رات کے11 بجے رہے تھے۔ دوسرے کمرے سے ا می نے آواز دی،
بیٹا دستر خوان لگ چکا ہے کام بعد میں کرتے رہنا ،پہلے کھانا کھالو۔ ابھی
پہلا نوالہ ہاتھ ہی میں تھا کہ میز پر رکھے ہوئے، میرے موبائل نے بجنا شروع
کر دیا۔ السّلام علیکم : شکیل بھائی خیریت تو ہے، آپ کی آواز نہیں آرہی،
ذرا اونچی آواز سے بولیں، اچانک رونے اور ہچکیوں کی آواز آئی۔ مجھ پہ سکتا
طاری ہوگیا، ارے بھائی بتاؤ تو سہی آخر ہوا کیا؟ آپ کیوں رو رہے ہو!
دوسری طرف سے ہلکی سی آوازآئی میں سیڑھیوں سے گر گیا ہوں، لگتا ہے میر ی
ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ میرے گھر والے کہیں گئے ہوئے ہیں، آپ جلدی سے آؤ، ورنہ
میں تڑپ تڑپ کر مرجاؤں گا۔ ہمارے تو ہوش ہی اُڑ گئے، امّی نے چیخنا چلّانا
شروع کردیا، ارے جلدی کرو شکیل کے پاس جاؤ ہم لوگ ٹیکسی کے چکر میں سڑک پر
ِادھراُدھر بھاگنے لگے تھوڑی ہی دیر میں ٹیکسی مل گئی۔ میں اپنے گھر والوں
کے ساتھ اس میں سوار ہو کرشکیل کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ ہماری پریشانی کو
بھانپتے ہوئے ٹیکسی ڈرائیور نے بھی گاڑی کو پوری رفتار کے ساتھ بھگانا شروع
کیا، راستے میں سوچ رہا تھا، کہ اگر گھر والے بر وقت نہ پہنچے، تو گیٹ
توڑنا پڑے گا، لیکن جونہی گھر پہنچے، تو منظر اسکے برعکس تھا۔گیٹ پر شکیل
کے والد اپنے دوست سے محوگفتگو تھے، ہمیں گیٹ کی طرف لپکتے دیکھ کر وہ
ھماری طرف دوڑے آئے، ارے بھائی۔ رکو،رکو، خیریت تو ہے ،کیا ہوا؟آپ لوگ اتنے
پریشان لگ رہے ہیں، امّی فوراََ بولیں، شکیل کو کیاہوا؟ بہن شکیل تو بالکل
ٹھیک ہے، ابھی ابھی دوستوں کے ساتھ ہوٹل کی طرف نکلا ہے، اُف خدایا۔ یہ کیا
ماجرہ ہے، آپ کو کس نے بتایا؟ ارے انکل جی ،ابھی کچھ دیر پہلے، مجھے شکیل
نے فون کیا، کہ گھر والے موجود نہیں، میں سیڑھیوں سے گرگیا ہوں، ہمارے پاس
بیلنس نہیں تھا، کہ آپ لوگوں سے رابطہ کرتے، شکیل کے والد نے فوراََ رابطہ
کیا تو اس نے اتنا کہہ کر (بابا جی آج تو میں اپریل فول منارہا ہوں) اور
فون بند کر دیا۔
قارئین کرام ۔یہ کتنی اذیت ناک صورتِ حال ہے، جس کی بنیادیں سو فیصدجھوٹ پر
مبنی ہیں،جب کہ جھوٹ بولنے والے کا مقصد صرف تفریح ہوتا ہے، ایسافعل اسلام
کے منافی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کلامِ پاک میں فرماتا ہے ’’جھوٹے پر اﷲ کی لعنت‘‘ (القرآن)
رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ’’اُس شخص کے لئے ہلاکت ہے ،جو جھوٹی باتیں کرتا ہے،
تاکہ لوگوں کو ہنسائے ،ہاں اسکے لئے ہلاکت ہے‘‘ (ابو داؤ)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جسکے ہاتھ اور زبان سے، دوسرے مسلمان
محفوظ رہیں، ‘‘اسلام نے ان تمام افعال کو حرام قرار دیا ہے۔ جو یہودونصاریٰ
سے مشابہت رکھتے ہوں ،اسلئے اس دن کا منانا حرام ہے۔
سیدناعبداﷲ بن عمرو بن العاص ؓکا قول ہے :’’جس نے مشرکین کے ملک میں گھر
بنایا،ان کے نوروز اور مہر جان کے جشن منائے اور اسی حالت میں اسکی موت
آگئی، تو قیامت کے روزانھی کے ساتھ اُٹھایا جاے گا ‘‘(بیہقی)
حضرت عبداﷲ بن مسعودرضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
’’سچ کو لازم پکڑ لو، اس لئے کہ سچائی جنّت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور
انسان ہمیشہ جھوٹ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کے اسے اﷲ
تعالیٰ کے ہاں سچا لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو۔ اس لئے کہ جھوٹ گناہوں
کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ دوزخ کی طرف لے جاتے ہیں اور انسان ہمیشہ جھوٹ
بولتا ہے اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ ، اسے اﷲ تعالیٰ کے ہاں
جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (بخاری شریف)
معلوم ہوا کہ جھوٹ جہنم کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے اور بعض روشن خیال
حضرات ، کو یہ کہتے ہوئے سُنا گیاہے کہ اسلام نے ہمیں خوشی کے لئے یہ ایک
دن دیا ہے۔ جتنا چاہے، جھوٹ بو لو۔ حالانکہ اس طرح کے فضول اور عذابِ الہٰی
کو دعوت دینے والے، کاموں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ تمام خرافات،
اہلِ مغرب سے در آمد کی ہوئی ہیں۔ اس گھناؤنے کھیل کی ابتداء کرنے والے اور
اسے پروان چڑھانے والے غیر مسلم ہیں۔ آپس کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے
اسلام نے خوش مزاجی، خوش اخلاقی اورمزاح کی اجازت دی ہے، لیکن جھوٹ کی
قطعاََ اجازت نہیں دی ۔ اسلام اس فعل سے منع کرتا ہے، جس میں جھوٹ شامل ہو۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوا، اور کہنے لگا، یارسول اﷲ ﷺ،مجھے کوئی سواری عنایت فرمائیں، رسول اﷲ ﷺ
نے فرمایا، ہم تجھے اونٹنی کا بچّہ دے دیں گے، اس نے کہا، اے اﷲ کے رسول ﷺ،
میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا، تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، اونٹنی ہی تو
اونٹ کے بچّے کو جنم دیتی (ترمذی شریف)
یعنی مندرجہ بالا تین صورتوں کے علاوہ جھوٹ بولنا جائز نہیں خواہ، اس کا
تعلق سنجیدگی اور خوش طبعی سے ہو ۔سچ کڑوا ضرور ہے ، لیکن اس میں عزت ہے۔
ذلّت و رسوائی جھوٹ بولنے والے کا مقدّر ہے۔ سچّے انسان پر اﷲ کا خصوصی فضل
و کرم ہے، جب کہ جھوٹے پر اﷲ کی لعنت اورغضب ہے، ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے
ہزاروں جھوٹ بولنے پڑیں گے، اسلام جھوٹ بولنے والے، دھوکہ دہی اوراپنے
مسلمان بھائی کو تکلیف دینے والے کو سختی سے منع کرتا ہے۔
تاریخی اعتبار سے اپریل فول کاآغاز سولہویں صد ی عیسو ی میں ہوا۔ فرانسیسی
اپنے نئے سال کا آغاز یکم اپریل سے کرتے تھے، اور مختلف تقریبات کا اہتمام
بھی کرتے تھے۔ 1645ء میں فرانس کے بادشاہ شارل نہم نے نئے سال کا آغاز،
اپریل کے بجائے، جنوری سے شروع کرنے کا حکم دیا۔ اس کے باوجود بھی لوگوں کی
اکثریت نے گزشتہ روایت کو برقرار رکھااور تا حال جار ی و ساری ہے ۔
ڈاکٹر عبد اﷲ القریونی کے مطابق یورپ میں اسکی ابتداء ایک انگریزی اخبار،
ایفنج سٹار نے 31 مارچ1846ء کو اعلان کیا ،کہ کل یکم اپریل کو گدھوں کی
نمائش ہوگی، لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچ کر نمائش کا انتظار کرنے لگی
۔جب وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئے، تو پوچھنا شروع کیا کہ نمائش کہاں ہے۔ تو
کہا گیا کہ جو گدھوں کی نمائش دیکھنا چاہتے ہیں، وہ خود ہی گدھے ہیں، خود
کو دیکھ لیں،اس طرح کے اور کئی واقعات تسلسل سے ہوئے، اب یہ واقعات ایک
مستقل تہوار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ اس زہر نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ
میں لے لیا ہے۔
معزز قارئین۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ باطل مذاہب والے اسلام کو مٹانے
اور کی کوشش میں مگن ہیں اور ہم ا ن کے تہواروں پر جشن مناکر، ان سے
محبّتکا اظہار اور اسلامی تعلمیات اور اﷲ اور رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کے خلاف
کام کرتے ہیں۔
سعودی مفتی اعظم شتخ عبدالعزیز بن عبد اﷲ نے فتویٰ دیا ہے کہ اپریل فول
کافروں کا شغل ہے، اور مسلمانوں کے لئے حرام ہے(بحوالہ روز نامہ جنگ2 اپریل
2001)
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’ تم یہودو نصاریٰ کی مخالفت کرو‘‘ اور ہم ا ن کے
تہواروں میں جشن منا کران کے ساتھ محبّت کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم حب رسول اﷲ
ﷺ کے دعوے تو کرتے ہیں، لیکن زبانی جمع خرچ کے ساتھ، جب کہ حقیقت، اس کے بر
عکس ہے ۔ہم ان کے ساتھ بھی قدم سے قدم ملائے ہوئے ہیں۔ ان مغربی تہواروں کے
مجموعی کردار کو د یکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ بظاہر، ہم نظریاتی جنگ ہار رہے
ہیں،ہم اپنے ہاتھوں سے اسلامی شعور کا گلا دبا رہے ہیں۔الحمدﷲو اسلام ایک
آفاقی دین ہے۔ مسلمانوں کے پاس تہذیب و تمدن کے ایسے درخشندہ نمونے موجود
ہیں ۔جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔
مانگتے پھرتے ہیں ،اغیار سے مٹی کے چراغ
اپنے خورشید پہ ،پھیلادئیے سائے ہم نے |