قومی انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں نریندرمودی نےسرمایہ
داروں کی دولت اور ذرائع ابلاغ کی شہرت سے خوب ہوا بنائی لیکن جیسے ہی
امیدواروں کی نامزدگی کا مرحلہ آیااس کی ہوا اکھڑنے لگی اور گھبراہٹ کے
عالم میں حماقتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔فی الحال بغاوت کے طوفان میں گھری
بی جے پی کو سجھائی نہیں دےرہا ہے کہ آخرکرے تو کیا کرے؟ اسی لئے کبھی رام
سینا کے پروین متلک کا پارٹی میں استقبال کیا جاتا ہے تو کبھی اخراج کردیا
جاتا ہے۔ایم جے اکبر کو پارٹی میں شامل کیا جاتا ہے تو جسونت سنگھ کا پتہ
کاٹ دیا جاتا ہے۔جگدمبیکا پال کو کانگریس سے بلا کر ٹکٹ تھما دیا جاتا ہے
اور ۶ مرتبہ لگاتار کا میاب ہو نے والےاحمد آباد کے رکن پارلیمان ہرین
پاٹھک کودروازہ دکھا دیا جاتاہے۔ رام ولاس پاسوان کے ۵کے بجائے ۷ نشستوں
سےنواز دیا جاتاہےمگرسابق رکن پارلیمان لال منی لال چوبے کو محروم
کردیاجاتا ہے دراصل یہ تمام تو مرض کی علاماتِ محض ہیں ۔بیماری کا پتہ
لگانے کیلئے مریض ِاعظم یعنی نریندر مودی کی جانچ پڑتال ناگزیرہے۔
بی جے پی پر ۲۷۲ کا بھوت کچھ اس طرح سوار ہے کہ اس کی گنتی وہیں سے شروع ہو
کر وہیں ختم ہوجاتی ہے ۔گزشتہ دنوں بڑے طمطراق کے ساتھ یہ خبر آئی کہ
نریندر مودی تشہیر کے آخری مرحلے میں ۲۷۲ جلسوں سے خطاب کریں گے اور یہ
کارپٹ بامبنگ ہوگی ۔جس کی ابتداء کیلئے جموں کا انتخاب کیا گیا۔ اس لئے کہ
لاکھ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے کے باوجود کشمیر کی وادی میں جاکر جلسۂ
عام کرنے کی جرأت آج تک کوئی سنگھ پریوار کا رہنما نہیں کر سکا ہے۔ جموں
کے جلسۂ عام میں مودی نے بمباری تو ضرور کی لیکن اس کا نشانہ بی جے پی کا
وہ خیمہ تھا جس کی آبیاری ایک مخصوص انداز میں وہ خود گزشتہ دوسال سے
کررہا تھا اور ہوا یہ ایک لمحہ میں سارا خواب چکنا چور ہو گیا ۔
نریندر مودی نے اپنےوزیراعظم بننے کے خواب میں رنگ بھرنے کا کام دوسال قبل
سدبھاؤنا یاترا سے شروع کیا تھا ۔ سدبھاؤنا (خیر سگالی) مہم کی مدد سے
کٹر ہندوتوا کے علمبردار بھیڑئیے نے بھیڑ کی کھال اوڑھ لی تھی۔ یہ ایک
حقیقت ہے کہ مودی نے اپنا تشخص بدلنے میں بہت حدتک کامیابی حاصل کی اور ایم
جے اکبر جیسے کہنہ مشق صحافی بھی اپنا مستقبل سنوارنے کیلئے اس کا ڈھول
بجانے لگے ۔ مودی نے رام کانام بدنام کرنے کے بجائے ترقی ، بدعنوانی اور
موروثیت کی بنیاد پر کانگریس پر نشانہ سادھا۔ لیکن اول تو گجرات کی نام
نہاد ترقی کا پول اروند کیجریوال نے کھول دیا اور پھر بدعنوانی کے معاملے
میں بھی کیجریوال کے سامنے مودی بونہ نظر آنے لگا۔ یدورپا اور ریڈی
برادران کو پارٹی میں شامل کرلینے کے بعد وہ مدعا اپنی موت مرگیا۔موروثیت
کے باب میں مودی کی منظورِ نظر وزیراعلیٰ وجئے راجے سندھیا نے(جو ایک
سیاستداں کی بیٹی ،دوسرے کی بہن اور تیسرے کی پھوپی ہیں)اپنے بیٹے ماویندر
کو ٹکٹ دلوا کرسونیا گاندھی کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اس پر طرہ یہ کہ کانگریس سے
سونارام چودھری کو بلا کر اپنی ہی برادری کےجسونت سنگھ کا باڑمیر سے پتہ
کاٹ دیا۔
مذکورہ بالا تمام محاذ پر بے دست و پا ہوجانے کے بعد نریندر مودی کی بلی
وقت سے پہلے تھیلے سے باہر آگئی لیکن اس بار اس نے کھمبا نوچنے کے بجائے
خود اپنا ہی منھ نوچ لیا ۔ مودی کے ہاری حواریوں نے جب اسے بتایا کہ اس کی
تمام تر کوشش کے باوجود کوئی مسلمان یا عیسائی تو اس کے قریب نہیں آیا
بلکہ خود اس کے اپنے انتہاپسند حامی مایوس ہو کر دور جانے لگے ہیں تو وہ
اپنے اصلی رنگ روپ میں لوٹ آیا ۔ جموں کے اندر مودی نے پاکستانی اخبارات
کا سہارہ لے کر کہا کہ وہ لوگ تین اے کے سے بہت خوش ہیں۔ اول تو اے کے ۴۷
دوسرے اے کے انٹونی اور تیسرے اے کے ۴۹ یعنی اروند کیجریوال۔ اس طرح گویا
پاکستان کا نام لے کرنہ صرف مسلمانوں کوبلکہ یوپی اے کے معروف عیسائی وزیر
پر توپ داغ کر فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلا گیا نیز اس میں اروند کیجریوال کا
اضافہ کرکے اسے بھی پاکستانی ایجنٹ بنا دیا گیا۔
اروند پر الزام ہے کہ عاپ کی ویب سائٹ پر ہندوستان کے نقشے میں کشمیر کو
ہندوستان سے الگ دکھلایا گیا ہے۔ میں نے اس الزام کے بعد عام آدمی پارٹی
کی ویب سائٹ پروہ نقشہ خوب تلاش کیا لیکن نہیں ملا اور یقیناً مودی کو بھی
نہیں ملے گا بشرطیکہ وہ اسے تلاش کرے ۔ ویسے بھی فی الحال بیچارےمودی
کوسوائے وزیر اعظم کی ٹوٹی ہوئی کرسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔ مودی کے مطابق
انٹونی اور کیجریوال پاکستان کے ایجنٹ ہیں۔یہ عجیب منطق ہے کہ جوناراض
کانگریسی اپنی پارٹٰی کو چھوڑ کر بی جے پی میں آجاتا ہے وہ نہ صرف دیش
بھکت بن جاتا ہے بلکہ بدعنوانی کے سارے داغ اس کے دامن سے یکسر دھل جاتے
ہیں اور جو نہیں آتا وہ پاکستان کا ایجنٹ قرار پاتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ
کرسی کیلئے اپنے ملک کے وزیردفاع پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا نے
والے انسان سے بڑا دیش دروہی کوئی نہیں ہو سکتا؟
بنارس سے اروند کیجریوال نے کاغذاتِ نامزدگی کیا داخل کئے کہ بی جے پی کے
خیمہ میں گھبراہٹ پھیل گئی۔ اس کا مظاہرہ کہیں سیاہی کے چھڑکنے سے تو کہیں
انڈوں کو پھینکنے سے ہورہا ہے ۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مودی اپنے کارکنان کو
ان اوچھی حرکات سے منع کرتا لیکن اس نے اپنے غیر ذمہ دارانہ بیان سے نہ صرف
ہمت افزائی کی ہے بلکہ مزید شہ دی ہے جواسےمہنگی پڑے گی۔بنارس کا براہمن
مودی کو اس لئے ووٹ نہیں دے گا کیونکہ مرلی منوہر جوشی کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا۔
لال منی چوبے نے بکسر سے آزاد امیدوار کے طور پر کاغذات داخل کرنے کے بعد
کہا کہ ان کا تعلق وارانسی سے بھی ہے اوروہ وہاں جاکر مودی کے خلاف مہم
چلائیں گے ۔ یادو سماجوادی کے ہمنوا ہیں اورہر ہر مودی کے نعرے کو اچھال
رہے ہیں ۔ بنیاکیجریوال کو چھوڑ کر بھلا کسے ووٹ دیں گے جوخودبنیا ہے۔ دلت
بہوجن سماج پارٹی کو ووٹ دے گاچاہے ان کا امیدوار جیتے یا ہارے۔اگر کانگریس
دگ وجئےسنگھ کو اپنا امیدوار بنادے تو راجپوت انہیں کو اپنا ووٹ دیں
گے۔ویسے بھی دگ وجئے کے یہ کہنے پر کہ مودی سے بہتر سشما ہے سشما نے دگ
وجئے کو راہل سے بہتر قرار دے ہی دیا ہے۔ ایسے میں کاسٹنگ ووٹ مسلمانو ں کا
ہوگا جو کیجریوال کے حصے میں آئیگا اور وہ جیت جائیگا ۔ مودی کو بنارس کے
اندر اپنی شکست کا احساس ابھی سے ہو گیا ہے ۔اسی لئے وہ ہذیان بکنے لگا ہے
۔
جسمانی مریض خود پریشان رہتا ہے لیکن دماغی یا نفسیاتی مریض جسے عرف عام
میں پاگل کہا جاتا ہے دوسروں کو پریشان کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا
نہیں ہے کہ وہ خود سکون میں ہو بلکہ وہ خود بھی بے شمار مصیبتوں میں گرفتار
ہوتا ہے مودی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ مودی کی وجہ سے عام آدمی کو تو
یہ پریشانی ہے کہ وہ سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے ان کی دولت کے سہارے اپنی
انتخابی مہم چلا رہا ہے اس لئے جب انہیں دولت واپس کمانے کا موقع دے گا تو
مہنگائی میں بے شمار اضافہ ہوگا۔ جس طرح گجرات میں ۶۵ ہزار چھوٹی صنعتوں کو
اس نے بڑے صنعتکاروں کے اشارے پر بندکروادیا اسی طرح ہندوستان بھر میں
کرےگا ۔مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہے کہ اپنی شہرت کو بڑھانے کیلئے مودی گجرات
میں جو مسلم نوجوانوں کا فرضی انکاؤنٹر کروایا کرتا تھا اب وہی کھیل قومی
سطح پر کھیلا جائیگا۔ جو بھولے بھالے لوگ یہ کہنے لگےتھے مودی بدل گیا ہےان
کی غلط فہمی کو مودی نے مولانا عبدالقوی صاحب کو دہلی میں احمد آباد پولس
کے ذریعہ گرفتار کرواکر دور کردی ۔
مولانا عبدالقوی کا نام اے ٹی ایس نے ہرین پنڈیا قتل کیس میں گرفتار ہونے
والے بے قصور وں کی زبان سے سنا تھا۔ اب وہ سارے نوجوان رہا ہو چکے ہیں اس
کے باوجود مولانا دس سال بعددھر لئے گئےجبکہ ہرین پنڈیا کے والد اور بیوی
علی الاعلان نریندر مودی پر اپنے دوست کے قتل کا الزام لگاتے ہیں ۔ اگر
وزیراعظم بننے سے قبل یہ مودی کی یہ چال ڈھال ہے تو بعد میں کیا ہوگااس کا
اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عین انتخاب سے قبل ایک
پاکستانی دہشت گرد محمد ضیا ء الرحمان عرف وقاص کی گرفتاری اجمیر سے عمل
میں آتی ہے ۔اس کے بعدمحمد معروف جے پور سے اورمحمد ثاقب انصاری کو
جودھپور سے وقار اظہر کے ساتھ گرفتارکرلیاجاتا ہے۔ اسی دوران دھنباد کے
محمد یاسر اور گیا سے تعلق رکھنے والے محمد عبدالواحد کی گرفتاری دہلی میں
ابو الفضل انکلیو سے ہوتی ہے ۔ ان تمام نوجوانوں پر پٹنہ میں مودی کی ہنکار
ریلی کے دوران ہونے والے بم دھماکوں کا الزام جڑ دیا جاتا ہے جبکہ عوام کے
دباؤ پر یاسر اور واحد رہا بھی کردئیے جاتے ہیں ۔
حیرت اس پر نہیں ہے کہ بی جے پی کی وزیراعلیٰ سندھیا یہ تماشہ کرتی ہیں اس
لئے کہ انہوں نے مودی پر راجیو گاندھی جیسے حملے کا اندیشہ ظاہر کرہی دیا
ہےبلکہ تعجب اس پر ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شندے جنہوں نے پولس کو
شک شبہ کی بنیاد پر بلاتحقیق مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سے منع کیا تھا اس
دھاندلی پر پولس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے ایک بہت بڑا کارنامہ قرار
دیتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ کانگریس کو یہ خوش فہمی کہ مسلمان مودی کے خوف سے
اسے لامحالہ ووٹ دیں گے اس بار مہنگی پڑنے والی ہے ۔بی جے پی جہاں ان
زیادتیوں کے ذریعہ ہندورائے دہندگان کی خوشنودی حاصل کررہی ہےوہیں کانگریس
بھی اکثریتی فرقےکی دلجوئی میں لگی ہوئی ہے۔ چکی ان دو پاٹوں کے درمیان جن
میں سے ایک گھومتا ہے دوسرا اپنی جگہ ساکت ہے مسلمان بلاوجہ پس رہے ہیں ۔
اس بیچ وقاص کے توسط انڈین مجاہدین کا نام نہاد سربراہ تحسین اخترنیپال کی
سرحد پر پکڑلیا جاتا ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے
راستے پاکستان جانے کی کوشش کررہا تھا ۔ شاید ہماری خفیہ ایجنسیوں کو نہیں
معلوم کہ سقوط پاکستان کو ایک مدت گزر چکی ہے اوراب پاکستان جانے کیلئے
بنگلہ دیش سے بہتر راستہ ہندوستان اور نیپال سے ہے۔ تحسیناختر کے بارے میں
بتلایا گیا کہ اس کی عمر کل ۲۳ سال ہے گویا یہی وہکم عمر نوجوان جوگزشتہ
کئی سالوں سے ایس آئی ٹی ، سی بی آئی اور’ رآ ‘ کوتگنی کا ناچ نچا رہا
ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو شرمناک ہے۔ اس ڈرامے سے ثابت ہو گیا ہے کہ انڈین
مجاہدین کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ خفیہ ایجنسی کا ہی گورکھ دھندہ
ہے۔ جومسلمان انتخابی عمل کو رحمت و نعمت کہتے نہیں تھکتے ان کیلئے ان
واقعات میں سامانِ عبرت ہے۔
یہ تو خیر مودی کے سبب دوسروں کے مسائل ہیں اب آئیے اس کے اپنے امراض کی
جانب جن کی علامات کا اشارہ مضمون کی ابتداء میں کیا گیا۔ مودی بیک وقت کئی
امراض میں مبتلاء ہے۔ سب سے پہلے تواسے یہ اندیشہ کھائے جاتا ہے کہ آج
نہیں تو کل اسے جیل کی ہوا کھانی ہی ہوگی۔ مایا کندنانی اوربابو بجرنگی کی
خود گجرات کی عدالت کے ذریعہ سنائی جانے والی سزا نے اس کے اعتماد کو
متزلزل کردیا ہے۔ اس سزا سے بچنے کی یہی صورت ہے کہ کسی طرح وزیر اعظم بن
کر دہلی بھاگ جائے۔مودی کا دوسرا مسئلہ اس کی پسماندہ ذات اور اس کا
براہمنی پریوار ہے ۔ مودی بھی نتیش،اروند یا کیجریوال کی مانند ایک آرزو
مند سیاستداں ہے جو وزیراعظم بننے کے سپنے سجاتا ہےلیکن اس کی ذات اورسنگھ
پریوار کے درمیان موافقت نہیں ہے ۔ شتری کی تلوار اور ویش کی دولت کے سبب
ان کی سنگھ میں کسی حد تک پذیرائی ہوجاتی ہے لیکن پسماندہ ذات کے لوگوں کا
محض استحصال ہوتا ہے ۔مودی کے سامنے لکشمن ،کلیان سنگھ،یدورپا ، اوما
بھارتی اور منڈے جیسے نہ جانے کتنے لوگوں کا عبرتناک انجام ہے جن کو سنگھ
نے ٹیشو پیپر کی مانند استعمال کرکے پھینک دیا۔ بنگارو لکشمن پارٹی کے قومی
صدر تھے اس کے باوجود ان پر بدعنوانی کا الزام لگا ، انہیں سزا ہوئی اور ان
کا انتقال ہوا لیکن کسی نے ان پر ایک آنسو نہیں بہایا۔
مودی نے اسی اندیشے کے پیشِ نظراپنی پارٹی کے ایک ایک براہمن کو ٹھکانے
لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اڈوانی، جوشی،کلراج مشرا، لال جی ٹنڈن، منی لال
چوبے، اننت کماراور نتن گڑ کری یہ سب کے سب براہمن ہیں ۔کیسری ناتھ ترپاٹھی
کو شکست دینے والےنند گوپال گپتا کو جب بی ایس پی سے بلا کرالہ باد سے ٹکٹ
دینے کی کوشش کی گئی۔ ساکشی مہاراج جن پرلکھنؤ کے معروف براہمن رہنما کے
قتل کا الزام ہے پڑوس کے ضلع سےٹکٹ دیا گیا۔ اس بیچ اٹل جی کی بہن رائے پور
میں بی جے پی سے نکل کر کانگریس میں چلی گئیں ۔ بہار میں رام ولاس پاسوان
کا استقبال کرتے ہوئے مودی نے خود کو سب زیادہ پسماندہ طبقہ کا فرد بتاتے
ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی براہمن بنیا جماعت ہوتی تو وہ وزیراعظم کا
دعویدارنہ ہوتا۔ اس جلسے کا بہار کے بڑے رہنماؤں مثلاً سی پی ٹھاکر،گری
راج سنگھْ اشونی چوبے اور کیرتی آزاد نے بائیکاٹ کیا۔ مودی کا خیال ہے کہ
براہمن بھی بی جے پی کو ووٹ دینے کیلئے اسی طرح مجبور ہیں جیسے کانگریس
مسلمانوں کی مجبوری ہے لیکن یہ مودی کی غلط فہمی ہے۔ مسلمان بی جے پی کواس
لئے ہرانا چاہتا ہے کہ وہ نہ صرف ان کے دین و شریعت (پرسنل لاء) کے خلاف ہے
بلکہ دینی شعائر مثلاً بابری مسجد کو شہید کرنے کی مجرم بھی ہے۔وہ ملک میں
فرقہ وارانہ فسادات کرواتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال گجرات کا فساد ہے جس کی
نگرانی خود مودی نے کی۔ اس لئے مسلمان بی جے پی کو شکست دینے کیلئے کانگریس
کو ووٹ تو دیتا ہے مگر اس صورت میں جب کہ اس کے پاس کوئی متبادل نہ ہو۔
براہمنوں کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ ماضی میں نہ صرف کانگریس بلکہ
بی ایس پی کو بھی بڑے پیمانے پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔
نریندر مودی کو ایک خوف یہ بھی لاحق ہے کہ کہیں اس کا حال بھی اڈوانی کا سا
نہ ہو جائے جو اپنی رتھ یاترا کی مدد سےسنگھاسن تو کھینچ کر لانے میں
کامیاب ہو گئے لیکن حامی جماعتوں نے اس پر اٹل جی کو بٹھا دیا۔ میڈیا پر
کروڈوں روپئے خرچ کرنے کے بعد بھی بی جےپی دو سو کےہندسے کو پار نہیں
کرپائی این ڈی ٹی وی نے نمک خواری کرتے ہوئے نتیش کو پانچ پر پہنچا دیا۔
مہاراشٹرمیں شیوسینا کے ساتھ لاکھ سر پھٹول کے باوجود ۲۳ نشستیں دلوادیں
۔کرناٹک میں یدورپا کے نام پر ۲۸ میں سے ۲۰ پر کامیاب کردیا اور یوپی میں ۹
سے ۴۰ پر لے گئے اس کے باوجودمجموعی ہندسہ ۲۰۰ سے کم ہی رہا اور یہ جائزہ
آپسی رقابت کے اظہار سے پہلے کا تھا ۔ ان جھگڑوں کے بعد یقیناً اس میں کمی
ہوئی ہوگی ؟ اس سوال نے مودی کو پریشان کردیا ہے اور مودی اپنی پریشانی کو
قوم میں تقسیم کررہاہے نیز مسلمانوں کو دہشت زدہ کررہا ہے۔
دہلی کے صوبائی انتخاب میں ناکامی دو وجوہات خود بی جےپی کی مرکزی کمیٹی نے
تسلیم کی تھیں ۔ اول داخلی چپقلش اور دوسرے عاپ کو کمزور سمجھنا۔ اگر مودی
اور بی جے پی واقعی ان نتائج سے عبرت پکڑتی تو آج یہ حال نہ ہوتا کہ اول
تو نصف ریاستوں میں اس وجود نہیں ہے اور جہاں موجود ہے آپس میں دست و
گریباں ہے۔بی جے پی کے اندر عجب نفسا نفسی کا عالم ہے ہر سینئر رہنما محفوظ
نشست کے چکر میں اپنے سے جونئیر کی کامیاب شدہ نشست پرہاتھ ماررہا ہے جس کی
بدترین مثال ارون جیٹلی نے سدھو اور راج ناتھ نے لال جی ٹنڈن کی حق تلفی
کرکے پیش کی ۔ مودی کے بھی عدم تحفظ کا یہ عالم ہے کہ وہ گجرات کے
وزیراعلیٰ کی کرسی کسی اور کوسونپ کر قومی سیاست میں جانے کی جرأت نہیں
دکھا سکا شاید اس کا یہ فیصلہ درست ہی تھا اس لئے مودی کا گراف اچانک اس
طرح گرنے لگے گا اس کا وہم و گمان تو شاید کانگریس کو بھی نہیں تھا۔ اب
دیکھنا یہ ہے کہ انتخابی تماشے میں کون اس گرتی ہوئی دیوار سے کتنا فائدہ
اٹھاتا ہے اور کون اس کے تلے دب کر مر جاتا ہے؟ |