(مشرق ِوسطیٰ کی صورتحال میں پاکستان کا کردار)
کہتے ہیں کسی گڈریے کو جنگل سے شیر کا بچہ ملا تو اس نے اسے اپنے پاس رکھ
لیا۔شیر کا بچہ بھی بھیڑ بکریوں میں رل مل گیا اور پل کر جوان ہو گیا۔ ایک
دن ریوڑ پہ جنگل کے شیر نے حملہ کر دیا ۔ ریوڑ کا شیر بھی بھیڑ بکریوں کی
طرح جان بچانے کے لیے بھاگا۔ اپنے ہمزاد کو اس طرح بھاگتے دیکھ کر جنگل کے
شیر کو غصہ آیا اس نے ریوڑ کے شیر کو آلیا ۔وہ اسے پکڑ کر پانی کے تالاب پہ
لے آیا اور اسے اپنا عکس دکھا کر کہا کہ تم اپنی اصلیت دیکھو تم شیر ہو
لیکن حرکتیں بکریوں والی کر رہے ہو ۔ تمہیں تو میرا مقابلہ کرنا چاہیے تھا
لیکن تم نے بکریوں کی طرح دوڑ لگا دی۔ جب کوئی اپنی حقیقت سے آشنا نہ ہو تو
ذلت اور رسوائی اس کا مقدر ٹھہرتی ہے ۔کچھ ایسا ہی ہماری قوم اور ملک کے
ساتھ بھی ہے ۔ ہم ایشیا کا شیر ہو کر بھی عالمی طاقتوں کے رحم و کرم پہ ہیں
۔ وہ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکے چلے جا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ آئینہ
دیکھنے سے ہی گریزاں ہیں شاید وقت کی دھول میں اٹے اپنے ہی عکس سے خوفزدہ
ہیں ۔
پا کستان کو اﷲ نے بہتریں محل وقوع اور جغرافیے سے نوازا ہے ۔ خطے میں
پاکستان کی اہمیت مسلّم ہے اسکی سرحدات مغرب میں ایران اور افغانسان ، شمال
میں چین ، مشرق میں بھارت سے ملتی ہیں جبکہ جنوب میں گرم پانیوں سے لبریز
بحیرہ عرب ہے جو اہم تجارتی گزرگاہ ہے۔ ایران کے مغرب میں عرب ممالک واقع
ہیں جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اور ان کا شمار ہمارے دوست ممالک میں
بھی ہوتاہے ۔ ایران سے ہمارے تعلقات اونچ نیچ کا شکارضرور رہے ہیں تاہم اس
کے ساتھ بھی برادرانہ تعلقات استوار ہیں ۔ مشرق وسطی ٰ کا یہ خطہ تیل کی
دولت اور گرم سمندروں کے کنارے واقع ہونے کی وجہ سے عالمی طاقوں کی توجہ کا
مرکز ہے ۔ روس اور امریکہ کی نظریں انہی وسائل پہ جمی ہوئی ہیں ۔ اسی مقصد
کے تحت پہلے روس نے افغانستان پہ یلغار کی اور اب امریکہ اپنے مغربی
اتحادیوں کے ساتھ افغانستان اور عراق پہ قابض ہے ۔ اس صورتحال میں پاکستان
ان ممالک کے اتحادی کے طور پہ کام کر رہا ہے اور ہمیں ڈو مور (Do More)کہہ
کر ہانکا جا رہا ہے اور ہم یہ ادراک کرنے سے ہی قاصر ہیں کہ ہم بھی ایک قوت
ہیں اور ہمارا بھی ایک کردار ہے جو اس کردارسے یکسر مختلف ہے جو ہم ادا کر
رہے ہیں ۔ عالمی طاقتیں خطے کے ممالک کی نبض سے آشنا ہو چکی ہیں اس لیے
انہوں نے دکھتی رگ پہ پنجے گاڑھ دیے ہیں ۔ لیکن امت مسلمہ کی بدنصیبی ہے کہ
اسکے حکمران تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیا ر ہی نہیں ۔
خطے کے وسائل پہ براجمان ہونے کی واحد سبیل یہ ہے کہ اس علاقے میں خونریز
تصادم کرایا جائے اور خطے کے ممالک کو باہم دست و گریبان کر دیا جائے۔ آگ
کا یہ الاؤ بھڑکانے کے لیے انہیں فرقہ واریت کی شکل میں ایندھن بھی بآسانی
دستیاب ہے ۔ سعودی عرب اسلامی ممالک میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ حرمین
الشریفین کی موجودگی اسے دینی و مذہبی اہمیت عطا کرتی ہے اسکے علاوہ سنی
عقیدہ کے مسلمانوں کے لیے بھی سعودی عرب ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ دوسری
جانب ایران ہے جہاں شیعہ اکثریت ہے اور انقلاب ایران کے بعد تو ایران دنیا
بھر کے شیعہ مسلمانوں کے لیے نہایت ہی مقدم ہو چکاہے ۔ یہ مسلکی تفاوت ان
دو ممالک کے مابین سیاسی عداوت کا روپ دھار چکی ہے ۔ اس کا اظہار دونوں
ممالک وقتاً فوقتا ًکرتے رہتے ہیں مثلا عراق میں شیعہ سنی فسادات میں دونوں
نے اپنے مسلک کے لوگوں کی امداد کی ، شام کی خانہ جنگی میں بھی دونوں اپنے
حلیفوں کی امداد کر رہے ہیں ، لبنان ، بحرین اور شمالی یمن میں بھی یہی
صورتحال ہے ۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی وطن عزیز کی گلیوں میں فرقہ واریت کی
پشت پناہی بھی یہی دو ممالک بڑی شدومدسے کر رہے ہیں ۔ یہ صورتحال بدترین
جنگ کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے اور شدید ترین داخلی انتشار کا سبب بھی ۔
اس صورتحال کا فائدہ وہی مغربی ممالک اٹھا رہے ہیں جو وسائل پہ نظریں جمائے
بیٹھے ہیں ۔ وہ مسلسل اس آگ کو ہوا دے رہے ہیں تاکہ ان کے مقاصد جلد پایہ
تکمیل کو پہنچ سکیں ۔
اگر خطے کی صورت حال کو سامنے رکھ کر ہم تاریخ پہ بھی سرسری نگاہ دوڑائیں
تو معلوم ہو گا کہ خلافت عباسیہ کے زوال کے وقت بھی بعینہ یہی صورت حال تھی
۔ جب چنگیز خان کے ٹڈی دل لشکر نے خوارزم پہ حملہ کیا تو خلیفہ نے خوارزم
کی مدد اسلیے نہیں کی کہ یہ حملہ بغداد پہ نہیں خوارزم پہ ہوا ہے اور جب
بغداد کا محاصرہ ہوا تو شیعہ سنی مخاصمت رنگ لائی اور اسلامی تہذیب کا
گہوارہ عبرت کا نشان بن گیا ۔ بالکل اسی طرح جب افغانستان پہ مغربی
چنگیزیوں نے ھلہ بولا تو ہمارے شیر کی کھال میں چھپے گیدڑ صفت حکمران نے
'سب سے پہلے پاکستان ' کا نعرہ لگایا اورفریب خوردہ شاہیں نے کبوتر کی طرح
آنکھیں موندھ لیں۔عالمی طاقتوں نے اتحادی ہونے کا دلاسہ دیا اور ہم ان کے
ہو رہے ۔ اب ہم دہشت گردی کا شکار بھی ہیں اور یہی مغربی سرکار ہمیں اس
دہشتگردی کا محرک اورمجرم بھی قرار دے رہی ہے۔ اس وقت تک ہمارے چالیس ہزار
سے زائد افراد لقمہ ٔ اجل بن چکے ہیں لیکن غفلت کی عنودگی اس قدر ہے کہ ہوش
آنے کا نام تک نہیں لینے دیتی ۔ کاش کہ ہمارے حکمران وقت کے آینے میں اپنی
تصور دیکھ سکیں اور اپنا کردار ادا کر سکیں ۔
ایسی نازک صورت حال میں پاکستان کے حکمرانوں پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی
ہے کہ وہ ملکی اور علاقائی مفادات کا تحفظ کریں ۔ اس وقت امت مسلمہ کی
امیدیں پاکستان سے وابستہ ہیں ۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور امت کا
نگہبان بھی ۔ پاکستان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ حرم کی پاسبانی کے لیے امت
مسلمہ کو ایک کر سکتا ہے ۔ پاکستان عرب ممالک(خصوصا سعودی عرب ) اور ایران
کے درمیان بننے والی نفرتوں کی خلیج میں پل کا کردار ادا کر سکتا ہے ۔
پاکستان کو چاہیے کہ اس وقت فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرے ۔
امت کے دو گروہوں کو باہم دست و گریباں ہونے سے بچائے اور انہیں باہم شیرو
شکر کرے ۔ اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرے اور عالمی شازشوں کے سامنے بندھ
باندھنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس وقت پاکستان کے تعلقات دونوں طرف کے
ممالک سے بہتر ہیں ۔ پاکستان کو اپنی سفارتکاری میں بہتری لانے کی ضرورت ہے
اورخطے کے ممالک سے تعلقات مثالی بنانے کی ضرورت ہے ۔ اگر ہمارے حکمران
اپناصحیح کردار ادا کرتے ہیں تو تاریخ انہیں جمال الدین افغانی جیسے قائدین
کی صفوں میں شمار کرے گی اور اگر اب بھی غفلت سے کام لیا گیا تو ہماری
داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں ۔
اگر پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان مفاہمت اور دوستی کی فضا قائم
کر دیتا ہے تو خطے میں اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے ۔ شام میں برسر
پیکار متحارب گروہ بھی ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، لبنان ، یمن، بحریں میں
بھی امن کی راہیں کھلیں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وطن عزیز کی گلیوں میں
فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں بھی کمی آئے گی ۔ علاوہ ازیں علاقائی تجارت
کو فروغ ملے گا اور ایک دوسرے کے وسائل کے استعمال سے ترقی کی نئی راہیں
کھلیں گی ۔ ایشیائی ممالک بھی ترقی کے میدان میں مغربی ممالک کے ہم پلہ آ
جائیں گے اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی ۔ حکومت پاکستان کی ذمہ داری
ہے کہ وہ قومی سطح پہ اتفاق رائے کے ساتھ ا یک متفقہ خارجہ پالیسی ترتیب دے
جو تمام طبقات کی نمائندگی کرتی ہو ۔یہ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم چین جیسے
قابل اعتماد دوست کے ساتھ مل کر دنیا کے دیگر ممالک کو بھی اپنا ہمنوا
بنائیں۔دنیا ہماری عسکری و جوہری صلاحیت کا لوہا مان ہی چکی ہے اب ہمیں
ایسا کردار ان کے سامنے پیش کرنا ہے کہ وہ ہماری بات بھی مانے۔ اپنی عزت
اور ناموس کو زندہ رکھنے کا یہ ایک نادر موقع ہے اگر یہ موقع ہاتھ سے گنوا
دیا تو صدیوں اس کی تلافی نہ ہو پائے گی ۔ اﷲ سے دعا ہے کہ یہ احساسات
مقتدر طبقے کے دلوں میں اتار دے تاکہ امت سکھ کا سانس لے سکے۔ آمین۔ |