جب کوئی شخص تخت سلطنت کا مالک اور تاج حکومت پر متصرف ہو
جاتا ہے تو نسب اور خون کا تعلق اور اس کی فطری محبت کا تقاضا اس کو مجبور
کرتا ہے کہ وہ اس امر کی کوشش کرے کہ اس کے بعد جس طرح اس کا بیٹا اس کی
مملوکات ومقبوضات کا وارث و مالک ہوگا۔ اسی طرح اس کی بادشاہت حکومت کا بھی
وارث ہو لیکن یہ اس کی غلطی ہوتی ہے کیونکہ بادشاہت اس کی ملکیت نہ تھی
بلکہ وہ ایک امانت تھی جو ملک و قوم نے اس کے سپرد کر رکھی تھی۔ اس کا حق
ہے کہ یہ امانت پر تصرف کرے اور بااختیار خود کسی کے سپرد کرے۔امانت ہمیشہ
اس کے مالک کو سپرد ہونی چاہیئے۔لہذ ا اس بادشاہ کے بعد بادشاہت کا کسی
دوسرے کے سپرد کرنا ملکو قوم کا کام ہے۔ نہ اس بادشاہ کا۔لیکن بادشاہ یا
خلیفہ یا حکمران چونکہ سب کا متاع اور بڑی بڑی طاقتوں پر عامل و قابض ہوتا
ہے لہذا اس کو اس خیانت سے باز رکھنے اور اس غلط کاری سے بچانے کے لیے اس
بڑی ہمت اور اس قومی ارادے اور اس طاقتور قلب اور اس بلند حوصلہ کی ضرورت
ہے جو اسلام اپنے ہر ایک پیرو میں پیدا کرنا چاہتا ہے اور جو آنحضرت ؐ اور
قرآن مجید نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اندر پیدا کر دیا تھا۔ مسلمانوں
نے تعلیم اسلام کی طرف سے اعراض کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کیاس ہمت،
ارادے اور حوصلہ میں کمی واقع ہو گئی جو اسلام نے پیدا کیا تھا اور وہ اپنے
حکمرانوں کو اس خیانت سے باز نہ رکھ سکے بلکہ کم ہمتی کے سبب حکمرانوں کی
اس خیانت پر رضا مند ہو گئے ۔ آخر کا ر شخصی وراثتی سلطنت کی رسم بد جو
خلافت راشدہ کے عہد مسعود میں مٹ چکی تھی مسلمانون میں جاری ہوگئی اور اس
رسم بد پر رضامند ہو جانے کا خمیازہ مسلمانوں کو بارہا بھگتنا پڑا۔وراثت
ولی عہد کی نامعقول و ناستودہ رسم نے بسا اوقات ایسے ایسے نالائق و ناہنجار
لوگوں کو مسلمانوں کا حکمران بنایا جن کو معمولی بھلے آدمیوں کی مجلس میں
بھی جگہ نہیں ملنی چائیے تھی۔ بے شک مسلمانوں کا کوئی ایک ہی سلطان یا
خلیفہ یا حکمران ہونا چائیے لیکن وہ مسلمانوں کا بہترین شخص ہو اور مسلمان
اس کو کثرت رائے یا اتفاق رائے سے منتخب کریں ۔ کسی شخص کا کسی خلیفہ یا
بادشاہ کے گھر پیدا ہو جانے کا ہرگز ہر گز یہ مطلب نہیں وہ قابلیت حکومت
بھی رکھتا ہے۔اگر یہ وراثت والی رسم مسلمانوں کے اندر جاری نہ ہوتی اور امر
سلطنت اسی طرح محفوظ رہتا جیسا کہ خلافت راشدہ کے زمانے میں محفوظ رہا تو
آج اسلامی حکومت اور مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی جو ہم آج اپنی آنکھوں سے
دیکھ رہے ہیں لیکن مشیت ایزدی نے یہی چاہا ۔ مسلمان اگر شروع ہی سے اس کے
مخالف رہتے اور امر حکومت کے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش ترک نہ کرتے تو اگرچہ
ان کو بڑی بڑی قربانیاں اور زیادہ محنتیں برداشت کرنی پڑتیں لیکن پھر بھی
کسی حکمران کو اس امر کی جرات نہ رہتی کہ وہ اپنے بعد اپنے بیٹے کو حکمران
منتخب کرانے اور ولی عہد بنانے کی جرات کرتا۔ حضر ت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ کے ایک سے زیادہ بیٹے اس قابل تھے کہ وہ حکمرانی کر سکیں اور امور
سلطنت کو چلا سکیں لیکن انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں
میں بہترین شخص پایا اور انہیں کے لیے مسلمانوں سے فرمائش اور سفارش کی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ یقینا اس
قابل تھے کہ مسلمانوں کے خلیفہ ہوں لیکن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس
رسم بد کو مٹانے اور بالکل مستاصل کرنے کے چونکہ خواہش مند تھے لہذا انہوں
نے نہ اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ ناقابل خلافت تھے بلکہ
صرف اس لیے کہ وراثتی حکومت کا رواج مٹ جائے خاص طور پر وصیت فرما دی کہ
عبداللہ رضی اللہ عنہ ہر گز خلیفہ منتخب نہ کیے جائیں۔
لوگوں کی سب سے بری نادانی اور نا بینائی یہ ہے کہ وہ شخصی حکومت کی
برائیاں اور شخصی حکومت کے نقصانات دیکھ دیکھ کر ان برائیوں اور نقصانوں کا
اصل سبب دریافت نہیں کرتے بلکہ شخصی حکومت کے عام طور پر مخالف ہو کر
جمہوریت کی مدح سرائی شروع کر دیتے ہیں۔شخصی حکومتوں کی جس قدر برائیاں ہم
کو نظر آتی ہیں ان سب کا اصل الاصول یہ کہ شخصی حکومت نے وراثت میں دخل پا
لیا ہے اور بادشاہ یا حکمران کے انتخاب کا حق لوگوں سے چھن گیا ہے۔ شاید یہ
بات اس طرح سے سمجھ میں آجائے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعض عامل
جو صوبوں کے گورنر ہیں کہتے ہیں کہ ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ نیچے کے جبڑے پر ہے اور ایک اوپر کے جبڑے
پر اگر ہم ذرا بھی بے راہ روی اختیا ر کریں تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ
ہمارے دونوں جبڑے فورا چیر ڈالے گا۔ حضر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حکم
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتا ہے اور وہ سپہ سالار افواج کے
مرتبہ سے گرا کر ایک ماتحت بنا دیئے جاتے ہیں اور خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ جیسا فتح مند سالار لشکر بلا چون و چرا حکم کی تعمیل کرتا ہے۔
لیکن ہمارے ملک میں معاملہ ہی الٹ ہے ۔ یہاں چاہے بے نظیر بھٹو مرحومہ ہو
یا پھر حمزہ شہباز ہوں ، بلاول بھٹو زرداری ہوں یا پھر مریم نواز یا پھر
مونس الہی یہ سب لوگ ہمارے ملک کے آنے والے وزرائے اعظم سمجھے جاتے ہیں ۔
اگر سندھ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بلاول بھٹو کو سیاسی طور پر لانچ
کرنے کے لیے سندھ فیسٹیول کا اہتمام کیا گیا۔ جس طرح ہم لوگ اپنے بچوں کو
کھیلنے کے لیے کھلونے ، کمپیوٹر یا کوئی اور چیز دیتے ہیں اسی طرح آصف علی
زرداری نے بلاول کو کھیلنے کے لیے سندھ دیا ہوا ہے۔ اگر پنجاب کا حال دیکھا
جائے تو پتہ چلتا ہے کہ میاں شہباز شریف صرف اب نوٹس لینے کے لیے رہ گئے
ہیں کہیں کوئی قتل ہو جائے کی بیٹی کی عصمت دری ہو تو ہمارے وزیر اعلی صاحب
صرف نوٹس لیتے ہیں۔اور حمزہ شہباز اس وقت ہمیں وزیر اعلی کی ذمہ داریاں
سنبھالتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور دہشت گردی کا
اس کو سامنا ہے ۔ اس ملک کو اس کے حکمرانوں نے تباہ اور لنگڑا کر دیا ہے
اور پھر وراثتی سیاست جس نے میرٹ پر آنے والے لوگوں کا استحصال کر کے
جاہلوں کو اس ملک کے حکمرانوں کی کرسی پر بٹھا دیا ہے جو کہ نہ تو انسانیت
سے واقف ہیں اور نہ ہی انسانوں سے جو کہ خود ایک حصار میں رہتے ہیں اور عام
لوگوں میں تبھی آتے ہیں جب انہوں نے کوئی جلسہ یا جلوس کرنا ہوتا ہے۔ اور
ہمارے ملک کے وہ لوگ جو اپنے چھوٹے چھوٹے فائدوں کے لیے ایسے لوگوں کو ووٹ
دیتے ہیں وہ بھی ان سے تنگ ہو جاتے ہیں۔اور ایسے لوگ بھی اس ملک کی تباہی
میں اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنے کہ اس ملک کے حکمران ۔ دنیا کے حالات تیزی سے
بدل رہے ہیں اور یورپ بشمول امریکہ وغیرہ ہماری تباہی کا سامان تیا ر کر
رہے ہیں اور ہم لوگ بحیثیت قوم ان تمام معاملا ت سے لاعلم ہیں اور ہمارے
حکمران ان کو دعوت دے رہے ہیں اپنے بیانا ت سے کہ ہمارے اثاثے محفوظ نہیں
ہیں۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وہ قومیں جو عدل و انصاف کو ملحوظ نہیں رکھتیں
اور حکمران قرآن و سنت کو چھوڑ دیتے ہیں اس ملک میں قحط سالی اور لاقانونیت
اپنے جوبن پر آجاتی ہے اور ایسے حکمران لوگون پر مسلط ہو جاتے ہیں جو عام
سے محفل میں جوتیوں والی جگہ پر بھی بیٹھنے کے لائق نہیں ہوتے ۔ |