ماضی کی اسیر شیخ حسینہ واجد کی پاکستان کے خلاف نفرت
انگیز سیاست فیض صاحب کے اشعار مجھے یوں یاد آئے کہ آج تینتالیس سال بعد
بھی ہمیں اشنا نہیں بننے دیا جارہا ہے۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش
کے کرکٹ اسٹیڈیمز میں پاکستانی پرچموں کی بہار آئی تو ایک بار پھر وزیراعظم
شیخ حسینہ واجد گھبرا گئیں۔ پاکستان کے پرچم بنگال کی سرزمین پر لہرائیں یہ
شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی کو کیسے گوارہ ہوسکتا تھا۔ اس لیے بنگلہ دیشی
شائقین کرکٹ پر ایک انو کھی پابندی لگادی کہ وہ اسٹیڈیم میں دوسرے ممالک کے
پرچم نہیں لہرا سکتے۔ اس انوکھے فیصلے کا آئی سی سی نے بھی نوٹس لیا جس کے
بعد بنگلہ دیشی حکومت نے یوٹرن لیا اور آئی سی سی کو وضاحت جاری کی بنگلہ
دیشی کرکٹ بورڈ نے کسی بھی موقع پر شائیقن پر اسٹیڈیم میں پرچم لانے پر
پابندی عائد نہیں کی۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد جب سے اقتدار میں آئی ہیں انکے تمام
اقدامات میں نفرت اور انتقام اور آگ کی تپش صاف محسوس ہوتی ہے، حسینہ واجد
کا ایک انٹرویو میں نے دیکھا جس میں انہوں نے بتایا کہ میرے والد شیخ مجیب
الرحمان کو 15 اگست 1975 کو تمام گھر والوں کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا ایک
بات جو میں نے نوٹ کی جب بھی پاکستان کا ذکر آتا شیخ حسینہ واجد کی سبز
آنکھوں میں ایک عجیب سی سفاکانہ چمک آجاتی جس سے پاکستان سے متعلق انکی
شدید نفرت عیاں ہوجاتی۔ شیخ حسینہ واجد لیڈر بننے کے باوجود ابھی تک ماضی
کی تلخ یادوں سے باہر نہیں نکل سکیں اور ماضی کی اسیر ہیں۔ بڑا لیڈر بننے
کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انسان ذاتی جزبات کے دائرے سے نکل کر دیکھ سکے
اسکی نگاہ ماضی کے بجائے مستقبل کی جانب ہو، اگر ذاتی رنجشوں کو نہ بھلایا
جائے اور سب کو معاف نہ کیا جائے تو شیخ حسینہ واجد کی طرح ایسا لیڈر قوم
کو صحیح راستے کی بجائے تصادم کی جانب لے جاتا ہے، جیسا کہ حسینہ واجد
کررہی ہیں، اور اپنے مسائل سے گھرے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے بجائے
اسکی راہ میں مزید کانٹے بیکھیر رہی ہیں،
ہمارے سامنے نیلسن منڈیلا کی مثال موجود ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین
27 سال سفید فام اقلیت کی قید میں گزار دیئے مگر جب وہ اقتدار میں ائے تو
سب کو معاف کردیا، اور اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا انتقام لینے کے بجائے
اپنی سیاہ فام قوم کو آگے بڑھ جانے کو کہا، نیلسن مینڈیلا نے کہا کہ وہ
اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لینا نہیں جاہتے اور سارے جنوبی افریقہ کو
اپنی نفرت کی آگ میں جلانا نہیں چاہتے ۔ ایک طرف اتنا بڑا ظرف رکھنے والے
نیلسن مینڈیلا جیسا لیڈر ہے اور دوسری جانب نفرت اور انتقام کے شعلوں میں
لپٹی ہوئی شیخ حسینہ واجد ہیں، ایک سب کچھ بھلا کر اپنی قوم کو آگے لے جانا
چاہتا تھا اور دوسری طرف حسینہ واجد اپنی ذات سے باہر نہیں نکل پارہی ہیں۔
مگر کیا کیجیے کہ بنگلہ دیشی عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت کم ہونے کا
نام ہی نہیں لے رہی، اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران ساری قوم نے دیکھا کہ
بنگلہ دیش کے اسٹیڈیم پاکستان کے اسٹیڈیم لگ رہے ہیں، بنگلہ دیش کے عوام
پاکستانی ٹیم کو اپنی ٹیم سمجھ کر سپورٹ کررہے ہیں، ایسا لگا کہ جیسے
پاکستانی ٹیم اپنے ہی وطن میں کھیل رہی ہے، یہ سب دیکھ کر شیخ حسینہ واجد
کی نفرت بے قابو ہوگئی اپنی عوام پر کچھ اور بس نہ چلا تو اسٹیڈیمز میں
بنگلہ دیش کے علاوہ کسی بھی ملک کا پرچم لگانے پر پابندی عائد کردی جس پر
ساری دنیا نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا تو گھبرا کر پابندی کا فیصلہ
واپس لے لیا۔ پاکستانی دشمنی پر اس سے پہلے بھی حسینہ واجد نے بچگانہ حرکت
کی تھی، جب 2012 میں ایشیاء کپ کے فائنل میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے
ہاتھوں شکست ہوئی تو حسینہ واجد مہمان خصوصی تھیں، مگر وہ صدمے کے مارے
پاکستان کو ٹرافی دیئے بغیر ہی اسٹیڈیم سے رخصت ہوگئیں، انہوں نے اس پر بس
نہیں کیا بلکہ اس ہار کا الزام بھی آئی ایس آئی اور پاکستان پر ڈال دیا،
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش شکست نہیں کھاتا اگر آئی ایس
آئی اور پاکستان کے چاہنے والے سپورٹر اسٹیڈیم میں موجود نہ ہوتے، حسینہ
واجد کا یہ رویہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے شایان شان نہیں ہے مگر عوامی لیگ
کی حکومت تمام حدیں پار کرتی جارہی ہے، بنگال حکومت نے اپنے ملک میں
پاکستانی ٹی وی چینلز دکھانے پر بھی پابندی عائد کردی ہے، دو ماہ قبل بنگال
حکومت نے 1971 میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں جماعت اسلامی بنگلہ
دیشی رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی تھی اس پھانسی کے خلاف پاکستان
کی قومی اسمبلی میں قرار داد منظور کی گئی، اس قرار داد کا منظور ہونا تھا
کہ حسینہ واجد آپے سے باہر ہوگئیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع
کردیا، اور ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے عوامی لیگ کے کارکنوں
نے پاکستانی پرچم نذر آتش کیا اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم
کرنے کا مطالبہ بھی کیا، عوامی لیگ کی سربراہ کا رویہ دونوں ملکوں کے
درمیان تلخیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد اپنے اقتدار کو صرف اپنے
ذاتی انتقام کے لیے استعمال کررہی ہیں اور پاکستان سے دشمنی کے اظہار کا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر ان اوچھے ہتھکنڈوں سے بنگلہ دیش اور
پاکستان کی عوام کے درمیان محبت کو ختم نہیں کیا جاسکتا، شیخ حسینہ واجد
بھلے ماضی کی اسیر بنی رہیں مگر پاکستان اور بنگلہ دیشی عوام تلخ ماضی کو
بھلا کر بہت آگے نکل چکی ہیں، اور ان کے درمیان مذہب اور تاريخ کا مضبوط
رشتہ انہیں مزید قریب لارہا ہے اور اس رشتے کو کوئی توڑ نہیں سکتا - |