کہانی وہی دلچسپ ہوتی ہے جس میں
وقفے وقفے سے موڑ آتے ہوں، کوئی نہ کوئی چونکانے والی بات پائی جاتی ہو۔
مغرب بھی ایک انتہائی دلچسپ کہانی جیسا ہی ہے۔ مغربی معاشروں میں جو کچھ
ہوتا ہے، جو سوچیں پنپتی رہتی ہیں اور جو رویّے جنم لیتے رہتے ہیں وہ، صحیح
اور غلط کی بحث سے قطعِ نظر، بے حد دلچسپ اور چونکانے والے ہوتے ہیں۔ مغرب
ایسا افسانہ ہے جسے پڑھنے والا فیصلہ نہیں کر پاتا کہ کس بات پر کتنا حیران
ہو اور کس بات سے کس حد تک محظوظ ہوا جائے۔ پڑھتے چلے جائیے، دل کشی ہے کہ
ختم ہونے کا یا ماند پڑنے کا نام نہیں لیتی۔
مغربی معاشروں میں ایسے بچوں کی کمی نہیں جن کے باپ نامعلوم ہوتے ہیں۔ مگر
خیر، ایسے بچے بھی بڑی تعداد میں ہیں جن کی مائیں بھی نامعلوم ہیں۔ امریکی
ریاست پنسلوانیا کی 27 سالہ کیتھرن ڈپرل اپنی ماں کی تلاش میں نکلی ہے۔ یہ
کوئی انوکھی بات نہ ہوئی۔ جن بچوں کو ’’ترک‘‘ کردیا جاتا ہے وہ زندگی بھر
سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اُن کے والدین کون ہیں۔ تو پھر کیتھرن کی کہانی
میں نیا کیا ہے؟
کیتھرن کو اُس کی ماں نے پنسلوانیا کے شہر ساؤتھ وائٹ ہال ٹاؤن شپ کے نواحی
علاقے ایلنٹاؤن کی ایک برگر شاپ کے باتھ روم میں اُس وقت چھوڑ دیا تھا جب
وہ محض تین چار گھنٹے کی تھی۔ 24 گھنٹے کُھلی رہنے والی برگر شاپ کا ایک
ملازم جب صبح ساڑھے پانچ بجے ڈیوٹی پر پہنچا تو ایک آدھ گھنٹے بعد اُسے
باتھ روم سے کسی بچے کے رونے کی آواز سُنائی دی۔ اُس نے سوچا شاید کوئی
کسٹمر اپنے بچے کی نیپی بدل رہی ہوگی۔ مگر بیس پچیس منٹ بعد پھر بچے کے
رونے کی آواز آئی۔ متجسّس ہوکر اُس نے ایک خاتون کسٹمر کو ساتھ لیا اور
لیڈیز ٹوائلیٹ میں گیا۔ وہاں ایک باتھ روم میں فرش پر سوئیٹر میں لپٹی ہوئی
بچی پڑی تھی۔ برگر شاپ کے ملازم نے بچی کو ہاتھ لگانے سے پہلے مقامی پولیس
کو مطلع کیا۔ آن کی آن میں وہاں بھیڑ لگ گئی۔
بچی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ مکمل
صحت مند ہے اور اُس کی پیدائش کو تین یا چار گھنٹے ہوئے ہیں۔ بچی کی نال
کٹی ہوئی نہیں تھی مگر سُوکھ گئی تھی۔
بچی کو تین دن ہسپتال میں رکھا گیا۔ اِس دوران پولیس نے باتھ روم میں پائے
جانے والے انگلیوں کے نشانات اور دیگر شواہد کی مدد سے بچی کی ماں کو تلاش
کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر ناکام رہی۔ چوتھے دن کارل ہولس اور اُس کی بیوی
برینڈا ہولس نے بچی کو گود لے لیا۔ اِس جوڑے کے دو بیٹے تھے۔ اِس بچی سے
پہلے بھی وہ دو بچیوں کو گود لے چکے تھے اور تمام بچے بہت اچھی زندگی بسر
کر رہے تھے۔
بچی کا نام کیتھرن رکھا گیا۔ اُسے گود لینے والا گھرانہ شفیق ہی نہیں،
متموّل بھی تھا۔ اُس کی پرورش عمدگی سے ہوئی۔ وہ ناز و نعم میں پلی۔ برینڈا
ہولس اکثر کہا کرتی تھیں۔ ’’میرے بیٹے پیٹ سے ہیں اور بیٹیاں دِل سے!‘‘
کیتھرن نے اچھی تعلیم پائی۔ دو بھائیوں اور دو بہنوں کے ساتھ جب وہ بڑی
ہوئی تو اُسے بتادیا گیا کہ دو بہنوں کی طرح اُسے بھی گود لیا گیا ہے۔
کیتھرن جب بارہ سال کی تھی تب ایک دن اسکول میں اُسے ٹاسک ملا کہ اپنے
گھرانے اور خاندان کی تاریخ بیان کرے۔ وہ گھر آئی اور اپنے خاندان کی تاریخ
لکھنے کے لیے کارل اور برینڈا ہولس سے مدد مانگی تو اُنہوں نے کیتھرن کو سب
کچھ سچ سچ بتادیا۔ کیتھرن یہ تو جانتی تھی کہ اُسے گود لیا گیا ہے مگر یہ
بات اُس کے علم میں نہ تھی کہ اُس کے اصل ماں باپ کا کسی کو علم نہیں۔ اُس
کا ذہن اُلجھ گیا۔ بہت اچھی پرورش اور تعلیم و تربیت کے باوجود وہ جاننا
چاہتی تھی کہ اُس کے ماں باپ کون ہیں۔ مگر یہ بات تو اُسے گود لینے والے
گھرانے کو بھی معلوم نہ تھی۔
کیتھرن کچھ مدت تک اندر ہی اندر اُلجھی رہی مگر پھر اُس نے حالات سے
سمجھوتہ کرلیا اور عمومی حالت میں واپس آگئی۔ جوان ہوئی تو اُس کی شادی
کردی گئی۔ محبت کرنے والا شوہر ملا تو اُسے ماضی کے حوالے سے کوئی بھی تلخی
یا کسک یاد نہ رہی۔ آج کیتھرن کے تین بیٹے ہیں۔ زندگی نے اُسے بہت کچھ دیا
ہے۔ مگر پھر بھی زندگی میں ایک کمی تو ہے۔ وہ اب بھی نہیں جانتی کہ اُس کی
رگوں میں کس کا خُون ہے۔ اُسے اپنی شناخت درکار ہے۔ اِس شناخت تک پہنچنے کے
لیے وہ انتہائی بے تاب ہے۔
کیتھرن نے جنم دینے والی ماں کو تلاش کرنے کے لیے برینڈا ہولس سے مشورہ کیا
اور اُنہی کی تجویز پر اپنی ایک تصویر فیس بک پر اپ لوڈ کی جس میں وہ ایک
بورڈ لیے کھڑی ہے۔ اِس بورڈ پر اُس نے اپنی کہانی مختصر الفاظ میں بیان
کردی ہے۔ وہ اپنی ماں تک پہنچنا چاہتی ہے اور فیس بک یوزرز سے بھی اُس نے
استدعا کی ہے کہ تصویر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ بات اُس کی ماں تک
پہنچ جائے۔ اب تک تیس ہزار سے زائد فیس بک یوزرز اِس تصویر کو پسند کرکے
دوسروں تک پہنچاچکے ہیں۔
کیتھرن ڈپرل کہتی ہے۔ ’’میرے دل میں کسی کے لیے کوئی رنجش نہیں۔ میری پرورش
بہت اچھی طرح کی گئی۔ جس گھرانے نے مجھے پالا اُس نے کبھی کوئی کمی محسوس
نہیں ہونے دی۔ تعلیم بھی دلائی، تربیت دی بھی۔ اور پھر شادی کے ذریعے زندگی
کے دوسرے مرحلے کا بھی اچھا آغاز فراہم کیا۔ مجھے پالنے والے ماں باپ، میرے
دو بھائی، دو بہنیں، میرے شوہر اور تین بچے میرا اثاثہ ہیں۔‘‘
تو پھر وہ اپنی اصل ماں سے کیوں ملنا چاہتی ہے؟ کیتھرن کہتی ہے۔ ’’ایسی
کوئی بات نہیں کہ میں اپنی حقیقی ماں کے لیے بُرے جذبات رکھتی ہوں۔ میں تو
دراصل اپنے آپ کو تلاش کر رہی ہوں۔ میں اپنی ماں سے مل کر اُن کا شکریہ ادا
کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
شکریہ؟ کس بات کا شکریہ؟
’’یہ تو میں نہیں جانتی کہ میری ماں نے مجھے کن حالات میں جنم دیا اور کیوں
مُجھے یوں چھوڑ دیا۔ ایک برگر شاپ کے باتھ روم میں چھوڑ دیئے جانے پر بھی
میرے دل میں اپنی حقیقی ماں کے لیے کوئی رنجش یا کدورت نہیں۔ میں اُن کا
شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ اُنہیں نے مُجھے دُنیا میں آنے کا موقع فراہم
کیا۔ وہ چاہتیں تو اسقاطِ حمل کے ذریعے اِس حسین دُنیا کے دروازے مُجھ پر
بند کرسکتی تھیں۔ اور پیدائش کے بعد بھی وہ مُجھے قتل کرسکتی تھیں یا کچرے
کے ڈھیر پر بھی پھینک سکتی تھیں جہاں آوارہ جانور یا کیڑے مکوڑے مُجھے کھا
جاتے۔ میں اپنی ماں سے مل کر اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ اُنہوں نے
مجھے بہت اچھی حالت میں ایسی جگہ رکھا جہاں لوگوں کی مُجھ پر نظر پڑی اور
مُجھے بحفاظت اُٹھاکر قبول کرلیا گیا۔ اگر میری پیدائش کے وقت میری حقیقی
ماں کی عمر زیادہ نہیں تھی تو ہم اچھی سہیلیاں ثابت ہوسکتی ہیں! میں حقیقی
ماں سے مل کر وہ حالات جاننا چاہتی ہوں جن کے ہاتھوں مجبور ہوکر اُنہیں
اپنے دِل کے ٹکڑے کو یعنی مُجھے یوں چھوڑنا پڑا۔ میں اِس بات پر بھی اُن کا
شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ وضعِ حمل کے بعد میری پیدائش تک اُنہوں نے
شراب پی نہ نشہ آور ادویہ استعمال کیں۔ یوں میں بھرپور صحت مند پیدا
ہوئی۔‘‘
کیتھرن جاننا چاہتی ہے کہ اُس کے حقیقی بھائی بہن ہیں یا نہیں۔ اور یہ کوئی
اِس دُنیا میں کوئی اور اُس جیسا دکھائی دیتا ہے یا نہیں!
کیتھرن کی کہانی فیس بک پر اور اخبارات کے آن لائن ایڈیشنز میں پڑھ کر اُس
جیسے بہت سے لوگوں میں اپنے اصل ماں باپ تک پہنچنے کی لگن پیدا ہوئی ہے۔ وہ
بھی شناخت چاہتے ہیں۔
کیتھرن کی کہانی میں بہت کچھ ہے۔ واضح نہیں کہ اُس کی پیدائش جائز تھی یا
ناجائز۔ حرام و حلال کی بحث سے ایک قدم آگے جاکر، اِس کہانی کا خلاصہ یہ ہے
کہ جو لوگ اپنی اولاد کو یوں چھوڑ دیتے ہیں وہ اُن کی زندگی میں خلاء بھی
چھوڑ دیتے ہیں۔ ایسے بچے زمانے بھر کی نعمتیں پاکر بھی شناخت کے لیے تڑپتے
اور ترستے رہتے ہیں۔ کیتھرن کی زندگی ایک ایسے محل کے مانند ہے جس کے اطراف
جھونپڑے ہیں۔
ایک اور بات۔ معمولی باتوں پر خود کو اور زمانے کو کوسنے والوں کے لیے
کیتھرن کی کہانی بہت کچھ سکھاتی ہے۔ یہ کہ زندگی کو اُس کے ہر رنگ میں قبول
کرنا چاہیے اور جس نے بُرا کیا ہے اُس کے بارے میں صرف رنجش کو پروان
چڑھانے کے بجائے مثبت سوچ کے ساتھ زمینی حقائق پر بھی غور کرنا چاہیے تاکہ
خیالات میں کجی پیدا نہ ہو۔ اور یہ کہ معاف کرنے ہی میں دِل کا سُکون ہے۔ |