انصاف ہو تو ایسا

مصر میں جمہوری انتخاب اور عوام کے پہلے براہ راست منتخب صدر محمد مرسی کو گزشتہ برس تین جولائی کو یہ کہتے ہوئے معزول کر دیا گیا تھا کہ وہ عوام کی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں لانے اور ملک میں امن قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ معزول صدر محمد مرسی نے ایک سالہ دور اقتدار میں سخت اسلامی شعائر کو آئین کا حصہ بناتے ہوئے ملک کی لبرل آبادی اور اقلیتی نمائندوں کے تحفظات کو دور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس حوالے سے جو سیاسی تصادم شروع ہؤا ملک کے وزیر دفاع اور مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل ( جو اس وقت جنرل تھے ) عبدالفتح السیسی نے صدر مرسی کو معزول کرتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ اب انہیں عوام کو بغاوت پر اکسانے کے علاوہ دہشت گردی کے دو مقدمات کا بھی سامنا ہے ۔ملک کے نئے حکمرانوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ سیاسی رائے کا اظہار کرنے کی پاداش میں ملک بھر سے اخوان المسلمین کے ہزاروں کارکنوں اور لیڈروں کو گرفتار کر لیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس تنظیم پر پابندی عائد کر دی گئی۔ زیر نظر مقدمہ کا فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ملک کی فوج انتہائی جبر اور سخت گیری سے عام لوگوں کی رائے کو کچلتے ہوئے ملک پر اپنی مرضی کی حکومت اور نظام نافذ کرنا چاہتی ہے ۔اگرچہ قاہرہ کے قریب منایہ کے مقام پر سنائی جانے والی سزا ملک کے مفتی اعظم کی توثیق کے بعد حتمی شکل اختیار کرے گی۔ اس کے علاوہ ملزمان کو اپیل کرنے اور مقدمہ لڑنے کے امکانات بھی حاصل ہوں گے ۔ تاہم اس مضحکہ خیز فیصلہ کے ذریعے مصر کے فوجی حکمران، ملک کے عوام اور عالمی برادری کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انہیں مسلمہ انسانی حقوق اور قانونی اور اخلاقی روایات کا کوئی لحاظ نہیں ہے ۔ وہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ حتیٰ کہ ایک نچلے درجے کے قاضی کے ذریعے مختصر مدت میں سینکڑوں لوگوں کے خلاف پروانہ اجل جاری کروانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس مقدمہ کی سماعت پر جتنا وقت صرف کیا گیا ہے ، اتنی مدت میں تو اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کے نام بھی پڑھے نہیں جا سکتے ۔

مصر کی ایک عدالت نے انصاف کی ایک انوکھی مثال قائم کرتے ہوئے ایک پولیس اہلکار کے قتل کے الزام میں اخوان المسلمین کے 529 ارکان کو سزائے موت کا حکم دیا ہے ۔ ایک مختصر جمہوری تجربہ کے بعد فوج کی نگرانی میں قائم نام نہاد سویلین حکومت بربریت ، انسان دشمنی اور جمہوریت کشی کی نئی مثالیں قائم کر رہی ہے ۔حیرت انگیز طور پر یہ سزا مقدمہ کی دوسری سماعت کے موقع پر سنائی گئی ہے ۔ اس مقدمہ کی پہلی سماعت ہفتہ کے روز ہوئی تھی لیکن اسے فوری طور پر ملتوی کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ روز اس مقدمہ کی کارروائی شروع ہوتے ہی 529 افراد کو موت کی سزا کا حکم دیا گیا جبکہ ‘‘انصاف کے تقاضے ‘‘ پورے کرتے ہوئے 16 افراد کو اس مقدمہ سے بری کر دیا گیا۔ گزشتہ برس اگست میں ہونے والے اس تصادم کے الزام میں 1200 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق جن لوگوں کو سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے ، ان میں اخوان المسلمین کے اعلیٰ سطح کے لیڈر بھی شامل ہیں۔ 150 افراد پر غیر حاضری میں مقدمہ چلایا گیا ہے ۔ خبروں کے مطابق 700 مزید افراد کے خلاف مقدمہ کی سماعت جاری ہے۔

حیرت انگیز طور پر جس شخص نے مروجہ آئین و قانون اور مسلمہ جمہوری اور انسانی اصولوں سے گریز کیا وہ اس وقت مصر کا مرد آہن ہے ۔ اس کی آشیر باد سے ملک کی آئینی سپریم کورٹ کے سربراہ عدلی منصور کو صدر بنایا گیا ہے ۔ لیکن اصل اختیار فوج کے پاس ہے ۔ ان کا استعمال سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز کی جانب سے کیا جا رہا ہے ۔ اس دوران ملک میں نیا آئین بنایا گیا ہے اور ایک ریفرنڈم میں اسے 95 فیصد لوگوں کی اعانت بھی حاصل ہو چکی ہے ۔ جنرل السیسی نے خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی بھی دے لی ہے اور اب وہ ملک کے نئے صدر اور مطلق العنان حکمران بننے کے لئے پر تول رہے ہیں۔3 جولائی 2013ء کو محمد مرسی کی حکومت گرانے کے بعد اخوان المسلمین سے متعلق لوگوں نے دو مقامات پر دھرنا دیا جو انتہائی مشکل حالات میں ایک ماہ تک جاری رہا۔ تاہم سکیورٹی فورسز نے اگست کے دوران ان مظاہرین پر دھاوا بول دیا۔ اس موقع پر تشدد اور اسلحہ کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر عالمی انسانی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 1400 افراد ہلاک کئے گئے ۔ ان میں معصوم بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔

اخوان المسلمین کے لندن میں مقیم نمائندے عبدالحداد نے ایک بیان میں اس مقدمہ اور فیصلہ کو آمریت کی بدترین صورت قرار دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے حکمران اس طرح اپنے حقوق کی بات کرنے اور ان کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں۔ منایہ میں ہونے والا عدالتی فیصلہ عدل کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے ۔ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں عدالتی نظام کو فوجی حکمرانوں کی لونڈی بنا لیا گیا ہے ۔گزشتہ جولائی میں مصر کی تاریخ کی واحد منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے عمل کو امریکہ و مغرب سمیت تمام عرب ملکوں نے فراخدلی سے قبول کر لیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے اگرچہ نئے حکمرانوں پر نرم الفاظ میں تنقید کی گئی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ معزول صدر عوام کی خواہشات کا احترام کرنے میں ناکام رہے تھے ۔ امریکہ اور مغربی ممالک جو دنیا بھر میں جمہوری حقوق اور انسانی اصولوں کے فروغ کے دعوے کرتے ہیں، مصری فوج کو اپنے ہی عوام پر مسلط کی جانے والی دہشت گردی سے روکنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی سعودی عرب کی سرکردگی میں مشرق وسطیٰ کی امیر عرب مملکتوں نے فوری طور پر مصر کی نئی حکومت کو 5 ارب ڈالر کی خطیر امداد فراہم کی تھی تا کہ فوجی حکمران لوگوں کے فوری مسائل حل کر سکیں اور اس طرح وہ اخوان السملمین کے احتجاج اور اپیل کو کچلنے میں کامیاب رہیں۔ اس دوران سعودی عرب اور بحرین نے اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم بھی قرار دیا ہے ۔منایہ کی عدالت میں ہونے والے فیصلہ کا مضحکہ خیز پہلو یہ بھی ہے کہ احتجاجی کیمپوں میں قتل عام کرنے والے پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم جوابی کارروائی کے طور پر احتجاج اور توڑ پھوڑ کرنے والے سینکڑوں لوگوں اور گھروں میں بیٹھے ہوئے ان لیڈروں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے ۔ یہ بھی عدالتی تاریخ کا ایک انوکھا فیصلہ ہے کہ ایک پولیس اہلکار کے قتل کے الزام میں 529 افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے ۔

ان حالات میں بھی اگر عالمی ضمیر اس ظلم و زیادتی اور عوامی حقوق کے خلاف مصری حکومت کے شب خون پر خاموش رہتا ہے تو جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے متعدد ترقی پذیر ملکوں کے لوگوں کو صرف یہ پیغام بھیجا جائے گا کہ امیر اور دولتمند ملکوں کے لئے جمہوریت صرف اس وقت بھلی ہے جب تک وہ ان کے اپنے قومی اور ملکی مفادات کا تحفظ کرتی رہے ۔ یہ صورتحال استحصال اور ظلم کا شکار اس دنیا کے عام لوگوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے ۔

Syed Arif Nonari
About the Author: Syed Arif Nonari Read More Articles by Syed Arif Nonari: 12 Articles with 7794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.