تاریخ عالم میں قوموں کی عروج و
زوال کی داستانیں بھری پڑی ہیں جس میں عروج حاصل کرنے والی اقوام کی ذہنی
بلندی اورزوال پزیزاقوام کی ذہنی پستی کا ذکر بدرجہ اتم موجود ہے۔جبکہ یہ
تاریخی کتب ہر کتب خانے میں دستیاب ہیں مگر یہ کتب محض الماری کی زینت کے
لئے محفوظ رکھا گیا ہے۔جس طرح خدا نے کلام پاک میں اُن اقوام کا ذکر فرمایا
ہے کہ وہ باغی ہونے کی بناء پر عذاب کا مرتکب ہوئے اورتمہارے لئے یہ خبر
باعث عبرت ہے تاکہ تم عذاب سے نجات حاصل کر سکوگے۔اسی طرح تاریخ میں مورخین
نے انتھک محنت سے جو کچھ قرطاس پہ اُتارا ہے وہ بھی ہمارے لئے باعث عبرت
ہے۔وہ الگ بات ہے کہ اگر ہمارے دلوں میں قفل اور آنکھوں میں پٹی لگی ہو
توکوئی چارہ کار نہیں ہے جو خود اپنی ذاتی مفاد کی خاطر پوری قوم کو لے
ڈوبیں یہ بڑی بدبختی ہوگی۔اسی طرح پاکستان نے بھی روس کوٹکڑے کرنے والی
طاقت کا شانہ بشانہ ساتھ دیا جس کا خمیازہ بری طرح بھگت رہے ہیں اور امریکہ
کو دنیا بھر میں غنڈہ گردی کرنے کا موقع فراہم کرنے کا سہرا بھی مسلمانوں
کے سر پہ سجتا ہے جو ڈالروں کی برسات میں اس قدر اندھے ہوئے کہ ہوش و حواس
ہی کھو بیٹھے اور کسی کو تو امیرالمومینین بننے کا خواب بھی نظر آیا جب کہ
وہ تو مسلمانوں کا امیر نہ بن سکے مگر آج کل طالبان کے ہر گروپ کا کمانڈر
امیربنا پھر رہا ہے۔اب اپنے بنائے اور سدھائے ہوئے لوگوں کی طاقت کے سامنے
جھک کر ان سے مذکرات کرنے پر بھی مجبور ہیں۔چلو یہ تو ماضی کی ایک بڑی غلطی
تھی۔مگران دنوں ایسا لگ رہا ہے کہ ایک بار پھر کسی سازش کا شکار ہونے جارہے
ہیں پراکسی وار میں حصہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے اس دفعہ ڈالر کے بجائے
ریال کی بارش ہے۔جبکہ تیز بارش کے دوران سیلاب کے خطرے کا قوی امکان موجود
ہوتا ہے اور سیلاب کے راستے میں جو بھی آئے اس کی قسمت میں ڈوبنا ہی ہوتا
ہے۔14اگست1947ء میں آزادی کے بعد ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسی کی وجہ سے
کئی دفعہ پوری قوم کو غلام بنا چکے ہیں ایک آزاد انسان اپنے مفادات کے لئے
کسی طاقت سے ہاتھ ملاتا ہے تو اس کی اپنی ذات میں خوشحالی ضرور آجاتی ہے
مگر پوری قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی رہتی ہے جس طرح آج ملک کا ہر بچہ
بلکہ پیدا ہونے والا بچہ بھی مقروض ہے کیا ان بچوں نے بھی بیرون ممالک سے
قرضہ لیا ہے؟۔اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہم گلگت بلتستان کی سیاست پر ایک
نظر ڈالنا چاہیں گے۔گلگت بلتستان میں پاکستانی ہر پارٹی کی شاخ اور جیالے
موجود ہیں ہر کوئی اپنی اپنی پارٹی پر فِدا ہے خواہ اسے کچھ ملے یا نہ ملے
جبکہ ہر پارٹی کے سرکردہ حضرات کسی نہ کسی شکل میں مستفید ہوتے رہتے
ہیں۔لیکن اس کے باوجود وہ نظریہ ضرورت کے تحت وفاداریاں بدلتے رہتے ہیں اگر
نہیں بدلتے ہیں تو جیالے اور غریب عوام۔اگر گلگت بلتستان کی ترقی میں A K R
S Pکے رول کو علٰحیدہ کیا جائے تو سرکاری کی ترقی کا اصل نقشہ نمایاں ہوگا
کہ ان66سالوں میں ترقی کا مینارہ کتنا بلند ہوا ہے۔پاکستان کے دیگر صوبوں
کی ایک اہمیت ہے کیونکہ وہ آئین کا حصہ ہیں وہ جس پارٹی کا گن گائیں انہیں
زیب دیتا ہے بہ نسبت ہمارے۔اب اتک رزلٹ تو یہ نظر آیا ہے کہ یہاں جدوجہد
پارٹی کی حد تک ہوئی ہے عوامی مسائل پر توجہ بہت ہی کم نظر آئی ہے۔ گلگت
بلتستان پر جیسا بھی وقت آئے ہمارے سیاست دان ہمیشہ وفاق کے گن گاتے رہے
ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں اگرصوبہ سندھ پر وفاق کی جانب سے زیادتی ہے یا
سندھ کی مفادات پر آنچ آنے کا خطرہ ہو تو سندھ کے سارے سیاسی لیڈرخواہ ان
کا تعلق کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہو سب مل کر سندھ کی مفاد کی بات کرتے
ہیں۔اسی طرح بلوچستان کی مفادات کی بات ہو،پنجاب کی بات ہو صوبہ خیبر پختون
خواہ کی بات ہو وہ اپنے اپنے صوبے کی اہمیت کو بیان کرنے اور حقوق کے حصول
پر وفاق کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتے ہے۔ہمارا مشترکہ قومی حقوق کے حوالے
سے جدوجہد میں وفاقی پارٹیوں کا کوئی جاندار کردار نہیں رہا ہے۔اس کے علاوہ
گلگت بلتستان میں آزادی کی تحریکیں بھی چل رہی ہیں کسی بھی ملک یا علاقے
میں ایسی تحریکوں کا وجود اُس وقت ہوتا ہے جب ان کے حقوق غضب کئے جاتے ہوں
انہیں وہ حقوق نہیں مل رہے ہوں جن کا وہ حق رکھتے ہیں۔ جبک ہ مختلف ممالک
نے جو آزادی حاصل کی ہے ان پر عوام کا بھر پور اعتماد تھا اور ایران کی
مثال لے لیں کس طرح کتنی قربانیوں کے بعد وہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب
ہوئے ۔آزادی کے حصول سے قبل قوم کو اس پرآمدہ کیا جاتا ہے اور اپنی حکمت
عملی سے عوامی مسائل کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور برا وقت آنے کی
صورت میں ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے ساتھ اس بات پر سنجیدگی سے
غور کرنا لازمی ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کیلئے عوامی سطح کے لوازمات پورے
کرنے کی صلاحیت ان کے پاس موجود ہو۔مانا کہ عوام سب مل کراُٹھ کھڑے ہوں
توکامیابی ان کے قریب ہوتی ہے مگر قربانی دینے کے بعد۔اگر عوام کا جھکاؤ
کسی اور جانب ہو آزادی کے متولوں کا جھکاؤ کسی اور طرف ہو تو وہاں وزیرستا
ن بننے میں دیر نہیں لگتی ہے۔اپنی ددھرتی پر اپنی سرزمین میں اپنے لوگوں کے
ساتھ مل کر جدوجہد کرنے میں کوئی نہیں روک سکتا ہے اگرعوام کو منوانے میں
کوئی کامیاب رہتا ہے تو اُس کا حق ہے۔خدا نخواستہ اگر اپنے مسائل کا رونا
دھونا اور اپنے عزائم جسے قومی حقوق کا نام دے کر ہم اغیار کی تلوے چاٹنے
لگ جائیں تو ہم سے بڑا مجرم کوئی نہیں ہوگا خدا نہ کرے ایسا ہو
جائے۔ہم18کروڑکے ساتھ اپنی شناخت کو تلاش کرنے میں پریشان ہیں اگر ہم سوا
ارب کے کسی سمندر میں گر جائیں تو ہماری حالت اچھوت اور شودر سے کم نہیں
ہوگی۔ہم نے جو کچھ بھی کرنا اسی سرزمین کے اندر اپنے لوگوں کے ساتھ اکثریتی
رائے کو مد نظر رکھ کر جددوجہد کرنا ہے۔کسی بھی طاقت کے بل بوتے پر انحصار
کرنے کی سوچ پیدا ہوجائے تو جان لو کہ اصل غلامی تو اس وقت شروع ہوگی ۔اگر
ہم اپنی سر زمین سے دور رہ کر اغیار کے ہاتھوں کا کھلونہ بن گئے تو نہ قوم
معاف کریگی اور نہ خدا معاف کرے گا۔ہمیں اس بات کو سمجھ لینا چاہئے کہ
سیاسی جدوجہد کرنے کا حق ہر ایک کو ہے کسی پر ہم اعتراض نہیں کر سکتے ہیں
البتہ طریقہ کار غلط ہو جسے پوری قوم کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے تو ایسی
صورت میں انہیں روکنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ایک بات واضح ہوجائے ملک کا جو غیر
منصفانہ نظام ہے جو مختلف طبقات میں بٹنے کی وجہ سے افرا تفری کا شکار ہے
حق دار کا حق غضب ہورہا ہے اس پر صدائے احتجاج بلند کرنا جائز ہے اور وہ
کرتے رہنا چاہئے یہ نہ کہ ہم پاکستان دشمنی کا ٹھیکہ لے کر بیٹھ جائیں اور
پاکستان کے ازلی دشمن یا سامراج کو اپنا آقا مان کر ان کے اشاروں پر ناچنے
لگ جائیں اسی طرح ہم ہمیشہ کے لئے ڈوب جائیں گے۔خدا نہ کرے کہ ایسے حالات
درپیش ہوں البتہ حکومت کو بھی چاہئے کہ اپنی پالیسی کو بہتر بنانے کی کوشش
کرے خاص طور پر گلگت بلتستان کے لئے چونکہ ہم نے اپنے علاقے کو از خود آزاد
کروا لیا ہے اورہمیں اہمیت دینی چاہئے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں پر بھی
مختلف طاقتوں کا جال پھیل جائے اس سے قبل یہاں کے عوام کو تا تصفیہ کشمیر
آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ دینا ازحد ضروری ہے جو یہاں کے عوام کا حق ہے۔اس
بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے آج کل یہاں کا ایک طالب علم بھی یہی کہتا
ہے کہ ہم تو غلام ہیں خدا را اقتدار بالا ہوش میں آجائیں اور یہاں کے عوام
کو مایوسی کی دلدل سے نکالنے کی پوری کوشش کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس
غلامی سے نجات حاصل کرنے کی خاطر غلامی کے ایسے کنویں میں گر نہ جائیں جہاں
سے چھٹکارہ پانا ناممکن ہوجائے۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے اس نفسا نفسی
کے دور میں کوئی بغیر مقصد کے کسی کی کوئی مدد نہیں کرتا تو کسی غیر پر
تقیہ کرنا غلامی در غلامی کرنے کے مترادف ہے۔اسی لئے ہم نے جو کچھ بھی کرنا
ہے ان ہی لوگوں کے ساتھ مل کر کرنا ہے اور کسی سے دوستی یا دشمنی کا محور
ٹھیکہ داری طرز کا نہ ہو بلکہ دلیل اور برہان پر مبنی ہو۔خدا کرے کہ ان
باریکیوں کو حکمران مد نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی میں تبدیلی لائیں اور
گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق جو ان کا حق ہے انہیں دیا جائے تاکہ اس خطے
کے وسائل اور جغرافیائی سہولت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو طاقتیں نہ صرف نظر
بد سے دیکھ رہی ہیں بلکہ اپنے مکرو عزائم کے تکمیل کے لئے جال بچھانا چاہتی
ہیں انہیں ناکام بنادیا جائے۔(آمین) |