یوم پاکستان : قیام پاکستان کی وجوہات اور دور حاضر

جس روزلاہورمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادلاہورمنظورہوئی جسے بعد میں کانگرسیوں کے اعتراض کے بعد قراردادپاکستان کانام دیا گیااس دن کوپاکستانی قوم یوم پاکستان کے نام سے مناتی ہے۔مارچ کا مہینہ شروع ہوتے ہی ہمیں وہ تاریخی لمحات یادآنے لگتے ہیں۔جب ہمارے اکابرین نے الگ وطن کے قیام کے لیے ایک قراردادمنظورکی۔مسلمانوں نے الگ وطن کامطالبہ کن وجوہات کی بنیادپرکیاتھا۔ الگ وطن بنانے کے کیا مقاصدتھے۔ دورحاضرکے حالات کی روشنی میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا ہم نے قیام پاکستان کے مقاصدحاصل کرلیے ہیں یانہیں۔ہم اس کالم میں قیام پاکستان سے قبل اورموجودہ دورکے حالات کا موازنہ کرکے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے اکابرین نے جن مقاصدکے لیے پاکستان کے قیام کامطالبہ کیاتھا کیاوہ مقاصدپورے ہوئے ہیں یانہیں۔جن وجوہات کی بنیادپرقیام پاکستان کا مطالبہ کیا گیا ان میں سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کاہونابتایا جاتاہے۔ ہندومسلم فسادات کی نظرہرسال کئی جانیں ضائع ہوجاتی تھیں۔یہاں غلطی ہوگئی ہے۔ اصل میں یہ فرقہ وارانہ نہیں مذہبی فسادات تھے۔ہندوازم اوراسلام دوفرقے نہیں دومذاہب ہیں۔ہندومنظم اندازمیں اپنی فرقہ وارانہ تنظیموں کے ذریعے مسلمانوں کاقتل عام کرتے۔ہندوؤں کی تعدادزیادہ تھی اس لیے انگریزوں کے چلے جانے کے بعدوہ مسلمانوں کی زندگی مکمل عذاب میں مبتلا کردیتے۔مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی۔اورکوئی ہندوؤں کوروکنے والا نہ ہوتا۔ہندواپنے عزائم کوچھپاکرنہیں رکھتے تھے۔ان کے کئی لیڈروں اورتنظیموں نے اپنابنیادی مقصدٹھہرایاتھا کہ برصغیرآزادہوگاتویہاں رام راج قائم کردیا جائے گا۔موجودہ دورکی بات کی جائے توفرقہ وارانہ فسادات اب بھی ہورہے ہیں۔ہندوستان میں گجرات کے فسادات مسلمانوں کونہیں بھولیں گے اوریہی فسادات ہندوستان کی تاریخ میں بدنماداغ ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ کسی نہ کسی شکل میں ہوتے رہتے ہیں۔فرقہ وارانہ وارداتوں کا مولویوں کوذمہ دارٹھہرانے والے غورکریں کہ ان فسادات کی جڑکہاں ہے اوروہ کہاں کہہ رہے ہیں۔ان وجوہات میں معاشی حالات کا بھی بڑاعمل دخل تھا۔کہ ہندوسماج میں ذات پات اورررنگ ونسل کی تمیزنے مسلمانوں کوخوف زدہ کیاکہ آزادی کے حصول کے بعدہندومسلمانوں کودوسرے درجے کاشہری بنادیں گے۔ان کامعاشرتی مقام ہندوؤں کے مقابلے پربہت کم ہوگا۔مسلمان یہاں آزادی سے بھی محروم رہتے اورمعاشرتی طورپرہندوؤں کی غلامی کاشکارہوجاتے۔اس سے ایک منصفانہ ماحول اورمساوات پرمبنی نظام کی تکمیل کاخواب پوراکرنے کے لیے جداگانہ مسلم مملکت کاقیام ضروری سمجھاگیا۔وہاں ذات پات کی تقسیم ہے اوریہاں طبقات کی تقسیم ہے۔اورتواورغریب کی فوتگی ہوجائے توگنتی کے چندافرادجنازہ اورقل خوانی میں ہوں گے۔ اوراگرکوئی صاحب حیثیت کے گھرفوتگی ہوجائے توپوراشہرافسوس کرنے پہنچ جاتاہے۔ہم یہاں مسجدمیں چندہ بھی اسی تناسب سے دیتے ہیں اورمیلادکی محافل میں بھی امیرغریب کافرق رکھتے ہیں۔اب بھی ہم نے اپنے ہاں سیاسی ، معاشی اورمعاشرتی طبقات بنارکھے ہیں۔اس سے بعدجس وجہ کا نمبرآتاہے وہ ہے مسلم زبان وثقافت کولاحق خطرات وہ اس طرح کہ ہندوقوم انگریزقوم کی موجودگی میں ایڑی چوٹی کازورلگاتی رہی کہ ہندی کوملک بھرکی زبان کادرجہ مل جائے۔وہ اردوزبان اورمسلم ثقافت کومٹانے کے درپے تھی۔مسلمان اپنی ثقافتی قدروں پامال ہونے سے بچانے کے لیے مجبورہوگئے کہ پاکستان کے قیام کامطالبہ کریں۔اردوکوبچانے کے لیے پاکستان کے قیام کامطالبہ کیا گیا تھااب پاکستان کوقائم ہوئے 67سال ہوچکے ہیں ابھی تک ہم نے اردوکودفتری زبان نہیں بنایا۔اب بھی انگریزی کادوردورہ ہے۔ہم نے اپنی ثقافت کومٹانے کے لیے پاکستان بنایااب پاکستان والے ہی اپنی ثقافت کومٹانے پرلگے ہوئے ہیں۔میڈیاروزانہ کس کی ثقافت دکھاتاہے۔روشن خیالی کے نام پریہاں کون سی ثقافت لانے کی کوشش کی گئی۔ہم اپنی ثقافتی اقدارکوفرسودہ روایات کانام دے کرکیا پیغام دے رہے ہیں۔مساجد، مدارس، مزارات،تاریخی مقامات ہماری ثقافت کے نادرنمونے ہیں۔ ہم ان کومٹانے کے درپے ہوگئے ہیں۔قیام پاکستان کامطالبہ اس لیے ہمارے اکابرین نے کیا کہ انگریزوں کے چلے جانے کے بعدانہیں خدشہ تھا کہ ہندوانہیں دوسرے درجے کاشہری بنادیں گے۔آج کے دورمیں پاکستان میں ہی مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کودوسرے درجے کانہیں ساتویں درجے کاشہری بنایاہواہے۔دوقومی نظریہ بھی ان وجوہات میں شامل ہے۔ بلکہ یہی سب سے بڑی اوربنیادی وجہ بھی ہے۔مسلمانوں کا دعویٰ تھا کہ وہ ایک الگ قوم ہیں۔اوراس کا علیحدہ قومی تشخص ہمیشہ سے قائم ہے۔وہ علیحدہ ثقافت، زبان،رسوم ورواج ، انداززندگی اورمذہب کے حامل ہیں۔اس لیے وہ ایک مکمل قوم ہیں۔ان کاحق تھاکہ وہ ان علاقوں میں اپنی پسندکاسیاسی نظام لاتے ۔جہاں وہ اکثریت میں تھے۔بحیثیت قوم وہ اپناجداگانہ وجودقائم رکھناچاہتے تھے۔دوقومی نظریہ کی بنیادپرہم نے ملک حاصل کیا اب اسی ملک میں رہتے ہوئے ہم دوقومی نظریہ کے خلاف ہوگئے ہیں۔جس ہندوستان سے علیحدگی کی ہم نے تحریک چلاکرپاکستان بنایا ۔ اب اسی ہندوستان کوپسندیدہ ملک قراردینے کے چرچے ہورہے ہیں۔قیام پاکستان سے پہلے دوقومی نظریہ تھا۔اب ہرسیاسی، مذہبی، سماجی تنظیم کااپنا پنانظریہ ہے۔ہم نے اسلام کے نام پرملک بنایا۔ اب اسی ملک میں سب کااپنا اپنا اسلام ہے۔یہاں شریعت کے نفاذ کی باتیں بھی کی جاتی ہیں اورقاتلوں کوشرعی سزادینے کامطالبہ کرنے کی بجائے انہیں رہاکرنے کے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں۔یہاں آئین کوشرعی بنانے کی باتیں بھی کی جاتی ہیں اورآئینی اداروں کونشانہ بھی بنایاجاتاہے۔یہاں شریعت نافذکرنے کے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں اورعبادت گاہوں کونشانہ بھی بنایاجاتاہے۔ہمیں وزارتیں نہ ملیں توہمیں اسلام ،قوم، شریعت اورنہ جانے کیا کیایادآنے لگتاہے۔جب وزارتیں مل جائیں توکچھ بھی یادنہیں رہتا۔ہم نے بحیثیت مسلمان قوم اپناجداگانہ تشخص برقراررکھنے کے لیے قیام پاکستان کامطالبہ کیااوراب قیام پاکستان کے بعدہم میں سے ہرایک اپنا جداگانہ تشخص قائم کرنے میں مگن دکھائی دے رہاہے۔کانگرسی وزارتوں کوبھی ان وجوہات میں شامل کیاگیا ہے۔وہ یوں کہ 1937ء سے 1939ء تک برصغیر میں کانگرسی وزارتیں قائم رہیں۔اس دوران میں ہندوؤں نے اپنے اقتدارکا استعمال مسلمان قوم کودبانے اوراسے حقوق سے محروم کرنے کے لیے کیا۔تعصب کی اس تصویرنے مسلمانوں کوالگ وطن حاصل کرنے پرمجبورکیا۔انہیں علم تھا کہ جمہوریت اکثریت کی حکومت کانام ہے۔اوراکثریت ہندوؤں کی تھی۔یوں مسلمان مستقل طورپرہندوؤں کی غلامی کا شکارہوجاتے۔اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہم نے پاکستان کے قیام کامطالبہ کیا اوراب پاکستان کے قیام کے بعد ہم نے ہی اپنے حقوق دبارکھے ہیں۔یہاں بھی جواکژیت میں ہوتاہے ۔ جو اقتدارمیں ہوتاہے وہ کیا کیاکرتاہے۔ کیاکیانہیں کرتا اورکیا کیا کہتا ہے یہ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔صحافیوں کے ایک تنازع کے تناظرمیں پریس کلب جانے کااتفاق ہوا۔باتوں باتوں میں اس وقت پریس کلب کے عہدیداروں میں سے ایک عہدیدارنے کہا کہ جب تک ہم اقتدارمیں ہیں ہم جوچاہیں گے کریں گے۔ جب تک ہم ہیں تب تک ہمیں برداشت کرو۔اس سے پہلے اورصحافی پریس کلب کے عہدیدارہواکرتے تھے۔وہ بھی کیاکیاکرتے تھے۔یہ بھی مقامی صحافی جانتے ہیں۔یہ الفاظ لکھنے سے ہم صحافیوں کی شکایت نہیں کررہے ہیں۔بلکہ یہ بتانامقصودہے کہ یہاں بھی جواکثریت میں ہوتاہے ۔ وہ ہی سب کچھ بننے کی کوشش کرتاہے۔مسلمانوں نے الگ وطن کامطالبہ اس لیے بھی کیاکہ وہ یہاں اسلامی نظام قائم کرناچاہتے تھے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔مسلمان اسلامی نظام کومکمل طورپرعملی طورپرنافذدیکھناچاہتے تھے۔یہ ہندواکثریت والے جنوبی ایشیاء میں ممکن نہ تھا۔اس لیے شمال مشرق اورشمال مغرب کے مسلم اکثریتی علاقوں میں پاکستان کے قیام کامطالبہ کیاگیا۔تاکہ مسلمان پاکستان کواسلامی نظام کی تجربہ گاہ بناسکیں۔وہ پاکستان کوپورے عالم اسلام کے لیے ایک قوت کی شکل میں دیکھنے کاخواب دیکھ رہے تھے۔پاکستان ان کے نزدیک عالمی سطح پراسلامی تحریک کانقطہ آغازتھا۔ہم نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ملک بنایااب ملک بن جانے کے بعداب تک اسلا می نظام نافذ نہیں کرسکے۔ہم نے اس مقصدکے لیے قراردادمقاصدبھی منظورکررکھی ہے۔ مگراقوم متحدہ میں منظورکی گئی کشمیرکی قراردادکی طرح پاکستان کی قراردادمقاصدبھی کسی کو نے یاکسی فائل میں پڑی ہوئی ہے۔ہماراآئین تواسلامی ہے لیکن اس پرعمل نہیں ہورہاہے۔ہم نے نام بدل بدل کروہ کام کرنے کاسلسلہ جاری رکھاہواہے جن کاموں کوکرنے سے اسلام میں سختی سے منع کیاگیاہے۔اسلام میں سودکے خلاف سخت ترین وعیدیں آئی ہیں۔ سودکے سترگناہ ہیں اوران میں سے سب کم درجے کاگناہ جوبتایا گیاہے اس کوسن کربھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کوئی جتنا بھی بدکاراوربدکردارہووہ ایسا کرنے کاتصوربھی نہیں کرے گا۔سودکا سب سے کم درجے کاگناہ یہ ہے کہ جیسے کوئی اپنی حقیقی والدہ کے ساتھ بدفعلی کرے۔ 69 گناہ اس سے بھی سخط ہیں۔ ہم ابھی تک سودکالین دین جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہم چورکا ہاتھ کاٹنے کوظالمانہ سزاکہتے ہیں اس کے بدلے میں اس کی جیب کاٹ لیتے ہیں تاہم ہمیں اس سے کوئی لینادینا نہیں ہوتاجواپنی زندگی میں محنت مزدوری کرکے بچوں کاپیٹ کاٹ کربیٹی کے جہیزکاسامان تیارکرتاہے اورچورایک ہی رات میں سب کچھ لے جاتے ہیں۔سودکے لین دین میں جوبھی اورجس حوالے سے بھی شامل ہوتاہے وہ بھی برابرکاذمہ دارہے اوراس کوبھی اتنا ہی گناہ ہوتاہے جتنا سودلینے والے اوردینے والے کوہوتاہے۔سودکوہم نے انٹرسٹ، ڈیو، منافع کانام دے رکھاہے۔رشوت لینے والا اوردینے والاددنوں جہنمی ہیں۔ ہماراکوئی کام رشوت کے بغیروقت پرنہیں ہوتا۔مجرے ناچ گانے، موسیقی کی آوازرات کے وقت پورے شہرمیں جائے اورلوگوں کی نینداچاٹ ہوکررہ جائے تواس پرایمپلی فائرایکٹ لاگونہیں ہوتا۔ کسی مذہبی پروگرام محفل میلادمیں نعت خوانی کی آوازپچاس میٹرتک بھی چلی جائے توآوازکم کرنے کاآرڈرآجاتاہے۔ہم نے اسلامی نظام کی تجربہ گاہ بنانے کے لیے قیام پاکستان کامطالبہ کیااب پاکستان کے قیام کے بعد اس کو ہم نے سیاسی نظام اوردیگراقتداری نظام بنانے کی تجربہ گاہ بنایاہواہے۔

منٹوپارک موجودہ اقبال پارک میں آل انڈیامسلم لیگ کاسالانہ اجلاس 23مارچ 1940ء کومنعقدکیا گیا۔اس اجلاس کی صدارت قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے کی ۔ اس تاریخی اجلاس میں پورے برصغیرسے بہت بڑی تعدادمیں مسلمان عوام نے شرکت کی۔صوبہ بنگال کے رہنمامولوی فضل الحق نے قراردادلاہورکے نام سے ایک قراردادپیش کی۔ زبردست نعروں کی گونج میں حاضرین نے اس قراردادکومنظورکرلیا۔اس قراردادکی منظوری کے بعد مسلمانوں نے اپنی منزل کاتعین کرلیا۔قراردادپاکستان مشرقی پاکستان سے پیش ہوئی۔ اب وہ بنگلہ دیش بن کرہم سے الگ ہوچکاہے۔اس ملک میں اب پاکستان کے خلاف مظاہرے بھی ہوچکے ہیں اورقراردادیں بھی پاس کی جاچکی ہیں۔ قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی اجلاس میں اپنے صدارتی خطاب میں مسلمانوں کی الگ وطن کی جدوجہدکے لیے سمت کاتعین کردیا۔انہوں نے اپنے اس صدارتی خطاب میں کہاکہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اورجداگانہ سماجی، ثقافتی اورمذہبی نظام رکھتے ہیں۔برصغیرایک ملک نہیں اورہندومسلم تنازعہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔جس کاحل برصغیرمیں ایک سے زیادہ ریاستوں کاقیام ہے۔ متحدہ برصغیرمیں مسلمانوں کے حقوق محفوظ رہنے کاامکان نہیں ہے۔قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے 23مارچ 1940ء کواقبال پارک میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اپنے صداری خطبہ میں مختلف ملکوں کی تقسیم کی مثالیں دیتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ سے آئرلینڈالگ ہوا۔نیزچیکوسلواکیہ بھی تقسیم کے نتیجہ میں قائم ہوا۔ایسے میں اگرجنوبی ایشیاء کوتقسیم کرکے مسلمانوں کوجداگانہ مملکت کانام دیاجائے تویہ فیصلہ پوری طرح تاریخی، منطقی اورجائزہوگا۔ جس روزقراردادپاکستان منظورکی گئی۔ وہ بڑاتاریخی اورقومی دن ہے۔اس دن کی یادتازہ رکھنے کے لیے اقبال پارک میں مینارپاکستان بنایاگیا۔ایسانہیں تھا کہ مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کامطالبہ وقتی غصے یاجذبات سے مغلوب ہوکرکردیا ہوبلکہ انہوں نے بڑے غوراورفکرکے بعدیہ مطالبہ کیا۔ مسلمان اکابرین1857ء کی جنگ آزادی کی ناکا می کے بعدمسلسل اس فکر میں تھے کہ مسلمانوں کوپرسکون، محفوظ اورباوقارماحول کیسے فراہم کیاجائے۔مسلمان ایک الگ قوم توتھے ہی انہیں تحفظات دینے کی بات بھی ہوتی رہی لیکن وہ اپنے مستقبل سے مطمئن نہیں تھے۔کئی مسلم شخصیتوں نے جداگانہ مسلم مملکت کے قیام کی طرف اپنی تقریروں اورتحریروں میں اشارے دیئے۔سیّدجمال الدین افغانی ، عبدالحلیم شرر،مولانا محمدعلی جوہراورخیری برادران کے نام زیادہ قابل ذکرہیں۔سیی۔آر۔داس اورلالہ لاجپت رائے جیسے ہندوبھی برصغیرکے سیاسی مسئلے کاحل علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کی صورت میں ڈھونڈھ رہے تھے۔بہت سے انگریزماہرین اورمصنفین نے برصغیرکی تقسیم کوقابل عمل اورفطری حل قراردیا۔شاعرمشرق ، مفکرپاکستان ڈاکٹرعلامہ محمداقبال رحمۃ اﷲ علیہ نے 1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے خطبہ الٰہ آباددیتے ہوئے کہا کہ برصغیرکے شمال مغربی اورشمال مشرقی علاقوں پرمشتمل الگ مسلم مملکت قائم کی جائے۔تواس سے مسلمانوں کابہترمستقبل وابستہ ہے۔1933ء میں چوہدری رحمت علی نے طالب علم کی حیثیت سے مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ آزادمملکتوں کے قیام کی تجویزایک پمفلٹ میں کی ۔ جس میں لکھا تھا کہ اب نہیں توپھرکبھی نہیں۔ لگتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت نے بھی اب نہیں توکب کانعرہ الیکشن مہم کے دوران اسی پمفلٹ سے ہی لیا تھا۔اورعوام نے اس نعرہ اب نہیں توکب کاکیا مطلب سمجھا نہ ہی ہم نے کسی سے جاننے کی کوشش کی ہے۔اگراسی سیاسی جماعت سے پوچھا جاتاکہ اس کاکیا مطلب ہے وہ یہی جواب دیتے کہ عوام کے مسائل اب حل نہیں ہوں گے توکب ہوں گے۔اس نعرہ کی جوتشریح ہم سمجھے ہیں وہ یہ کہ یہ مطلب توعوام کومطمئن کرنے کے لیے ہے کہ عوام کے مسائل اب حل نہیں ہوں گے توکب ہوں گے۔ہمارے ذاتی قیاس کے مطابق اب نہیں توکب کے نعرے کی تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ ہمیں اب اقتدارنہیں ملے گاتوکب ملے گا۔خیری جملے تودرمیان ایسے ہی آدھمکے۔ان جملوں نے ہمارے قومی مزاج کی نقل کرتے ہوئے ہمارے کالم میں مداخلت کی۔توہم بات کررہے تھے۔ چوہدری رحمت علی کی۔ انہوں نے اپنے پمفلٹ میں پیش کی گئی تجویزمیں علیحدہ مملکت کانام پاکستان تجویزکیا۔1938ء میں سندھ مسلم لیگ کاسالانہ اجلاس ہوا۔ اس میں بھی تقسیم کے حق میں قراردادمنظورکی گئی۔بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح رحمۃ اﷲ علیہ نے پاکستان ناگزیرتھاکہ مصنف سیّدحسن ریاض کوایک انٹرویودیتے ہوئے بتایاکہ 1930ء میں ہی علیحدہ مسلم مملکت کے قیام کافیصلہ کرچکے تھے۔1940ء تک قائداعظم رحمۃ اﷲ علیہ نے قوم کوذہنی طورپررفتہ رفتہ تیارکیا۔

قراردادپاکستان کے بنیادی نکات کی بات کی جائے تووہ یہ تھے۔باہم متصل اکائیوں کی نئے خطوں کی صورت میں حدبندی کی جائے۔شمال مغرب اورمشرق میں مسلم اکثریت والے علاقوں میں آزادمسلم مملکتین قائم کی جائیں۔اس قراردادکادوسرانکتہ یہ تھاکہ برصغیرکے لیے تقسیم کے علاوہ کسی دوسری سکیم کومنظورنہیں کیاجائے گا۔تیسرانکتہ یہ تھا کہ تقسیم ہوجاتی ہے توہندواکثریتی علاقوں میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ کامناسب بندوبست کیاجائے۔یہ توقاعدہ ہے کہ ایک کام اگرکسی کے لیے فائدہ ہوتاہے تودوسرے کے لیے نقصان بھی ہوسکتاہے۔قراردادپاکستان مین الگ وطن کامطالبہ مسلمانوں کے لیے فائدہ تھا تودیگرقوتوں کے مفادات کے لیے اوران کے مسلمانوں کے بارے میں عزائم کے لیے نقصان دہ بھی تھااس لیے اس قراردادکی منظوری کے بعدہندوپریس اورہندوقائدین نے قیام پاکستان کے مطالبے خلاف اظہاررائے کرنا شروع کردیا۔قراردادکامذاق اڑایاگیا۔اگرمولانا شبیراحمدعثمانی، مولانااشرف علی تھانوی اورمولانا ظفراحمدانصاری نے قراردادپاکستان کی حمایت کی تھی ۔تواسی قبیلہ کی ایک شخصیت نے یہ کیوں کہاتھا کہ شکرہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔برطانوی پریس نے قراردادکوزیادہ اہمت نہ دی۔شایداس وقت وہاں میڈیابھی آزادنہیں تھا۔ یاپھروہ جانبدارتھا۔عام تصوریہ پایاجاتاتھا کہ تقسیم تجویزمستردہوجائے گی۔ یہ تصورمسلمانوں میں نہیں ہندوؤں میں پایاجاتاتھا۔لیکن برصغیرکے مسلمانوں نے اپنے مستقبل کافیصلہ کرلیاتھا۔چندہی سالوں بعدمسلمانوں نے اپنی بے پناہ جدوجہداوراﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ والہ وسلم کی نصرت اورفضل وکرم سے پاکستان بنالیا۔یہ کالم ہم نے ایف اے کی کتاب مطالعہ پاکستان کی مدد سے تیارکیا ہے تاکہ تاریخی حوالہ جات میں کوئی غلطی نہ رہ جائے۔

اب ہم جن حالات میں یوم پاکستان منارہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔ہم نے پنجاب اورسندھ میں یوتھ فسٹیول اورسندھ فسٹیول میں کروڑوں روپے خرچ کرڈالے۔ایسے ایسے ریکارڈبناڈالے جس سے ہمارے قومی ترقی اورکردارمیں کوئی کردارنہیں بنتا۔انسانوں سے بڑے بڑے جھنڈے بنانے سے قوم کوکیا فائدہ ملا ہے یا آنے والے دورمیں اس سے کیافائدہ مل سکتاہے۔یہ توفسٹیول منانے والے بتاسکتے ہیں۔ اس سے ہم یہ جانتے ہیں کہ اس سے بھوکے کاپیٹ نہیں بھرسکتا۔ بینکوں کے پیٹ ضروربھرے ہوں گے۔ہم جشن منانے میں مگن رہے۔ دوسری طرف بچے بھوک سے تڑپ تڑپ کرموت کے منہ میں جاتے رہے۔بچے ہی نہیں پالتومویشی، جنگلی جانوراوردرندے بھی زندگی کی بازی سے ہارتے رہے اورہم اپنے میلوں میں مصروف رہے۔مستحقین میں تقسیم کرنے کے لیے فراہم کی گئی گندم گوداموں میں پڑی رہی اوربچے ہسپتالوں بھوک کی وجہ سے مرتے رہے۔ ایک وزیرکاکہنا تھا کہ ہم نے گندم فراہم کردی تھی۔ مستحقین تک پہچانا میری ذمہ داری نہیں۔ ان کوجواب یہ ہے کہ وہ ووٹ لینے کے وقت بھی کسی اورکوحکم دے دیتے ووٹ مانگنے خود نہ جاتے اورکہہ دیتے کہ ووٹ مانگنا میری ذمہ داری نہیں۔زیادتی کاشکارطالبہ انصاف کے حصول کی کوشش میں ناکامی پرخودسوزی کرلیتی ہے توقانون حرکت میں آجاتاہے۔تھرہی نہیں چولستان سمیت دیگرعلاقوں میں بھوک ناچ رہی ہے اورہمیں فضول ایشوزسے ہی فرصت نہیں ہے۔ اس سال بھی ہم نے ہرسال کی طرح منایا بلکہ اس سال یہ دن ہم نے پہلے سے زیادہ ملی جزبہ کے ساتھ منایا۔ہم نے تجدید عہد بھی کیا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم صرف تجدید عہد ہی کرتے رہیں گے یا اس پرعمل بھی کریں گے۔آج سوچیں اورغورکریں کہ کیا ہم نے یہ دن مناتے ہوئے ہمیں اپنا احتساب کیا کہ ہم نے ابھی تک وہ مقاصدکیوں حاصل نہیں کرسکے ۔ جن مقاصدکے لیے ہم نے الگ وطن کے قیام کامطالبہ کیاتھا۔ہم نے آزادی سے رہنے کے لیے الگ وطن کے قیام کامطالبہ کیاتھا ۔ اب آزادملک میں رہتے ہوئے پاکستان ایران گیس پائپ لائن بھی آزادی سے نہیں بچھاسکتے۔ہمیں غورکرنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 302398 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.