ غدارین ملت شاہان مملکت ہیں۔ سعودیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک مختلف صلیبی اور مغربی لابیوں کے آلہ کار و ہمنوا بن کر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ افسوس کہ آج پورا خطہء عرب ہی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کے خون رنگ بادلوں تلے پرامن زندگی کو ترس رہا ہے ۔ مصر میں اخوان المسلمون کی منتخب جمہوری حکومت کو جبری انداز میں ختم کرنے اور عراق و شام میں جاری خونریز خانہ جنگی کی امریکی سازشوں میں سامراجی حلیف سعودی عرب کا قابل مذمت کردارانتہائی تکلیف دہ رہا ہے ۔ دوسری طرف سعودی تاجداروں کی اولین حریف ایرانی مملکت اپنے روسی سرپرستوں کی آشیرباد سے عراق و شام میں اپنے زیر سایہ جنگجو گروپوں سے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا سفاک قتل عام کروا رہی ہے ۔

درحقیقت امریکی، مغربی و روسی صلیبی طاقتیں ان مسلم ممالک کو آپس میں لڑوا کر امت مسلمہ کو کمزور سے کمزور کرنے کی اسی دیرینہ ابلیسی پالیسی پر گامزن ہیں جو صلیبی جنگوں سے لیکر آج تک فتنہ گر مغرب و سامراج کا اولین ہتھیار رہی ہے ۔ آج نہ صرف مسلم برادر ممالک ایک دوسرے کے حریف ہیں بلکہ ان ممالک کی سیاسی جماعتیں اورغیر سیاسی سیکولر تنظیمیں بھی قوموں کو مسلکی اور نظریاتی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرنے میں صلیبی طاقتوں کے زر خرید گماشتین کا کردار ادا کر رہی ہیں۔

گذشتہ بیس برس سے برطانوی فتنہ گروں اور ہندوتوا کی آشیرباد سے ایک خود ساختہ جلاوطن مافیہ کے دہشت گرد کارندوں نے بھارتی اسلحہ کے زور پر لہو رنگ کراچی کو ہائی جیک کر رکھا ہے ۔ لسانی بنیادوں پر جناح پور کا خواب دیکھنے اور ملکی تقسیم کی دھمکیاں دینے والے دہشت گرد سیاسی گروہ کو برطانوی استعمار کی گود میں پروان چڑھنے والے اسلام دشمن غدارین کے دجالی گروہ قادیانی کلٹ کی بھرپور مدد حاصل ہے ۔ کاروباری طبقہ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے خوف کے سائے تلے بے یارومددگار ہے ۔ روزمرہ معمول کا حصہ بن جانے والی ہولناک خونریزی میں سہمے ہوئے امن پسند عوام کی زندگی اب اجیرن ہی نہیں کلی مفلوج ہو چکی ہے ۔

افسوس کہ مشرقی پاکستان میں عوام اور فوج کا قتل عام کرنے والی مکتی باہنی کی طرز پر فعال کراچی برانڈ سیاسی تنظیموں کے خلاف کوئی فیصلہ کن اور دو ٹوک پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ عوام محو حیرت ہیں کہ اس تنظیم کا برطانوی شہریت رکھنے والا قائد کراچی کو پاکستان سے الگ کرنے اور ملک توڑنے کی کھلے عام بات کرتا ہے ۔ مگر اس ماڈرن مجیب الرحمن کی ہر جرات پر حکومتی اور دفاعی ادارے خاموش اور بے بس نظر آتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور مشکوک ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نیٹو فورسز کے اسلحہ سے بھرے لاتعداد کنٹینرز لاپتہ ہو چکے ہیں۔ لیکن حکومتی ادارے یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ کنٹینرز اورآتشیں اسلحہ کہاں اور کن ہاتھوں میں جا چکا ہے ۔ اس حوالے سے اس دہشت گرد تنظیم کے ایک بدنام زمانہ قاتل کی ابھی تک بطور گورنر سندھ تعیناتی تمام اداروں کیلئے ایک ’’ خوفناک ’’ سوالیہ نشان ہے ۔ دوسری طرف بلوچستان میں بھی علیحدگی پسند ایک خالص بھارتی پروگرام کے تحت عوام الناس اور محبان وطن سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں ۔ لیکن گذشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ ملکی قیادت کی طرف سے بھی کسی بھی سطح پر اس مبینہ بھارتی مداخلت کیخلاف صدائے احتجاج بلند نہ کرنا قوم کیلیے حیرت کا باعث ہے ۔ صد حیف کہ پاکستانی میڈیا اور پریس کا کردار بھی سامراجی و بھارتی غلام اور صلیبی و ہندوتوا ایجنٹ سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔ میڈیا حضرات میڈم ملالہ پر خود ساختہ حملے اور بھارت نوازی کی امن کی آشا کی رٹ تو لگاتے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے قتل عام اور کشمیری مسلمانوں پر بھارتی مظالم کا مکمل بلیک آؤٹ کر جاتے ہیں۔
Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201562 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.