تبدیلی کب کہاں اور کیسے آتی ہے یہ مسلۂ صرف تھامس ہابس
اور جان لاک ہی کا نہیں تھا۔ بلکہ ہیگل نے تو پوری انسانی تاریخ کو
’’نظریات کی جنگ‘‘ کا سفر قرار دیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ایک نظریہ پیدا
ہوتا ہے اور دنیا میں اپنے اثرات پھیلاتا رہتا ہے جسے اس نے thesisکہا۔
ہیگل کہتا ہے کہ یہ اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس نظریے کی ’’ضد‘‘
پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہی، جسے اس نے anti-thesis کہا۔ ہیگل کے مطابق
تھیسس اور اینٹی تھیسس میں تصادم ہوتا ہے اور اس تصادم سے ایک تیسری چیز
synthesis نمودار ہوتا ہے۔ یہ synthesis صالح یا بہترین اجزاء پر مشتمل
ہوتا ہے۔ ہیگل کے اس نظریے کا کارل مارکس پر گہرا اثر پڑا، البتہ مارکس نے
یہ کیا کہ ہیگل نے جس معرکہ آرائی کو ’’نظریات‘‘ میں دکھایا تھا، مارکس نے
اس آویزش کو طبقات میں دکھایا۔ مارکس نے اس تبدیلی کو معنی خیز انداز میں
بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہیگل سر کے بل کھڑا تھا میں نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔
اسی طرح چین میں ماؤزے تنگ کے نظریات میں بھی طاقت کو مرکزیت حاصل ہوئی۔
ماؤ کا یہ قول مشہور زمانہ ہے کہ طاقت بندوق کی نال سے برآمد ہوتی ہے۔
اگرچہ کمیونسٹ انقلابات نے خود کو ’’نظریاتی‘‘ کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان
کی نظریاتی طاقت ثانوی چیز تھی۔ ان کا اوّل و آخر طاقت تھی۔ چوں کہ ان کا
آغاز طاقت تھی اس لیے ان کا انجام بھی طاقت ہی کے حوالے سے سامنے آیا۔
بیسویں صدی کے وسط تک آتے آتے طاقت کا ایک نیا مظہر ’’مارشل لا‘‘ کی صورت
میں سامنے آیا۔ نوآبادیاتی طاقتوں سے آزادی حاصل کرنے والے تیسری دنیا کے
اکثر ملکوں میں فوج سب سے منظم، باخبر، تعلیم یافتہ اور طاقتور ادارہ تھا۔
اس ادارے نے اپنی اس حیثیت کو ملک و قوم کے حق میں استعمال کرنے کے بجائے
ان کے خلاف استعمال کیا۔ ایشیا اور افریقہ کے متعدد ممالک میں مارشل لا
نمودار ہوئے اور ’جس کی لاٹھی اْس کی بھینس‘ کا فلسفہ جگہ جگہ حقیقت بنتا
نظر آیا۔
اہم بات یہ ہے کہ مارشل لا نے ہر جگہ معاشرے کی تشکیلِ نو کی۔ پاکستان میں
مارشل لا لگانے والے جنرل ایوب اور جنرل پرویزمشرف سیکولرتھے، چنانچہ ان کے
دور میں معاشرے میں سیکولرازم کو قوت حاصل ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق کا ذہن
مذہبی تھا، ان کے دور میں معاشرے میں مذہبی رجحانات کو فروغ حاصل ہوا۔
جمہوریت اگرچہ کمیونزم اور مارشل لا کی ضد ہے، لیکن طاقت کا تصور تینوں
نظاموں میں مشترک ہے۔ فرق یہ ہے کہ کمیونزم میں طاقت کا سرچشمہ کمیونسٹ
پارٹی، مارشل لا میں طاقت کا سرچشمہ فوج ہوتی ہی، اور جمہوریت میں طاقت کا
سرچشمہ عوام ہوتے ہیں۔ افراد اور معاشروں کو نسلی، قومی، لسانی اور مذہبی
تعصبات بھی متاثر اور تبدیل کرتے رہے ہیں۔ یہودیت ایک آسمانی مذہب تھا مگر
اس کے ماننے والوں نے اسے ایک نسلی مذہب بنادیا۔ ہندوازم کے بارے میں بھی
غالب گمان یہی ہے کہ وہ بھی کبھی ایک الہامی مذہب رہا ہوگا مگر ہندوازم چار
ذاتوں کا مذہب بن گیا۔ ہندوستان کی تاریخ، سماجیات، یہاں تک کہ معاشیات پر
بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ موجودہ دور میں عالمی طاقتوں کے ذاتی مفاد
ات اور پس پردہ سرمایہ دارانہ ذہنیت نیسیاسی اسلام کے سلسلے میں اس گمان کو
بڑھاوا دینے میں ہرممکن کوشش کی ہے اسلام اپنے نظریات،تعلیمات اور نظام کو
بطور قوت غالب کرنے کے درپے ہے۔ برخلاف اس کے ایسے موقع پر ہمیں یاد رکھنا
چاہیے کہ نیکی کی بنیاد پر ہونے والی تبدیلی، تقوے کے ابلاغ سے ہونے والی
قلب ِماہیت کئی نسلوں تک باقی رہتی ہے۔ مفہوم یہ ہے کہ نیکی ایک ایسا نعرہ،
ایسا نظریہ اور ایسا فلسفہ ہے جوکئی نسلوں کو اپنا اسیر کرسکتا ہے۔ پھر جس
کا انحصار ہر صورت میں اﷲ پر ہو وہ نہ طاقت پرست ہوسکتا ہے اورنہ طاقت کے
ذریعے اپنے نظریے کو پھیلا سکتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اسلامی معاشرہ اپنی روح
میں ایک جہادی اور مزاحمتی معاشرہ ہوتا ہے اور اس کی مزاحمت اپنے نفس سے لے
کر بین الاقوامی زندگی تک پھیلی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے علمبردار
ایک مضبوط،واضح اور مکمل نظام حیات کے فروغ و استحکام کے لیے ہر دم کوشاں
رہتے ہیں۔اس صورت میں ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کے
فروغ، اس کی بقا، اس کے استحکام اور اس کے قیام کے لیے سعی و جہد کرے ۔اور
ایک ایسا متبادل نظام حکومت فراہم کرے جس میں ایک طرف لوگوں کو امن و امان
میسر ہو تو وہیں دوسری طرف ان کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہو سکیں۔ مختلف
مذاہب کے لوگ اپنے مذہب پر بہ آسانی عمل پیرا رہ سکیں تو وہیں ان کا خاندان
تعمیر و ترقی کی منزلیں طے بھی کرسکے۔ تبدیلی قیادت کے عملی نعرہ کے ساتھ
جس سعی و جہد کا آغاز کیا جائے گا ممکن ہے کہ یہ جدوجہد اﷲ کی نظر میں
تخلیہ میں ادا کی جانے والی عبادت سے بڑھ کر ہو جائے !
تبدیلیِ قیادت! کن معنی میں؟:
تبدیلی ِقیادت سے ہماری مراد وہ قیادت ہے جو خوف خدا سے سے عاری نہ ہو۔
بلکہ قیادت ان لوگوں کے ہاتھوں میں منتقل کی جائے جو انسانی قوانین کا پاس
و لحاظ رکھنے کے علاوہ اُس ہستی کو بھی مانتے ہوں جو خود انسانوں کا موجد
اعلیٰ ہے۔یہ تبدیلی قیادت کی سعی و جہد اس بات کی بھی وضاحت کرے گی کہ
ہماری جدوجہد"اپنوں" کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان طاقتوں کے خلاف ہے جو اپنے
قومی و ذاتی مفادات کی وجہ سے عالم ِ انسانیت کو تباہ و برباد کرنے پر
آمادہ ہیں نیز اس تباہی و بربادی کو وہ خوبصورت ناموں سے تعبیر کرتے ہوئے
روبۂ عمل ہیں۔اس پس منظر میں آج جو قیادت موجود ہے ،ان میں اکثریت ان لوگوں
کی ہے جو ناکارہ، بے مقصد، اور نفس پرست انسانوں کی بھیڑ پر مشتمل ہے۔یہ
نفس پرست قائداخلاق و کردار کے میدان میں نہایت پستی میں مبتلا ہیں۔ان کی
تعلیم و تربیت کی مثال سمندر پر چھائے اس جھاگ سے ذرہ برابر بھی زائد نہیں
جو بلاشبہ پورے سمندر پر چھایا ہوا ہے اس کے باوجودنہ اس کا کوئی وزن ہے نہ
حیثیت۔یہی وجہ ہے کہ انسانیت سسک رہی ہے اورعالم انسانیت کی چیخیں چہار
جانب تیز سے تیز تر ہی ہوتی جارہی ہیں ۔لیکن اندھے ،گونگے اور بہرے قیادت
کے علمبردار ہیں کہ نہ انہیں کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہی کچھ سوجھتاہے۔ایسا
نہیں ہے کہ یہ بے کار یا ناکارہ لوگ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ان کی فکر کی
تصحیح نہیں ہو سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ تعلیمی سندیں رکھنے والے جب عمل
میدان میں آتے ہیں تو وہ دوسروں کے لیے نہیں بلکہ خود کے لیے جینا پسند
کرتے ہیں۔ ان کا ہر عمل صرف ان کی ذات تک محدود رہتاہے،فوائد و نقصانات وہ
اپنی ذات میں تلاش کرتے ہیں، اور جب کہیں بھی کسی بھی طرح کا فائدہ حاصل
ہوتا محسوس کرتے ہیں ،اس صورت وہ اس بات کی ذرا برابر پروا نہیں کرتے کہ
دوسروں کو اس سے کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وجہ بس اتنی کہ وہ علم سے تو
بہرہ مند ہوئے لیکن وہ علم ہی ناقص تھا کہ جو ان کو صحیح راستہ پر گامزن نہ
کرسکا۔علم تو درحقیقت وہ ہے جو خود شناسی اور خدا شناسی پیدا کرنے والا ہو
۔وہ علم ہی کیا جو نہ خود سے باخبر کراسکے، نہ خودی سے اور نہ ہی خدا سے،کہ
جس نے اُس کو پیدا کیا اور زمین کا نظم و نسق اس کے ذمہ کیا۔
ہمیں یہ شعور بھی بیدار کرنا ہے کہ خرابی کی اصل جڑ موجودہ نظام اور اس کی
پروردہ مفاد پرست، ملت فروش اور دنیا پرست قیادت ہے کہ جس پر نوٹس نہ لیا
گیا تو اصلاح و فلاح کے پہلو مدھم پڑ جائیں گے۔ ان طاقتوں کے خلاف اقدام سے
ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ موجودہ فلسفۂ زندگی پر تفکر کیا جائے، اس میں اصلاح
کے پہلوؤں کو ابھارا جائے، اور سب سے بہتر یہ ہوگا کہ اسلامی فلسفۂ زندگی
کو نافذ العمل بنانے کی سعی و جہد کی جائے۔ آج چہار جانب ظلم و بربیت کا
دور دورہ ہے اور ہماری حالت یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنے طرز معاشرت کو بہتر
بنانے کی فکر نے ،مسائل کو سمجھنے، ان پر غور و فکر کرنے اور ان کے خاتمہ
کی سعی و جہدکرنے سے بہت دور کر رکھا ہے۔اسلام کی رو سے یہ ظلم جو آج ہم
خود پر کر رہے ہیں،کٹہرے سے باہرہم خود بھی نہیں۔بنی کریمؐ کا ارشاد ہے
برائی کو ہاتھ سے روکا جائے، اس کو زبان سے برا کہا جائے اور اگر اتنی بھی
طاقت نہ ہو تو کم از کم دل میں برا سمجھاجائے۔ لیکن ایک لمحہ کے لیے ٹھہریں
!اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر !خو د سے معلوم کریں کہ کیا کبھی ہم نے اس
جانب بھی توجہ کی ہے؟کہا کہ :"اور اگر خدا لوگوں کو ان کے ظلم کے سبب پکڑنے
لگے تو ایک جاندار کو زمین پر نہ چھوڑے لیکن ان کو ایک وقت مقرر تک مہلت
دیئے جاتا ہے ۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے رہ سکتے ہیں نہ
آگے بڑھ سکتے ہیں"(النحل:۶۱)۔فرصت کے لمحات کو گنوانا نادانی کے سوا اور
کیا ہو سکتا ہے؟لازم ہے کہ جو لمحات بھی مہلت کے باقی ہیں ان کا استعمال
کرتے ہوئے میدان عمل میں اٹھ کھڑا ہونا چاہیے ۔یہی وقت کی آواز ہے اور یہی
ہمارا اولین فرض منصبی بھی۔آج ضرورت ہے کہ ظلم و بربیت سے نجات دلانے والے
امن پسند حضرات دوسروں کے لیے مشعل راہ بن جائیں۔اس پورے پس منظر میں2014کے
پارلیمانی الیکشن اور تبدیلی قیادت کے ایک "بہت قلیل مرحلے "میں اپنی حیثیت
اور اہمیت کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔اس وقت ملک اور اہل ملک کے مفاد میں جو
کوششیں اور نتائج بھی آپ سامنے لا سکتے ہوں ،منظم سعی وجہد کے ساتھ اپنا
کردار ادا کریں۔لیکن اس قلیل عملی مصروفیت کے بعد خدا کے واسطے پھر پانچ
سال کے لیے بے عمل نہ ہوجائیے گا! |