جس تیزی سے آج کا انسان جدیدیت کاشکار ہو رہا ہے، اس بات
کو بغیر کسی مبالغے کے کہا جا سکتا ہے کہ وہ زمانہ دور نہیں جب انسان مکمل
طور پر کمپیو ٹرائزڈہو چکا ہو گا۔دیکھا گیا ہے کہ اس دور کے اکثر بوڑھے
موبائل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔میں نے وہ
بوڑھے بھی دیکھے ہیں جو بجلی کا بٹن دبانے سے بھی ڈر کا اظہار کیا کرتے یا
اپنی کم علمی تسلیم کر لیا کرتے۔ہم خود بھی کمپیوٹر کو بہت مقدس سمجھتے رہے
ہیں،اور آج تک بھی سمجھتے ہیں۔
اس کے برعکس جب ہم نئی نسل کو دیکھتے ہیں تو دھنگ رہ جاتے ہیں کہ یہ کیسی
مخلوق ہے: ان کی انگلیاں کیسے چلتی ہیں،دماغ کیسے چلتے ہیں،اور وہ خود کیسے
چلتے ہیں۔پتلی پتلی ٹانگیں،کمزور سے بازو،آنکھوں پر عینک، بکھرے بال،ماضی
سے بے خبر،مستقبل سے بے پرواہ،حال سے بے حال۔لیکن آئی ٹی کی باتیں اتنی
فرفر کہ جہاں دیدہ،انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔یقینی طور پر ایسا لگتا ہے کہ
زمانہ بدل گیا ہے،نیا دور ایک بہت بڑا انقلاب ہے جسے ماضی کی نظرِ بینا
کبھی نہیں دیکھ سکی۔ہم تو حیران ہوتے ہیں کہ اقبال ایک صدی پہلے کیا دیکھ
کر محوِحیرت ہو گئے تھے جبکہ اس وقت تو آج جیسی حیرت گم کرنے والی چیزیں
ابھی ظہور پزیر نہیں ہوئی تھیں۔خیر ہر زمانے میں انسان حیران بھی رہا ہے
اور پریشان بھی رہا ہے۔
آج کا دور ماضی کے تمام ادوار سے بجا طور پر زیادہ حیران کن دور ہے کیونکہ
یہ ایک ایسے دور کا نقیب ہے جس کا ماضی میں کوئی رقیب نہیں رہا۔یہ اپنے
انداز کا ایک منفرد دور ہے جب انسان کمپیوٹرائزڈ ہونے لگے ہیں اور آنے والے
وقت میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔جس طرح سموں،ڈیوائسوں اور نٹ پے مختلف پیکج
ملتے ہیں ایسے ہی دماغ کے کمپیوٹرائزڈ کروانے کے پیکج فروخت ہوا کریں
گے۔لوگ دماغوں کے سافٹ ویئر کروایا کریں گے۔انسان کی اپنی یادداشت کم سے کم
رہ جائے گی۔ہو سکتا ہے اس کا نام، پتہ، پیشہ،جیسی باتیں اس کو مستقل طور پر
فیڈ کر دی جائیں۔
پھر کتابیں، کلاسیں، لائبریریاں،سکول،کالج،یونیورسٹیاں وغیرہ ماضی کے
کھنڈرات میں بدل جائیں۔استادوں کی اتھارٹی، ادب و احترام غیر مستند تاریخی
حوالوں کی شکل اختیارکر لیں۔ہر چیز نٹ، پن ڈرائیو، موبائل،لیپ ٹاپ وغیرہ سے
اٹھا کر ایک فلیش کی طرح دماغ میں فیڈ کر دی جائے۔ بڑی سے بڑی ڈگری ایک
سوفٹ ویئر کی طرح انسان کے دماغ میں رکھ دی جائے۔تمام سوچیں، خواہشات،
نظریات،تواہمات جیسی چیزیں پلک جھپکنے میں ذہن نشیں کر دی جائیں۔الیکٹرانی
محبتیں،جذبات، احساسات،انسانی رویوں کی جگہ لے لیں۔
اگر ایسا ممکن ہے ، تو اﷲ کرے کہ ایسا جلد ہو ، تا کہ موجودہ اور آنے والے
دور کے طلبہ و طالبات بجائے کتابیں پڑہنے کے ذہنوں میں سافٹ ویئر کروائیں
اور کمپیوٹرائزڈ دماغوں کے ساتھ بہتریں زندگی گزاریں۔ |