گزشتہ چند مہینوں میں کئی مرتبہ ایسی بہت سی کمپنیوں کا
انکشاف ہوا ہے جو ’’حلال‘‘ کے نام پر ’’حرام‘‘ چیز سپلائی کررہی تھیں۔ان
کمپنیوں میں سب سے بڑا نام میکڈونلڈ (McDonald's ) کا ہے جس کے بارے میں
بہت سے انگلش اخباروں سمیت انقلاب نے اپنے ۲۴/جنوری ۲۰۱۳ء کے شمارے میں ایک
خبر شائع کی تھی جس کا عنوان تھا؛’’میکڈونلڈ نے جھٹکے کے گوشت کو حلال
بتاکر مسلمانوں کو برگر کھلائے۔‘‘ جس کے لئے کمپنی مسلمانوں کو ۳۷ /کرو ڑ
کا ہرجانہ دینے پر راضی ہوئی ۔جب کہ اس کے سائن بورڈ پر ’’حلال‘‘ لکھا
ہواہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امریکہ کے مشیگن شہر ڈئیربورن کے مال میں واقع
میکڈونلڈ کے ایک ریستوراں میں جھٹکے کا گوشت کھلایا جارہا تھا لیکن وہاں
لکھا تھا کہ یہاں حلال گوشت کی غذائیں دستیاب ہیں۔لیکن ایک مسلم خریدار
احمداحمد نے وہاں سے جو سینڈوچ خریدا تھا وہ حلال نہیں تھا۔احمد احمد نے
اپنے مقدمے میں یہ کہاتھا کہ اس کو جو سینڈوچ کھلایا گیا اس میں استعمال
ہونے والے گوشت پر اللہ کا نام لے کر اس کو اسلامی طریقے سے حلال نہیں گیا
تھا۔ اس بے ایمانی کے لئے میکڈونلڈ پر مقدمہ دائر کردیا۔کمپنی نے تمام
تنازعات سے بچنے کے لئے فوری طور پر اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مشیگن کی
مسلم کمیونیٹی کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ کرکے فوری طورپر ۳۷ کروڑ روپئے
ہرجانہ ادا کرنے کو کہا۔
اس سلسلے کا دوسرا واقعہ انگلینڈ کے ایک شہر برمنگھم کا ہے۔ جہاں پر چکن
برگرز میں خنزیر کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی تھی۔ چنانچہ بی بی سی اپڈیٹ
کے۴/ اپریل ۲۰۱۳ ء کی خبر کے مطابق’’ برمنگھم سٹی کونسل نے دو ٹوک انداز
میں واضح کیا ہے کہ حمزہ فوڈز کے چکن برگرز کے دو پیکٹوں میں خنز یر کے
گوشت کی ہی ملاوٹ پائی گئی تھی۔ اس سلسلے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونی
چاہئے۔ ‘‘
تیسرا واقعہ برطانیہ اور آئر لینڈ کا ہے جہاں بیف برگر میں گھوڑے کا گوشت
ملایا گیا تھا۔ بی بی سی اردو کی خبر جو کہ ۱۶/جنوری ۲۰۱۳ء شائع ہوئی کے
مطابق’برطانیہ اور آئرلینڈ کی سپر مارکیٹوں میں ایسے بیف برگر فروخت ہو رہے
ہیں جن میں گھوڑے کا گوشت ہوتا ہے۔ریپبلک آف آئرلینڈ میں تحفظِ خوراک کے
ادارے ایف ایس اے آئی کا کہنا ہے کہ یہ گوشت آئرلینڈ کے دو پروسیسنگ
پلانٹوں، لیفے میٹس اور سلور کرسٹ اور یارکشر کیڈیلپاک ہیمبلٹن نامی اداروں
سے آ رہا ہے۔‘‘ مزید برآں ایف ایس اے آئی نے اس بات کی بھی صراحت کی
کہ’’ایف ایس اے آئی کا کہنا ہے کہ اس نے کل انتیس مصنوعات کا تجزیہ کیا ان
میں سے دس میں گھوڑے کا اور سترہ میں سوّر کا ڈی این اے پایا گیا۔‘‘
چوتھا واقعہ ہالینڈکا ہے جہاں کوفتے میں کتے کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی
ہے۔بی بی سی اپڈیٹ کی خبر جو کہ ۶ /اپریل ۲۰۱۳ ء کو شائع ہوئی کے
مطابق’ہالینڈ میں آئے ہوئے کوفتوں کے گوشت میں کتے کے گوشت کی ملاوٹ پائی
گئی ہے، جو سپین سے آئے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اعلان ہالینڈ انتظامیہ نے کیا
ہے۔اس معاملے کی تفتیش قریبا اٹھارہ ماہ سے جاری تھی جب سپین کے شہر پونت
بیردے کے ایک جانوروں کے فارم کے مالک نے شکایت کی تھی کہ جنوبی سپین کے
علاقے گالیسیا سے بڑی تعداد میں کتے غائب ہو رہے ہیں۔ایک مالک کا کہنا ہے
کہ میں اپنے کتے کی تلاش میں جانوروں کے ذبحہ خانے گیا ہوں تو کیا دیکھتا
ہوں کہ میرا کتا وہاں موجود تھا۔سپین کے صوبوں گالیسیا اور دیگو میں پولیس
نے ایک جگہ جانوروں کی خوراک میں کتے کے گوشت کی ملاوٹ پائی تھی۔‘‘
پانچواں واقعہ جنوبی افریقہ کا ہے جہاں پر بیف میں گھوڑے کے گوشت کی ملاوٹ
سامنے آئی ہے۔ڈی ڈبلیو آن لائن ڈ اٹ انفو کی ۲۷/ فروری ۲۰۱۳ء کو شائع خبر
کے مطابق ’ اسٹیلن بوش یونیورسٹی کی لیبارٹری میں ۱۳۹بیف کے نمونوں کے ڈی
این اے (DNA) ٹیسٹ کیے گئے۔ بیف کی یہ پروڈکٹس دوکانوں اور گوشت فروشوں کے
اڈوں سے حاصل کی گئی تھیں۔ ان 139 نمونوں میں سے 68 فیصد یعنی چورانوے سے
زائد سیمپلز ملاوٹ شدہ تھے۔ پروفیسر ہوف مین کے مطابق ان نمونوں میں غیر
روایتی جانوروں کا گوشت مختلف مقدار میں شامل تھا اور ان جانوروں میں گدھے،
پالتو بھینسوں اور بکریوں کے گوشت کے نمونے دستیاب ہوئے۔ لیبارٹری ٹیسٹوں
کے دوران بعض بیف کی پروڈکٹس میں سویا سبزی اورگلوٹین کے اجزاء کے ساتھ
ساتھ خشک گوشت کے اجزا بھی شامل تھے۔ ‘‘
چھٹا واقعہ سویڈن کا ہے جہاں حلال گوشت میں سور کے گوشت کی ملاوٹ پائی گئی
ہے۔بی بی سی اپ ڈیٹ پر۱۱/اپریل۲۰۱۳ء کو شائع خبر کے مطابق’’ سویڈن کی نیشنل
فوڈ ایڈ منسٹریشن نے ملک میں فروخت کی جانے والی حلال اسلامی کے گوشت میں
سور کے گوشت کی موجودگی کا انکشاف کیا ہے۔ یہ سلووینیا میں تیار گی گئی
تھیں اور گوتھن برگ کی کمپنی انہیں حلال کے لیبل کے ساتھ فروخت کررہی
تھی۔نیشنل فوڈ ایڈ منسٹریشن نے ڈی این اے ٹیسٹ سے ان میں سور کے گوشت کی
آمیزش کا پتہ چلایا ہے۔ ٹیسٹ کی جانے والی ۹۹ مصنوعات میں سے ۹ میں خنزیر
کے گوشت کی موجودگی پائی گئی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ بے شمار واقعات ہیں جہاں پر ملاوٹ کی کالابازاری نظر آتی
ہے۔لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ واقعات زیادہ تر ان ملکوں کے ہیں
جہاں پر لوگ تعلیم یافتہ اور بیدار مغز اورحکومت اورقانون دونوں مستعد
ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مشیگن شہر میں ایک بیدار مغز شہری نے میکڈونلڈ کے خلاف
مقدہ دائر کرکے حقیقت حال کو ثابت کردیا ،اور پھر امریکی قانون کے اعتبار
سے میکڈونلڈ مجرم قرار پایا، کیوں کہ اس نے ’حلال ‘ کہہ کر حرام کھلایا
تھا۔اسی لئے میکڈونلڈ نے مصالحت کا راستہ اپنایا۔دوسری جگہوں پر بھی اس طرح
واقعات پر حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے حرکت میں آئے۔ کیوں کہ انہوں نے
قانون صحت کی خلاف ورزی کی تھی۔لیکن اتنی سختی کے باوجود کمپنیاں اور
کاروباری حضرات ’حلال‘ کی جگہ حرام کھلانے سے گریز نہیں کرتے۔
لیکن ا س کے برخلاف اگر ان چیزوں کا ہندوستانی پس منظر میں جائزہ لیں تو
معاملہ بہت سنگین نظر آتا ہے۔اولا تو ’حلال و حرام‘ کے حوالے سے لوگوں میں
بیداری نہیں ہے ، دوسرے یہ کہ ہمارا زیادہ تر طبقہ غیر تعلیم یافتہ ہے جو
کہ’ صحت اور روحانی حوالے سے حلال‘ کی اہمیت سے نا آشنا ہے۔مزید برآں
حکومتی اداروں کی طرف سے ملاوٹ کے خلاف مناسب اور ٹھوس کاروائی نہ ہونے کی
وجہ سے ملاوٹ کے میدان میں ایک طرح کی مسابقت جاری ہے ۔ چنانچہ آپ اگر گرد
و پیش کا جائزہ لیں تو معاشرے کی تمام پرتیں کسی نہ کسی حوالے سے آلودہ نظر
آتی ہیں جس طرف بھی نگاہ اٹھا کر دیکھیں آپ کو ملاوٹ،دھوکہ دھڑی کی ایسی
دلسوز کہانیاں سننے پڑھنے بلکہ خود پر بیتتی دکھائی دیں گی کہ روح تک کانپ
اٹھتی ہے،اعداد و شمار جو بیان کیے جاتے ہیں ان کے مطابق ہندوستان میں
بیماریوں میں آئے روز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان بیماریوں میں اضافے کی
وجوہات میں سر فہرست ناقص خوراک ،ملاوٹ سے بھر پور اشیاء ،خورد و نوش،
آلودہ ماحول وغیرہ ہیں۔
ایسے پیچیدہ حالات میں جہاں کھانے کی اشیاء میں ملاوٹ کا ایک سیل رواں ہو
اور اس کو عیب نہیں بلکہ ہنر سمجھا جاتا ہو، ایک مسلمان کی ذمہ داری خصوصا
اور بڑھ جاتی ہے۔اس لئے کہ وہ صرف خوراک کی غذائیت سے مطلب نہیں رکھتا بلکہ
اس کو اس بات کی تحقیق کرنی ہے کہ یہ ’حلال ‘ بھی ہے یا نہیں۔ہندوستان جیسے
ملک میں جہاں پر کمپنیوں اور ریستوراں کے نزدیک ’حلال‘‘ کے تعلق سے کوئی
بااعتماد سند نہیں ہے ، (اور ان کو اس کی پروا بھی نہیں ہے اس لئے کہ مسلم
خریداروں میں اس تعلق سے کوئی بیداری نہیں ہے ) یہ ذمہ داری اور دو گنی ہو
جاتی ہے۔ اس لئے کہ علماء فرماتے ہیں کہ ’گوشت میں اصل حکم حرمت کا ہے۔اس
لئے کھانے پینے کی وہ اشیاء جن میں کسی بھی طرح سے کسی بھی قسم کے حیوانی
اجزاء (Animal Ingredients ) شامل ہوں ،ان میں اس بات کی تحقیق ویقین
کرلینا ضروری ہے کہ جن جانوروں سے یہ اجزاء حاصل کئے گئے ہیں وہ حلال جانور
ہیں یا حرام،اگر حلال جانور ہیں تو ان کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا گیا ہے یا
نہیں؟اس کی تحقیق کے بغیر ایسی چیزوں کا کھانا پینا جائز نہیں۔‘‘
لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کا ایک معتد بہ طبقہ میکڈونلڈ، کے ایف
سی،ڈومینو پذا، پزا ہاٹ، (K.F.C, McDonald's,Pizza Hut) برگر گرل اور اس
طرح کے بہت سے ریستوراں میں چکن برگر اور چکن مموز ، سینڈوچ وغیرہ بہت مزے
لے کر تناول فرماتے ہیں۔ان کو اس سے قطعی سروکار نہیں کہ یہ چکن ’حلال ‘
بھی یا نہیں۔ کچھ لوگ جن کے اندر کچھ شعور ہے وہ ان کاروباری حضرات پر
زبانی اعتماد کرلیتے ہیں جو کوفتے میں کتے اور چکن کے ساتھ سور ملا دیتے
ہیں۔اگر زبانی طور گوشت کے حلال ہونے کا علم بھی ہوجائے تو معاملہ صرف گوشت
کے حلال ہونے کا نہیں ہے بلکہ اس میں استعمال ہونے والے تیل اورمصالحہ جات
کی تحقیق بھی ضروری ہے۔مزید برآں حرام اور حلال کے برتن اور دیگر آلات بھی
علیحدہ ہونا ضروری ہے۔
جملہ تلخ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے شاپنگ مال میں کے ایف سی اور
میکڈونلڈ وغیرہ کے ریستوراں میں مسلمان مرد اور خواتین کی ایک بھیڑ دکھائی
دے گی ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس کی حلت منزل من اللہ ہے۔لیکن
بھائیو!ایک مسلمان کو منہ میں نوالہ ڈالنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ
کیا کھا رہا ہے۔’’شکل سے حلال‘‘ دکھائی دینا ہی حلال ہونے کے لئے کافی نہیں
ہے۔
خوراک میں حرام ملاوٹ،ادویات میں حرام ملاوٹ، ہمارے تمام معاملات میں حرام
ملاوٹ ہے، تو اس کا اثر ہمارے جسم و جان پر پڑ رہا ہے، اس کا رنگ ہماری
معاشرت میں دکھائی دے رہا ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے کی
افراتفری، نفسانفسی، آپا دھاپی، ہمارے دلوں کا سکون اڑا چکی ہے، ہمارے
گھروں سے برکت کو غائب کرچکی ہے، ہم خود تو بے حال ہیں ہی۔ ہر منہ دکھانے
والے کو ’’بے حال‘‘ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ہم نہیں خوش تو، تو کیوں خوش
ہے! یہ سب حرام کا اثر نہیں تو کیا ہوسکتا ہے۔
حالات کی خرابی کا الزام ہم اپنے مذہبی اور سیاسی رہنماؤوں کو دینے سے پہلے
ایک لمحہ کے لئے خود احتسابی کریں ، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ سب خواری اور
ذلت ہمارے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
کہ:’حرام کا ایک لقمہ کھانے والے کی چالیس روز تک نماز اور دعائیں قبول
نہیں ہوتیں۔ (جامع الاحادیث للسیوطیؒ )۔ایک دوسرے حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد
ہے: ’’ اے ایمان والو ہمارے دئیے ہوئے پاک رزق میں سے کھاؤ اس کے بعد حضور
نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ لمبے لمبے سفر کرتا اور مسافر کی دعا قبول
ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ہی بکھرے ہوئے بالوں والا غبار آلود کپڑوں والا
یعنی پریشان حال دونوں ہاتھ آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے اے اللہ اے اللہ
اے اللہ لیکن کھانا بھی اس کا حرام ہے پینا بھی حرام ہے لباس بھی حرام ہے
ہمیشہ حرام ہی کھایا تو اس کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔‘‘ ہم ہمیشہ سوچتے
ہیں کہ مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں لیکن حالات کا اندازہ اس حدیث
شریف سے کیا جا سکتا ہے اگرچہ اللہ جل شانہ اپنے فضل سے کبھی کافر کی بھی
دعا قبول فرما لیتے ہیں چہ جائیکہ فاسق کی لیکن متقی کی دعا اصل چیز اسی
لیے متقیوں سے دعا کی تمنا کی جاتی ہے جو لوگ چاہتے ہیں کہ ہماری دعائیں
قبول ہوں ان کو بہت ضروری ہے کہ حرام مال سے احتراز کریں اور ایسا کون ہے
جو یہ چاہتا ہے کہ میری دعا قبول نہ ہو۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کھانے کے حوالے سے کس قدر محتاط تھے اس کا اندازہ حضرت
ابوبکر صدیق کے اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے۔’حضرت ابوبکر صدیق کا غلام
روزانہ اپنی کمائی سے کھانے کا سامان لے کر آتا، وہ خود تو کھا لیتا مگر آپ
اس وقت تک نہ کھاتے جب تک تسلی نہ کر لیتے کہ کہاں سے کمایا او رکس طرح
کمایا ہے ؟ اتفاق سے ایک دن غلام کھانا لا یا، مگر آپ نے خلاف عادت بغیر
پوچھے ایک لقمہ اٹھا کر کھا لیا تو غلام کہنے لگا آپ ہمیشہ مجھ سے پوچھا
کرتے تھے ، مگر آج کیا ہوا ؟ ارشاد فرمایا: بھوک کی جلدی میں ایسا ہو گیا،
مگر اب تو ضرور بتاؤ کہ کہاں سے کما کر لائے ہو؟ وہ بولا کہ میں نے زمانہ
جاہلیت میں کچھ لوگوں پر دم کیا تھا اور انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کر
رکھا تھا ، آج میں نے ان کے ہاں شادی کی تقریب دیکھ کر انہیں وعدہ یاد
دلایا، جس پر یہ کھانا مجھے ملا، حضرت ابوبکر صدیق یہ سن کر انا للہ پڑھنے
لگے اور قے کرنے کی کوشش کی ، سو جتن کیے او رمشقت اٹھائی کہ کسی طرح وہ
لقمہ پیٹ سے نکلے جائے، مگر بھوکے پیٹ میں ایک لقمہ کی کیا قے ہوتی، تکلیف
کرتے کرتے چہرہ مبارک کا رنگ سیاہ اور سبز ہو جاتا، مگر قے نہ ہو سکی، حتی
کہ کسی نے مشورہ دیا کہ پیالہ پانی کا پیوں تو شاید کام یابی ہو سکے، چناں
چہ پانی کا ایک مشکیزہ لایا گیا، جسے پی پی کر قے پر قے کرتے رہے، حتی کہ
وہ لقمہ باہر نکال ہی دیا۔ لوگوں نے کہا کیا اس ایک لقمے کے لیے اتنی مشقت
اٹھائی ہے ؟ تو ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ
ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’’ اللہ تعالیٰ نے جنت کو ہر ایسے جسم پر حرام
کر دیا ہے جس کی غذا حرام ہو۔‘‘ (ترمذی)
یہ ایک ہی واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ اس واقعے سے یہ سبق
ملتا ہے کہ حلال کی تحقیق میں کس قدر مبالغہ کرنا چاہیے اور بلا تحقیق نہیں
کھانا چاہیے۔ لیکن آج ہم تحقیق تو دور کی بات ہے یہ پوچھنے کی بھی زحمت
گورا نہیں کرتے کہ یہ حلال ہے یا نہیں۔ایسے حساس معاملے میں صرف سنی سنائی
باتوں پر اعتماد کرلینا، یا دوسرے کو کھاتا دیکھ کر اس کے حلت سمجھ لینا
کافی نہیں ہے۔ جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق اپنے نوکر سے بھی حلال ہونے کی
تحقیق فرماتے تھے ۔لیکن اس کے برخلاف ہمارے کچھ مسلمان بھائی مکڈونلڈس، کے
ایف سی جیسے موڈرن ریستوراں میں بلا تکلف چکن برگر، چکن پزا، چکن مموز
تناول فرماتے ہیں۔مذکورہ واقعات کی روشنی کیا اس بات کی گنجائش رہ جاتی ہے
کہ ان بزنس اور کاروباری لوگوں کے باتوں پر اعتمار کرلیا جائے؟ان کی باتوں
پر یقیناًاعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔لہذا بحیثیت مسلمان یہ ہماری ذمہ داری ہے
کہ ہم جو کچھ کھا رہے ہیں اس کے حلال اور حرام ہونے کی تحقیق کریں۔کہیں
ایسا نہ ہو کہ ہماری تھوڑی سی غفلت کی وجہ سے ہماری دعائیں رد ہو جائیں اور
نمازیں ہمارے منہ پر مار دی جائے۔تھوڑی سی اوروقتی لذت کی خاطر دائمی خوشی
اور لذت کو مت جانے دیجئے۔اللہ تعالی ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ |