قرارداد پاکستان

 آئیے عزم وہمت کے اُس دن کو ہم پھر یاد کریں
اپنے ذہنوں کو انگریزی کلچر سے آزاد کریں
اپنا دیس ہے اپنی منزل، اپنا دیس ہے اپنی شان
تیس مارچ اُنیس سو چالیس، عزم وہمت کی پہچان
غلام احمد پرویز صاحب بیسویں صدی میں قران پاک کے ایک ممتاز اسلامی سکالر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے قائد اعظم کے پرچم کے تلے تحریک پاکستان کے سلسلے میں ایک گوشے میں بھیٹے ہوئے کا م کیا۔ میرا اور جناح کا باہمی رابط قران کریم تھا۔ کوئی سکیم ہو، کوئی پروجیکٹ ہو، کوئی منصوبہ ہو یا کوئی کام ہو، اُس کے قدمـ اول کو ارادہ اور عزم کہتے ہیں۔اسطرح قرارداد پاکستان، پاکستان بننے کا پہلا قدم تھا۔ 23 مارچ 1940کو ہماری قوم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم ایک آزاد مملکت لے کے رہینگے۔ ہمیں اسلام کے مطابق حکومت قائم ہوگی۔قوم کا یہ عزم قوم کے قائد کے عزم کا درحقیقت آئینہ تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان کا باقاعدہ آغاز 23 مارچ 1940 کو قرار دیا لیکن اس کی ابتداء وہاں سے ہوئی تھی جب مسلمانان ہند نے کانگرس سے اپنی راہیں جُدا کرلی تھی۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے 1930 میں الہ آباد کے مقام پر مسلم لیگ کے اکیسویں اجلاس میں ایک جُداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا تھا۔پھر 1933 میں چودھری رحمت علی نے اقبال کی تصور کو پاکستان کا نام دیا۔

23 مارچ 1940کو منٹوپارک میں آل انڈیا مُسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس کے اختتام پر ایک قرارداد منظور کی گئی جس کو قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قرارداد پاکستان کا اصل مسودہ اس زمانے کے پنجاب کے پونینسٹ وزیراعلی سر سکندر خیات خان نے تیار کیا تھا۔پونینسٹ پارٹی اُس زمانے میں مُسلم لیگ میں ضم ہوگئی تھی اور سر سکندر خیات خان پنجاب مُسلیم لیگ کے صدر تھے۔

یہ وہ تحریک تھی جس کی بنا ہمیں پاکستان مل گیا۔ یہ وہ تحریک تھی جس کا نتیجہ 14 اگست 1947 کو ملا۔23 مارچ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان بننا کوئی آسان کام نہیں تھا۔پاکستان کو ازاد کرنے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی مال وجان کی قُربانیاں دی تھی۔ہمیں اپنی مُلک کی استحکام اور خوشحالی کے لیے متحد ہو کر جہدوجہد کرنا ہوگی اور اس کی دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔

پاکستان ایک عظیم ملک ہے اور ہماری پہچان ہے۔ہمیں اپنی ملک سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ یہی ہماری عزت کا ٹھکانہ ہے۔آج کل پاکستان کو بُہت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہمیں ایک ہو کر اپنے ملک کو بچانا ہے اور ایک اﷲ پر یقین کرنا ہے کیونکہ قومیں ڈوبتی اس وقت جب اُن کو مقصد کی صداقت پر یقین باقی نہیں رہتا۔ یقین نہیں رہتا تو عزم مُتزلزل ہو جاتا ہے۔ عزم سنگ بنیاد ہوتا ہے، جب وہ مُتزلزل ہوتا ہے تو اوپر کی عمارت کی تو حیثیت نہیں رہتی۔ آج ہم جو رو رہے ہیں تووہ اس لیے کہ ہم میں یقین باقی نہیں رہا۔ہمیں ایک اﷲ پر یقین کرنا چاہیے اور ہمیشہ یہ بات ذہین میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا اﷲ ایک ہے، نبیؐ ایک ہے، قران ایک ہے۔ہم سب پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا دیس ہے۔ نہ کوئی پٹھان ہے، نہ بلوچی، نہ پنجابی اور نہ سندھی اور 23 مارچ 1940 ہماری عزم اور ہمت کی پہچان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔