حضرت مولانا یوسف کاندھلویؒ اپنی
تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریرکرتے ہیں کہ بنو عبدالدار قبیلہ کے حضرت
نبیہ بن وہب ؓ فرماتے ہیں جب حضور اقدس ؐ بدر کے قیدیوں کو لے کر آئے اور
انہیں اپنے صحابہ ؓ میں تقسیم کر دیا تو فرمایا میں تمہیں پر زور تاکیدکرتا
ہوں کہ ان قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا ۔حضرت مصعب بن عمیر ؓ کے سگے
بھائی ابو عزیز بن عمیر بن ہاشم بھی قیدیوں میں تھے حضرت ابو عزیز ہی بیان
کرتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی مجھے قید کر رہا ہے کہ اتنے میں میرے بھائی
مصعب بن عمیرؓ میرے پاس سے گزرے تو اس انصاری سے کہنے لگے دونوں ہاتھوں سے
اسے مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اس کی ماں بہت مالدار ہے وہ تمہیں اس کے
فدیہ میں خوب دے گی ۔حضرت ابو عزیز کہتے ہیں صحابہ ؓ جب مجھے بدر سے لے کر
چلے تو میں انصار کی ایک جماعت میں تھا جب وہ دن کو یا رات کو کھانا اپنے
سامنے رکھتے تو روٹی مجھے کھلا دیتے اور خود کھجور کھا لیتے کیونکہ حضور ؐ
نے انہیں ہمارے بارے میں تاکید فرما رکھی تھی ان میں سے جسے بھی روٹی کا
ٹکڑا ملتا وہ مجھے دے دیتا ۔مجھے شرم آجاتی اور وہ ٹکڑا واپس کر دیتا لیکن
وہ انصاری اسے ہاتھ لگائے بغیر پھر مجھے واپس کر دیتا ۔حضرت ابو الیسرؓ نے
حضرت ابو عزیز کو قید کیا تھا جب ان سے حضرت مصعب ؓ نے وہ بات کہی ( کہ اسے
مضبوط پکڑو اس کی ماں بہت مالدار ہے ) تو حضرت مصعبؓ سے حضرت ابو عزیز نے
کہا آپ (بھائی ہو کر ) میرے بارے میں یہ تاکید کر رہے ہیں ؟ تو حضرت مصعب ؓ
نے ابو عزیز کو یہ کہا یہ (انصاری حضرت ابو الیسر ) میرے بھائی ہیں تم نہیں
ہو ۔حضرت ابو عزیز کی والدہ نے پوچھا کہ ان قریشی قیدیوں کا فدیہ سب سے
زیادہ کیا دیا گیا ہے ؟تو اسے بتایا گیا کہ چار ہزار در ہم ،چنانچہ اس نے
حضرت ابو عزیز کے فدیہ میں چار ہزار درہم بھیجے ۔
قارئین فتح مکہ کا واقعہ انسانی تاریخ کے عظیم ترین واقعات میں سے ایک ہے
ایک نظریے کی فتح کی یہ داستان اگر دل کی آنکھیں کھول کر دل کی نظر سے پڑھی
جائے اور فتح حاصل کرنے کے بعد مفتوح لوگوں کے ساتھ جو حسن سلوک حضرت محمد
ؐ نے کیا اور اپنے ساتھیوں اور پیروکاروں کو کرنے کی ہدایت دی وہ پڑھ کر
آنکھوں کے کونے بھیگ جاتے ہیں یہ وہی مکہ تھا کہ جہاں کے رہنے والے طاقت ور
لوگوں نے اسلام کے سچے پیغام اور حضرت محمد ؐ کا راستہ روکنے کے لیے ہر وہ
حربہ اپنایا تھا جو شائستگی اور اخلاق کے پیمانوں سے کوسوں دور تھا بلال
حبشی ؓ کو صحرا کی تپتی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کر
تشدد کیا جاتا لیکن پاک زبان سے ’’ احد احد ‘‘ ہی کی آواز نکلتی ،اسلام کے
پیغام کو قبول کرنے والے اولین صحابہ اکرام ؓ پر ایسا ایسا تشد دکیا گیا کہ
پڑھ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اونٹوں کے درمیان باندھ کر اسلام قبول
کرنے والوں کو چیر ڈالا گیا لیکن حق کا پیغام قبول کرنے اور سمجھ لینے کے
بعد کسی نے بھی اسے چھوڑنا گوارہ نہ کیا ۔یہ سب باتیں محض باتیں نہیں ہیں
بلکہ ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہماری منزل کے تعین کے لیے ان باتوں کی
حیثیت انتہائی بنیادی نوعیت کی ہے آپ سوچ رہے ہونگے کہ آج کے کالم کے عنوان
کے ساتھ اس تمہید کا کیا تعلق ہے تو جناب لیجئے ابھی آپ کو تعلق بتائے دیتے
ہیں آج ہی نیشنل اور انٹر نیشنل میڈیا پر یہ خبر بریک ہوئی ہے کہ دنیا کو
دو مرتبہ خون کے ساتھ غسل دینے والے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پینٹنگز
کی پہلی نمائش ہونے جا رہی ہے جارج ڈبلیو بش نے دو مرتبہ امریکہ کا صدر
رہنے کے بعد ریٹائرہو کر مصوری سیکھی اور اپنی پینٹنگز میں مشاہیرِ عالم
سمیت بین الاقوامی لیڈر ز کو موضوع بنایا انہوں نے اپنے ’’ مرحوم کتے ‘‘ کی
پینٹنگ بھی بنائی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش جو امریکہ کے 43ویں
صدر تھے انہوں نے پینٹنگز پر اپنا نام تحریرکرنے کی بجائے ’’ 43‘‘ کے عدد
کو اپنے دستخط کے طور پر استعمال کیا ۔یہاں یہ خبر پڑھنے کے بعد ہم ان
خیالات کو آپ کے ساتھ شیئر کرتے چلیں جو ہمارے ذہن میں آئے اور ہم کافی دیر
تک سوچتے رہے ہمارے ذہن میں یہ بھی آیا کہ آیا یہ بھی علامتی چیز ہے کہ
9/11کے واقعات کو ایک بہانہ بنا کر جس طرح مسلمانوں کو ایک جانور کی طرح بے
دردی کے ساتھ امریکہ نے نشانہ بنایا اور یہی جارج ڈبلیو بش 9/11کے فورا ً
بعد پوری دنیا کو للکارتے ہوئے ’’ کرو سیڈ ز ‘‘ یعنی صلیبی جنگوں کے دوبارہ
سے آغاز کا اعلان کر رہے تھے آج ’’43‘‘کے عدد کو اپنے دستخط کے طور پر
استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کو مزید کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں ہمارے ذہن
میں یہ بھی آیا کہ جارج ڈبلیو بش اتنے ’’ رقیق القلب ‘‘ ہیں کہ اپنے مرحوم
کتے کی یاد میں وہ باقاعدہ ایک پینٹنگ بنا کر اسے خراج عقیدت پیش کر رہے
ہیں کیا وہ لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کو اپنے اس کتے سے بھی کم حیثیت دیتے
ہیں جو بغیر کسی گناہ کے جارج ڈبلیو بش کے بھیجے گئے لشکر ،ایساف اور نیٹو
فورسز کے طیاروں کی بمباری اور کارپٹ بمنگ کے نتیجہ میں خاک میں مل گئے کیا
جار ج ڈبلیو بش کے نزدیک لاکھوں بے گناہ انسان جو مسلمان ہیں اتنے حیثیت
بھی نہیں رکھتے کہ وہ سفید کینوس پر چند ’’ لال لکیریں ‘‘ کھینچ کر اس بے
گناہ لہو کو بھی لائق توجہ گردانیں جو امریکی وحشت کی نذر ہو گیا ۔یہ سب
سوالات ہمارے ذہن میں ایک ’’ ریل ‘‘ کی صورت میں چلتے رہے اور ہم کالم
لکھنے کے لیے بیٹھ گئے ۔ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں بھی مایہ ناز اسلامی
سکالر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ؒ کے کچھ لیکچرز کا ذکر کیا تھا جن میں انہوں
نے دجال کے متعلق علمی بحث کی تھی اور اس نظریے پر بھی روشنی ڈالی تھی کہ
بعض محققین کا خیال ہے کہ امریکہ دور حاضر کا دجال ہے کیونکہ جو علامتیں
دجال کے متعلق بتائی جاتی ہیں وہ بڑی حد تک امریکہ پر صادق بیٹھتی ہیں اسی
طرح امریکی کرنسی ’’ ڈالر ‘‘ کے نوٹ پر ایک آنکھ کا نشان بھی دجال کی معاشی
دہشت گردی کی عکاسی کرتا ہے ہم نے اس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا کہ ڈاکٹر
اسرار احمد مرحوم ؒ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ممکن ہے ’’ اصل دجال ‘‘ اپنی اصل
کریہہ صورت کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہو اور احادیث مبارکہ کے مطابق مومنین اس
کے خلاف جہاد کریں گے اور فتح حاصل کریں گے ہم نے اس کالم میں یہ بھی تحریر
کیا تھا کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم ؒ سمیت متعدد اسلامی سکالر ز نے نشاندہی
کی ہے کہ دجال کے خلاف جہا د کرنے والے مسلمانوں کا لشکر پاکستان کے قبائلی
علاقہ جات اور افغانستان سے منظم ہو کر اپنی جدوجہد شروع کرے گا ۔
قارئین یہاں ہم یہ عرض کرتے چلیں کہ ہم ایک انتہائی ادنیٰ درجے کے انتہائی
کم طاقت رکھنے والے کمزور سے مسلمان اور انسان ہیں لیکن ہمارا یہ پختہ
عقیدہ ہے کہ قرآن و حدیث میں بیان کی گئی تمام باتیں سچ ہیں اور کمزور
ایمان رکھنے والے کم طاقت مسلمان ہونے کے باوجود ہم اﷲ ،اﷲ کے نبی حضرت
محمد ؐ ،صحابہ کرام ؓ ،تابعین ،تبع تابعین اور اولیاء کرام سمیت تمام نیک
ہستیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں آج سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے کہ
پوری اسلامی دنیا میں ’’ بنیاد پرست مسلمان ‘‘ اور ’’ ترقی پسند مسلمان ‘‘
کو امریکہ نے آمنے سامنے کھڑا کر کے دونوں کو ہتھیار پکڑا دیئے ہیں اور
دونوں طبقے مسلمان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنا ’’ جہاد ‘‘
سمجھتے ہیں اور اپنے اپنے مقتولین کو ’’ شہید ‘‘ کے درجے پر بٹھا دیتے ہیں
۔مرنے والے کو خبر نہیں کہ اس کا جرم کیا تھا مارنے والے کو پتہ نہیں کہ وہ
کیوں اپنے ہی جیسے ایک انسان کو قتل کر رہا ہے کچھ عجیب سی کیفیت ہے اور اس
کے پیچھے یقین جانیئے ’’ 43‘‘ کے دستخطوں کے ساتھ پینٹنگز بنانے والے 43ویں
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کا خون سے رنگا ہوا ہاتھ ملوث ہے یہاں ہم یہ بھی
بتاتے چلیں کہ گزشتہ دنوں ہم نے اپنے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے
ہمراہ آزادکشمیر کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی چینل ’’ کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی
وی ‘‘ کے لیے آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی جنرل حمید گل کا ایک خصوصی انٹرویو
ریکارڈ کیا ۔اس انٹرویو میں ڈی جی آئی ایس آئی نے امریکہ کے عزائم کے متعلق
کھل کر بات کی اس انٹرویو اور تقریب کے دوران جنرل حمید گل کی گفتگو کا
خلاصہ یہ تھا کہ’’ 9/11بہانہ ہے ،افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان اصل نشانہ
ہے ‘‘ جنرل حمید گل نے کھل کر کہا کہ امریکہ در اصل پاکستان میں اپنے
مفادات کی تکمیل چاہتا ہے جب میں آئی ایس آئی کا ڈی جی تھا تو بہت سے
امریکن جب بھی پاکستان کے دورے پر آتے تو مجھ سے ملاقات کے دوران ہر امریکی
مہمان مجھ سے فرمائش کرتا کہ ہمیں پاکستان کے شمالی علاقہ جات یعنی گلگت
بلتستان جو کشمیر کا حصہ ہیں وہاں کی سیر کرائی جائے میں ان کے اصل مقصد کو
بہت اچھی طرح سمجھتا تھا اور سمجھتا ہوں در اصل باوجود بے پناہ فوجی طاقت
کے امریکہ ابھی تک یہ طاقت حاصل نہیں کر پایا کہ وہ چین کے ایٹمی پروگرام
اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو نشانہ بنا سکے جو دور دراز چین کے صحرائی
علاقوں میں موجود ہے اس مقصد کے لیے امریکہ بہادر ’’ دنیا کی چھت ‘‘ یعنی
دیو سائی سمیت کشمیر کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان کے ان پہاڑی سلسلوں
پر اپنی مکرو ہ نظریں جمائے بیٹھا ہے جہاں پر براجمان ہو کر وہ چین کے اندر
انتہائی آسانی سے ’’ ایک اوچھے ہمسائے ‘‘ کی طرح جھانک سکتا ہے وہ وقت آنے
والا ہے جب پاکستان دنیا کی قیادت کرے گا اور پاکستان اپنے وجود کی بنیاد
کلمہ طیبہ کی مقصدیت کے مطابق اپنی منزل تک انشاء اﷲ ضرور پہنچ کر رہے گا ۔
یہاں ہم یہ سچائی بھی آپ کے سامنے ایک مرتبہ پھر آشکار کرتے چلیں کہ اس وقت
صیہونی لابی امریکہ سمیت دنیا کی تمام معاشی اور فوجی طاقتوں کو انگلیوں پر
نچاتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہی ہے دنیا کی تین طاقت ور ترین
انٹیلی جنس ایجنسیز میں سے ایک پاکستان کی محافظ آئی ایس آئی اس وقت فوجی
اور نظریاتی محاذوں پر ایک ساتھ جنگ لڑ رہی ہے آپ نے سوشل میڈیا اور فیس بک
پر ایسے ’’ نام نہاد طالبان مجاہدین ‘‘ کے سیاہ کرتوتوں کو ضرور دیکھا ہو
گا جن میں وہ پاکستانی فوجیوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں ،پاکستانی فوجی جوانوں
کو گولیاں مار رہے ہیں اور ان کی لاشوں اور کٹے ہوئے سروں کی بے حرمتی کر
رہے ہیں رب کعبہ کی قسم کوئی بھی مسلمان ایسی گھٹیا حرکت کرنے کا کبھی سوچ
نہیں سکتا جو ان نام نہاد طالبان نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر
ناچتے ہوئے دہرانا جاری رکھا ہے ہم ان تمام مسلمان نوجوانوں کو یہ پیغام
بھی دیتے ہیں اور اپیل بھی کرتے ہیں کہ خدارا پاکستان کی نظریاتی بنیادوں
اور پاکستان کی سالمیت کی خاطر اپنے خون سے داستان حریت تحریر کرنے والے
عساکر پاکستان کے سجیلے جوانوں ،شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو مد نظر
رکھیں اور ’’ اپنی مرضی کے اسلام ‘‘کو دنیا کے سامنے پیش کرنے والے ان
گمراہ لوگوں کے چنگل میں ہر گز نہ آئیں جو اﷲ اور رسول ؐ کے متبرک نام
ظاہری طور پر دہراتے ہوئے آپ کو دین سے دور جانے والے راستے کی جانب لے جا
رہے ہیں ۔رہی بات امریکہ ،جارج ڈبلیو بش ،صیہونی لابی اور تمام اسلام دشمن
قوتوں کی تو ہم دل سے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ تمام لوگ در اصل شیطان کی فوج
ہیں اور کفر متحد ہو کر شمع اسلام کو بجھانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن یہ
کوشش کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گی ۔امریکہ بہادر قیام پاکستان سے لے کر اب
تک اپنے آپ کو پاکستان کا دوست کہتا ہے لیکن آج آپ دیکھ لیجئے کہ پاکستان
کے ساتھ اس ’’ دوست نما دشمن یا دشمن نما دوست ‘‘ نے کیا سلوک کیا ہے
۔پاکستان کے دو لخت ہونے میں بھارت سے بھی بڑا کردار امریکہ کا ہے جو
1971میں ہمیں ساتویں امریکی بیڑے کے مدد کے لیے پہنچے کی تسلیاں دیتا رہا
اور پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا لیکن وہ بیڑا آج تک پاکستان کی مدد کے لیے نہیں
پہنچ سکا ۔افغانستان میں جب روس اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے آیا تو امریکہ
نے امیر المومنین جنرل ضیاء الحق کو تھپکی دی اور ’’ شیر بن شیر ‘‘ کی ہلا
شیری دے کر پاکستان کو افغانستان میں پراکسی وار میں ’’ایک پتلی‘‘بنا کر
استعمال کر لیا جس کا نقصان یہ ہوا کہ پاکستان جہاں 1980 ء سے پہلے
’’ایئرگن یعنی ہوائی بندوق‘‘اور ’’کھلونا پستول‘‘ہی سب سے بڑا اسلحہ ہوا
کرتا تھا وہاں کلاشنکوفوں ، راکٹ لانچرز، دستی بموں اور اب شنید ہے کہ
میزائلوں کے بھی انبار لگ چکے ہیں جو کراچی سمیت پورے پاکستان میں عید شب
رات چھوڑ کر ہر موقع پر بے موقع استعمال کیے جاتے ہیں امریکہ نے اپنے
سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے چند سو ارب ڈالرز اپنے پٹھو یا پتلی بنے
ہوئے پاکستان اور افغان وار لارڈز پراستعمال کئے اور امریکہ کو چیلنج کرنے
والے کیمونزم کو شکست دیدی جو روس سے نکل کر یورپ تک پہنچ چکا تھا اور پوری
دنیا میں امریکہ کوچیلنج کر رہا تھا روس کی شکست اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد
امریکہ نے ’’بیوفا طوطے‘‘کی طرح فوراًاپنی آنکھیں پھیریں اور اپنے پھیلائے
ہوئے اسلحے کی گندگی کو صاف کیے بغیر پاکستان اور افغانستان سے رفو چکر ہو
گیا امریکہ نے اس کے بعد عراق کو اپنا نشانہ بنایا اور اس کے لیے جو بہانہ
دنیا کے سامنے پیش کیا وہ ’’وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور
حیاتیاتی اسلحہ ‘‘رکھنے کا الزام تھا عید کے دن عراق کے صدر صدام حسین کو
پھانسی دے کر امریکہ بہادر نے پوری اسلامی دنیا کو جو پیغام دیا تھا کاش!
کوئی غیر تمند اسے سمجھنے کی کوشش کرتا بقول سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل
حمید گل نائن الیون کے واقعات کا بہانہ بنا کر امریکہ نے افغانستان کو اپنا
ٹھکانہ بنایا ہے اور درحقیقت اس کا اصلی نشانہ دنیا کی واحد اسلامی جوہری
طاقت پاکستان ہے جنرل حمید گل کے اس فلسفے کو تقویت اس بات سے ملتی ہے کہ
دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کے سلوگن کے تحت امریکی اور اتحادی افواج جو
افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں گزشتہ بارہ سالوں کے دوران ان کے محض
اڑھائی ہزار فوجی جاں بحق ہوئے ہیں اور دوسری جانب جب ہم پاکستان کے اعداد
وشمار کو دیکھتے ہیں تو خوفناک حقائق سامنے آتے ہیں دس ہزار سے زائد
پاکستانی فوجی شہید ہو چکے ہیں اور پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہر ی
’’اسلامی طالبان بمقابلہ پاکستانی مسلمان‘‘ ہونے والے اس میچ کی نذر ہو چکے
ہیں جس کا سپانسر اور فنانسر ’’کوکا کولا ‘‘ بنانے والا امریکہ بہادر ہے۔
بقول چچا غالب ہم یہاں یہ کہتے چلیں
دل ہی تو ہے نہ سنگ وخشت، درد سے بھرنہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستائے کیوں؟
دَیر نہیں، حرم نہیں، درنہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں راہ گزر پہ ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں؟
قید ِ حیات وبندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟
حسن اور ا س پہ حسنِ ظن، رہ گئی بو الہوس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟
واں وہ غرورِ عزّو ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں؟ بزم میں وہ بلائے کیوں؟
ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بیوفا سہی
جس کو ہوں دین ودل عزیزاس کی گلی میں جائے کیوں؟
غالبِ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
رویئے زار زار کیا؟ کیجیے ہائے ہائے کیوں؟
قارئین! اس وقت مسلمانوں اور شیطان کے لشکر کے درمیان کھلی جنگ جاری ہے اب
فیصلہ آپ یہ خود کر لیں کہ آپ نے کس ٹیم کا حصہ بننا ہے یہاں ہم ایک اور
اہم بات آپ کے ساتھ شیئر کرتے چلیں کہ گزشتہ دنوں ہمارے محسن اور دوست
پاکستان کے نامور اینکر ڈاکٹر معید پیرزادہ نے راقم اور استاد محترم راجہ
حبیب اﷲ خان کو اسلام آباد میریٹ ہوٹل میں ایک ہائی پروفائل کانفرنس میں
مدعو کیا جس کا عنوان ’’افغانستان میں امن ۔۔۔2014 اور اس کے بعد ‘‘تھا اس
کانفرنس میں درجنوں ممالک کے سفیر، پاکستانی دفتر خارجہ کے افسران اور بہت
سی اہم شخصیات شریک تھیں بھارت سے جنرل اشوک مہتہ نے اپنی تقریر کے دوران
افغانستان کے موضوع سے کشمیر کے حالات پر چھلانگ مارتے ہوئے یہ ارشاد
فرمایا کہ بھارت اپنے علاقے کشمیر میں دونوں جانب باڑ لگانے کے باوجود آج
تک ’’تخریب کار دہشتگردوں‘‘ کی آمدورفت روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا
کشمیری بیگناہ مسلمانوں اور آزادی کی خاطر لڑنے والے کشمیری مجاہدوں کے
متعلق بھارتی جنرل مہتہ کی یہ گفتگو ہمارے لیے ناقابل برداشت تھی ہم نے
استاد گرامی راجہ حبیب اﷲ خان کی ہدایت کے مطابق وہاں ہاتھ کھڑا کیا کہ ہم
بھی ایک سوال کرنا چاہتے ہیں ڈاکٹر معید پیرزادہ نے مسکرا کر ریوالونگ
مائیک ہمیں دینے کی ہدایت کی ہم نے جنرل مہتہ سے پوچھا کہ کیا وہ یہ بتانا
پسند کریں گے کہ 2014 ء کے بعد جب ایساف اور امریکی فورسز افغانستان سے
انخلاء کر جائیں گی اور بین الاقوامی برادری یہ خدشہ ظاہر کر رہی ہے کہ
طالبان مجاہدین امریکہ سے فراغت کے بعد اپنے کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد
کے لیے مقبوضہ کشمیر کا رخ اختیار کرینگے کیا جنرل مہتہ کا ملک بھارت یہ
مناسب نہیں سمجھتا کہ 1948 ء میں بھارت نے اقوام متحدہ میں خود جو
قراردادیں منظور کروائی تھیں اور وعدہ کیا تھا کہ حالات سازگار ہوتے ہی
کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیدیا جائے گا اور کشمیر میں رائے شماری کے
ذریعے یہ فیصلہ کروایا جائیگا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں اگر جنرل مہتہ کا
ملک بھارت یہ مسئلہ اخلاقی بنیادوں پر حل کر دیتا ہے تو طالبان کے باامر
مجبوری کشمیر میں جاکر جہاد کرنے کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے جنرل مہتہ یہ
بھی بتائیں کہ سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں کیا ’’امن کے
پھول‘‘کھلانے کیلئے کیاریاں لگا رہی ہے اور آخر کیا وجہ ہے کہ آج تک کئی
ملین کشمیری مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان وآزاد کشمیر میں پناہ لے
چکے ہیں جنرل مہتہ یہ بھی بتائیں کہ آپ ردعمل کے خلاف تو تقریریں کر رہے
ہیں اس عمل کی مذمت کیوں نہیں کرتے جس کی وجہ سے کوئی مظلوم ردعمل ظاہر
کرتا ہے۔ ہمارے اس سوال پر پورے ہال میں سناٹا طاری ہو گیا اور سینکڑوں
چمکتی ہوئی متلاشی آنکھوں نے جواب طلب نظروں سے جنرل مہتہ کی طرف دیکھا
ڈاکٹر معید پیرزادہ نے شرارتاًہنستے ہوئے جنرل اشوک مہتہ سے با آواز بلند
پوچھا جنرل مہتہ میرا خیال ہے جنید انصاری کا یہ سوال آج کے موضوع سے ہٹ کر
ہے آپ شاید اس کا جواب دینا پسند نہیں کرینگے اس پر جنرل مہتہ جن پر سکتہ
طاری تھا وہ ہڑبڑائے اور چلا کر بولے نہیں میں اس کا جواب ضرور دوں گا لیکن
میں کشمیر پر کوئی بات کرنا پسند نہیں کرونگا جنرل مہتہ نے اس کے بعد ایک
طویل تقریر جھاڑی جس میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان دنوں
بھارت کے تمام نیوز ٹی وی چینلز اور اخبارات روزانہ چیخ رہے ہیں کہ کیا
کشمیر میں تعینات بھارتی فوج اس قابل ہے کہ وہ طالبان کی طاقت کا مقابلہ کر
سکے جنرل مہتہ کہنے لگے کہ میں یہاں بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور اتحادی
ممالک طالبان کو کھلا چھوڑ کر افغانستان سے واپس نہیں جائیں گے بلکہ انہیں
’’انگیج‘‘رکھنے کے لیے مناسب فوجی طاقت افغانستان میں رکھی جائیگی ایسا
نہیں ہے کہ طالبان اپنا ’’سفری بیگ‘‘اور اسلحہ اٹھا کر کشمیر آجائیں اور
وہاں جنگ شروع کر دیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا اس کانفرنس کے ختم ہونے کے بعد
لنچ کے موقع پر متعدد ممالک کے سفارتکاروں نے ہم سے آکر ملاقات کی اور پشت
پر تھپکی دی کہ ہم نے اچھا سوال پوچھا تھا اسی دوران ڈاکٹر معید پیرزادہ جو
سفارتکاروں کے گھیرے میں کھڑے تھے ہم بھی استاد گرامی راجہ حبیب اﷲ خان کے
ہمراہ وہاں پہنچ گئے ایک سمارٹ اور معزز بزرگ جو بہترین تراش خراش کا سوٹ
پہنے ہوئے تھے ہمیں دیکھ کر ہماری طرف بڑھے اور شفقت سے ہمیں گلے لگا لیا
تعارف کروانے پر انکشاف ہوا کہ یہ جنرل مسعود ہیں جو پشاور کے سابق کور
کمانڈر تھے اور یہی وہ مجاہد تھے جنہوں نے ’’سوات آپریشن ‘‘کر کے غیر ملکی
ایجنٹ طالبان سے سوات کو آزاد کروایا تھا اور اس جرم کی پاداش میں راولپنڈی
پریڈ لائن مسجد میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعہ میں جنرل مسعود کے اکلوتے
نوجوان طالب علم بیٹے کو نما ز جمعہ کی ادائیگی کے دوران شہید کر دیا گیا
تھا اور ان کے بیٹے کو بچاتے ہوئے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ان کا
باڈی گارڈ بھی شہید ہو گیا تھا جنرل مسعود نے چند انتہائی اہم انکشافات کیے
انہوں نے ہمیں بتایا کہ امریکہ کے اس خطے میں آنے کے تین مقاصد تھے القاعدہ
کو امریکہ تباہ کر چکا ہے، طالبان کی طاقت بکھر چکی ہے دو مقاصد حاصل ہو
چکے ہیں لیکن اصلی مقصد پاکستان کی جوہری قوت کو ختم کرنا تھا اﷲ کی
مہربانی سے امریکہ اپنے اس مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا اور انشاء اﷲ
کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا۔ یہاں ہم اتنا عرض کرتے چلیں کہ آج کا یہ کالم
اور تمام دلائل آپ کے سامنے پیش کرنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اس سازش
کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طریقے سے امریکہ بہادر اپنی اسلحہ ساز
فیکٹریوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے اور مسلمانوں کی قوت کو تباہ کرنے کے
لیے مسلمانوں ہی کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے طالبان کے اس وقت
درجنوں گروپس ہیں اور ایسے طالبان بھی ضرور ہیں جو دورِ حاضر کے دجال
امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں ان سب میں تمیز کرنا ضروری ہے اﷲ تعالیٰ
ہمیں حق کہنے ، سننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ناصر کاظمی اور حبیب جالب بے تکلف دوست تھے ایک مرتبہ جالب ناصر کاظمی سے
کہنے لگے
’’آپ کی غزلیات سن کر میری خواہش ہوتی ہے کہ کاش مجھ میں بھی ایسی عمدہ غزل
لکھنے کی استعداد ہو جب بھی آپ کا کلام دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خیال آتا
ہے کہ کاش! اس پر میرا نام لکھا ہو‘‘
ناصر کاظمی نے اس تعریف پر جالب کا شکریہ ادا کیا جالب نے ناصر کاظمی سے
پوچھا
’’میری غزل دیکھ کر آپ کا کیا ردعمل ہوتا ہے‘‘
اس پر ناصر کاظمی شرارت سے مسکرائے اور جواب دیا
’’ اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ کی غزل یا نظم آپ ہی کے نام سے چھپی ہے
غلطی سے میرا نام نہیں چھپ گیا ‘‘
قارئین! ’’43 ‘‘ کے عدد سے اپنی پینٹگز پر دستخط کرنیوالے 43ویں امریکی صدر
جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے بعد دنیا کی تاریخ بے گناہ مسلمانوں کے خون
سے لکھی ہے وہ اس خونی تاریخ کے نیچے ’’43‘‘کا عدد چاہے لکھیں یا نہ لکھیں
مسلمان اپنے قاتل کو پہچانتے ہیں ۔ |