غذا جزو بدن کیسے بنتی ہے؟

اگر چکنائی کو نظر انداز کردیں تو ہمارے جسم میں وزن کے لحاظ سے 20 فیصد حصہ پروٹینز پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ تقریباً 60 فیصد پانی ہوتا ہے۔ جسم کا باقی حصہ معدنیات سے بنا ہے جیسے کہ ہڈیوں میں کیلشیم ہوتا ہے۔ پروٹین کیلئے جو چیز بلڈنگ بلاکس کا کام کرتی ہے وہ ایک چھوٹا سا مالیکیول ہے جسے امینوایسڈ کہتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے جسم کا تعلق ہے تو اس میں دو مختلف قسم کے امینو ایسڈز ہوتے ہیں۔ اساسی اور غیر اساسی۔ غیر اساسی امینو ایسڈز وہ ہیں جنہیں جسم اپنے دیگر کیمیکلز کے ذریعے بنا سکتا ہے جبکہ اساسی امینو ایسڈز بنائے نہیں جا سکتے اور انہیں صرف خوراک کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ غذا میں پروٹینز حیوانی اور نباتاتی، دونوں ہی ذرائع سے آتی ہیں۔ حیوانی ذرائع جیسے گوشت، دودھ، انڈوں سے حاصل ہونے والی پروٹینز ’’مکمل پروٹینز‘‘ کہلاتی ہیں کیونکہ ان میں تمام ضروری امینوایسڈز موجود ہوتے ہیں۔ ویجی ٹیبل سورسز سے عموماً پورے امینوایسڈز نہیں ملتے۔ تاہم مختلف غذائوں کو ملا کر دن بھر کے لئے ضروری امینوایسڈز حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ کچھ ویجی ٹیبل ذرائع ایسے ہیں جو کافی زیادہ پروٹین پر مشتمل ہوتے ہیں جیسے مغزیات، پھلیاں اور سویا بین۔ انہیں ملا کر تمام کے تمام ضروری امینوایسڈز حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ ہمارا نظام انہضام تمام پروٹینز کو توڑ کر امینوایسڈز میں بدل دیتا ہے جس سے وہ خون میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد سیل ان امینوایسڈز کو بلڈنگ بلاکس کے طور پر استعمال کرکے انزائمز اور سٹرکچرل پروٹینز تشکیل دیتے ہیں۔ جب تک سیل کی ممبرین برقرار رہتی ہے اور جب تک موزوں طور پر کام کرنے کے لئے ضروری انزائمز بنتے رہتے تھے تب تک سیل زندہ رہتا ہے۔ انزائمز کے ذریعے سیل گلوکوز سے توانائی پیدا کرتا ہے، ایسے ٹکڑے تعمیر کرتا ہے جن سے سیل وال بنتی ہے، افزائش نو کرتا ہے اور نئے انزائمز بناتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے انزائمز کہاں سے آتے ہیں؟ اور ضرورت پڑنے پر سیل انہیں کیسے پروڈیوس کرتا ہے؟ اگر سیل محض انزائمز کا مجموعہ ہے جو کیمیکل ری ایکشن کے ذریعے سیل کو کام کرنے کے قابل بناتے ہیں تو پھر بعض کیمیکل ری ایکشنز ضروری انزائم کیسے بناتے ہیں اور سیل کی افزائش نو کیسے ہوتی ہے؟ ان سارے سوالوں کا جواب ڈی این اے یا ڈی آکسی رائبو نیوکلیک ایسڈ میں پوشیدہ ہے۔ ڈی این اے ہی سیل کو نئے انزائمز بنانے کے لئے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سیل کے اندر ڈی این اے کا پیٹرن چار مختلف حصوں سے بنتا ہے جنہیں نیوکلیوٹائیڈز یا بیسز کہتے ہیں۔ بلاکس کے ایک سیٹ کو تصور میں لائیے جس میں صرف چار مختلف شکلیں ہوں۔ یا ایک ایسی لینگوئج کو ذہن میں لائیے جس میں صرف چار حروف ہوں۔ ڈی این اے ایک لمبی ڈوری یا حروف کے بلاکس کی طرح ہے۔ ای کولی کے سیل میں ڈی این اے پیٹرن تقریباً 40 لاکھ بلاکس طویل ہوتا ہے۔ انسان کا ڈی این اے 3 ارب بلاک طویل ہوتا ہے۔ یہ ای کولی کے ڈی این اے سے ایک ہزار گنا طویل ہے اور ای کولائی کے ڈی این اے کی طرح محض ایک گچھا نہیں ہے بلکہ 23 ڈھانچوں کے اندر سختی سے لپٹا ہوا ہے جنہیں کروموسومز کہتے ہیں۔ ڈی این اے کے بارے میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ایک پیٹرن سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور یہی پیٹرن سیل کو بتاتا ہے کہ پروٹینز کیسے بنانی ہیں۔ ڈی این اے صرف یہی کچھ کرتا ہے۔ ای کولائی جیسے سادہ سے بیکٹریل سیل کے ڈی این اے میں 40 لاکھ بیسز سیل کو بتاتی ہیں کہ لگ بھگ ایک ہزار انزائمز کیسے بنانے ہیں جن کی ای کولائی سیل کو زندہ رہنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ جین ڈی این اے کا محض ایک حصہ ہے جو انزائم بنانے کے لئے ایک ٹمپلیٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ ڈی این اے کے پورے پروسس پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ یہ انزائم میں کیسے بدلتا ہے تاکہ اس کے کام کو پوری طرح سمجھا جا سکے۔ ڈی این اے دو ڈوریوں کی طرح ہے جو ایک لمبے سپرنگ کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ لپٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ ڈی این اے تمام سیلوں میں بیس پیئرز کے طور پر موجود ہوتا ہے اور چار مختلف نیوکلیوٹائیڈز سے تشکیل پاتا ہے۔ ہر بیس پیئر دو کمپلیمنٹری نیوکلیوٹائیڈز سے بنتا ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کے ’’حروف تہجی‘‘ میں چار بیسز حسب ذیل ہیں: -1 ایڈنین (Adenine) -2سائٹوسین (Cytosine) -3گوانین (Guanine) -4تھائمن (Thymine) ایڈنین اور تھائمن ہمیشہ ایک جوڑے کی صورت میں اور سائٹوسین اور گوانین دوسرے جوڑے کی صورت میں بندھے ہوتے ہیں۔ یہ جوڑے مل کر ایک سیڑھی کے پائیدان جیسی شکل بناتے ہیں۔ ای کولائی بیکٹیریم میں یہ سیڑھی 40 لاکھ بیس پیئرز تک طویل ہوتی ہے۔ سیڑھی کے دونوں کنارے ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں جس سے ایک حلقہ یا رِنگ بنتا ہے اور یہ رِنگ لپٹا ہوا ہوتا ہے تاکہ سیل کے اندر پورا آسکے۔ اس پورے رِنگ کو جینوم کہتے ہیں اور سائنس دانوں نے اسے پوری طرح ڈی کوڈ کرلیا ہے۔ یعنی سائنس دان پورے 40 لاکھ بیس پیئرز کو جانتے ہیں جن سے ای کولائی بیکٹیریم کا ڈی این اے بنا ہے۔ ہیومن جینوم پروجیکٹ کے تحت تمام 3 ارب بیس پیئرز کو سمجھنے کا سلسلہ بھی جاری ہے جن سے ایک روایتی انسانی ڈی این اے تشکیل پاتا ہے۔ ٭…٭…٭

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 274908 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More