بھارتی عوام میں مقبول فلمی ستاروں کے سیاست کے میدان میں
اترنے کی داستان کوئی نئی نہیں۔ دلیپ کمار ہوں یا امیتابھ بچن بے شمار
ستارے انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی کر چکے ہیں۔کئی ستارے لوک سبھا میں
اپنی جگہ بنانے میں بھی کامیاب رہے اور کچھ کو اس میدان میں کچھ ہاتھ نہ
آیا۔ تاہم یہ سلسلہ ہے کہ کہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا۔بھارتی عام انتخابات
میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ بولی ووڈ کے کئی ستارے بھی حصہ لے رہے ہیں،جن
کی وجہ سے یہ انتخابات پہلے سے بڑھ کر رنگین ہو گئے ہیں۔سیاستدانوں کی
تقاریر، سیاستدانوں کے حیلے بہانے اور سیاستدانوں کے منصوبے یہ سب بھارت کی
سیاست کو کافی ڈرامائی بنا دیتے ہیں، تاہم بھارت کی فلم انڈسٹری ان سیاسی
ڈراموں کو پرد? سیمیں پر پیش کرنے میں پس و پیش کرتی ہے۔فلموں میں سیاسی
مسائل تو ہوتے ہیں لیکن خالص سیاسی فلم مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔سیاست میں
دلچسپی کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے کے بعد بھی بھارت
سیاسی فلمیں بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس بارے میں مختلف سماجی مسائل کو
فلموں کا موضوع بنانے والے فلم ساز اور ہدایت کار شیام بینیگل نے کہا:
’ہمارے ملک میں سینسر کافی حساس ہے۔ اگر ہم نے ایک سیاسی فلم بنا بھی لی تو
سینسر اپنی قینچی لیے کھڑا ہوگا۔ وہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی پارٹی یا کسی
بھی برادری کے مقاصد اور ان کے نقط? نظر کو پردے پر دکھا کر لوگوں کے
خیالات تبدیل کیے جائیں۔‘ "بھارت میں فلم کا مطلب ہے جو آپ کو تفریح فراہم
کرے۔ کوئی اپنی فلموں کے ذریعے کبھی ایک پارٹی یا ایک معاشرے کی سرگرمیوں
پر تبصرہ یا رائے نہیں دے سکتا۔ کئی سالوں سے فلموں کا مطلب ہی تفریح ہو
گیا ہے۔ پھر پولیٹکل سنیما کو کیسے جگہ ملے؟پھر کیا طریقہ ہے پولیٹکل فلمیں
بنانے کا؟ اس کا جواب دیتے ہوئے بینیگل نے کہا: ’دیکھو اگر ایسی فلمیں
بنانی ہی ہیں تو طنز اور ڈرامے کو ساتھ لینا پڑے گا کیونکہ یہاں براہِ راست
سیاسی فلم بنانا اور بیچنا مشکل ہے۔ کوئی بھی پروڈیوسر ایسے موضوع پر پیسے
لگانے سے پہلے تین بار سوچے گا اور اس لیے کوئی یہ خطرہ نہیں اٹھا سکتا۔
ایسا صرف بھارت میں ہی نہیں دنیا بھر میں ہے۔‘شیام بینیگل نے مزید کہا:
’اگر کسی کو سیاسی فلم بنانا ہے تو دستاویزی فلم کی طرح سے بنایا جائے
کیونکہ فیچر فلم بنانے میں زیادہ خطرہ ہے اور دستاویزی فلم وہی دیکھیں گے
جنھیں سیاسی سنیما میں دلچسپی ہے۔‘فلم ’شپ آف تھیسیس‘ بنانے والے آنند
گاندھی آج کل ایک سیاسی ڈاکیومنٹری پر کام کر رہے ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں
عام آدمی پارٹی کی دہلی اسمبلی انتخابات میں کامیابی اور بھارت میں گذشتہ
ایک سال کی سیاسی ہلچل کو کیمرے میں قید کیا گیاہے۔’کئی ہندوستانی فلموں
میں سیاسی گفتگو دکھائی جاتی ہے۔ جیسے کئی فلموں میں بے روزگاری، مہنگائی،
بدعنوانی وغیرہ کو مرتکز کیا جاتا ہے۔موجودہ دور میں آنے والی فلم ’دیکھ
تماشا دیکھ‘ کے ڈائریکٹر فیروز عباس خان اپنی فلم کو سیاسی طنزیہ قراردیتے
ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’سنیما دیکھنے والوں کا مقصد اپنی حقیقی دنیا کو بھول
کر ایک خواب کی دنیا میں چلے جانا ہے۔ وہ اپنی زندگی کی مشکلات کو سنیما پر
نہیں دیکھنا چاہتے اس لیے سیاسی سنیما کا چلن کم ہے۔‘فیروز عباس سے جب
’اپہرن‘ اور ’راج نیتی‘ جیسی فلمیں بنانے والے ہدایتکار پرکاش جھا کی بات
کی گئی تو انھوں نے کہا: ’پرکاش جھا کی تازہ فلموں میں گہرائی نہیں ہے۔ ان
میں سب پرانا سا لگتا ہے۔ ان کی فلموں کی آنچ تو پولیٹکل ہے لیکن اندر کی
کہانی عام ہوتی ہے، شاید وہ سمجھ گئے ہیں کہ مارکیٹ یہی چاہتی ہے۔‘سیاسی
فلم بنانے کا موقع بھارت میں بہت کم لوگوں کو ملتا ہے۔ عباس خان کہتے ہیں
کہ ’ایک فلم کے ساتھ بہت سے لوگ جڑتے ہیں اور شاید ان میں سے کچھ کو اس پر
یقین نہیں ہے۔ سیاسی موضوع پر مضمون لکھنا آسان ہے، ڈرامہ کرنا آسان ہے، پر
فلم بنانا مشکل ہے۔‘بھارت میں تقریبا‘ 80 کروڑ ووٹرز ہیں اور پولیٹکل فلمیں
برائے نام ہی بنتی ہیں۔ دیوان کا کہنا ہے جب تک ہندوستانی سنیما پر سے یہ
ناچ گانے والی فلموں کی مہر نہیں اٹھتی اور جب تک فلم سازوں کی سیاست جیسے
اہم ایشوز پر فلم بنانے کی خواہش نہیں ہوگی تب تک یہ سوال اٹھتا رہے گا کہ
سیاسی فلموں سے کیوں بھاگتا ہے بالی وڈ؟بھارت میں سیاسی فلیمیں تو نہیں بن
سکی۔ لیکن فنکار سیاست دان بن گئے،اس بار الیکشن میں بھی بہت سے فنکار حصہ
لے رہے ہیں۔ فتح تو جانے ان کے نصیب میں ہے یا نہیں، لیکن ہیما مالنی بی جے
پی کے ٹکٹ پر متھرا سے لوک سبھا کا انتخاب لڑیں گی، میرٹھ سے کانگریس کے
ٹکٹ پر فلمسٹار نغمہ امیدوار ہیں۔ راج ببر اس مرتبہ غازی آباد سے الیکشن
لڑیں گے،انھوں نے سیاست کو اپنی زندگی میں اس طرح شامل کیا ہے کہ اب تک چار
مرتبہ انتخابات جیت چکے ہیں۔گورداس پور سے الیکشن لڑنے والے ونود کھنہ نے
بھارتیہ جنتا پارٹی کودل میں بسا رکھا ہے ۔ مون مون سین ترینامل کانگریس کے
ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گی اور تاش کے تیسرے بادشاہ کو تو ہم بھول ہی
گئے۔شتروگن سھنا کو بی جے پی کا ٹکٹ پٹنہ سے ملا ہے۔ پریش راول بھی بی جے
پی کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ جانا چاہتے ہیں، راکھی ساونت کو بی جے پی نے بنگال
سے لڑانا چاہا مگر وہ ممبئی سے الیکشن لڑنے پر بضد ہیں۔ تاہم سچ یہ ہے کہ
وہ بھی بی جے پی سے الیکشن لڑین گی۔ دھرمندر بی جے پی کی طرف سے انتخابی
مہم میں حصہ لیں گے۔کانگریس چھوڑ بی جے پی کا ہاتھ اور بی جے پی چھوڑ کر
کانگریس کا ہاتھ تھامنے والے فلمی ستاروں کی سیاسی تگ و دو اب شروع ہونے کو
ہے۔پچھلے دنوں مشہور بھارتی فلمی اداکارہ پونم ڈھلون نے کانگریس سے ناطہ
توڑ کے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔ پونم کے والد ایروناٹیکل انجینیئر
تھے، بھائی بہن ڈاکٹر اور خود پونم نے پولیٹکل سائنس پڑھی تھی۔لیکن اپنی
دلکش شکل و صورت کے باعث پونم نے بھارتی فلمی صنعت ممبئی کی بالی ووڈ سے
اپنے کرئیر کا آغاز کیا۔ اور نو سال کے عرصے میں نوے فلموں میں کام کیا۔
پونم کا شمار ان دو درجن بھارتی فلمی ستاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے عام
انتخابات کے لئے سیاست میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔پھر فلمی صنعت کو خیر باد
کہا اور اپنی نجی زندگی میں مشغولیت کے دوران ہی انہوں نے سیاست کا میدان
چْنا۔ابتدا میں انہوں نے کانگریس کے ساتھ دو سال کام کرنے سے اور اب حالیہ
انتخابات کے لئے انہوں نے بی جے پی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس
کے ساتھ اپنی سیاسی کاوشوں کو پونم نے ’خاصا کارگر ‘ قرار دیا ہے۔اب ان کا
کہنا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت سیاست کو دینے کو تیار ہیں اور اپنی
پولیٹکل سائنس کی تعلیم کو صحیح معنوں میں استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ جس کے
بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈگری ان کے کام آئے گی‘ بھارت میں لوک سبھا
کے الیکشن میں بی جے پی نے امیٹھی کے حلقے سے کانگریس کے نائب صدر راہل
گاندھی کے مقابلے کیلئے ٹی وی کی سابق فنکارہ سمرتی ایرانی کو نامزد کردیا
ہے، یاد رہے کہ وہ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ نامی ڈرامہ سیریل کے ذریعے بہت
بڑے پیمانے پر مشہور ہوچکی ہیں، اسی حلقے سے عام آدمی پارٹی نے ممتاز شاعر
کمار وشواس کو ٹکٹ دیا ہے جنہوں نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے یہ
دلچسپ فقرہ کہاکہ میرے مقابلے پر ’’ایرانی ہو یا پاکستانی کوئی فرق نہیں
پڑتا کیونکہ حلقے کے عوام فیصلہ کرچکے ہیں‘‘، بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق
انتخابی مہم بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اس مرتبہ بہت بڑی تعداد میں
نوجوان پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، ماضی کی نسبت سوشل
میڈیا کو تشہیری مہم میں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہوچکی ہے، ان تمام عوامل کی
وجہ سے لوک سبھا کے آئندہ الیکشن میں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلے کا
امکان ہے، سیاسی مہم کے دوران بعض اوقات امیدواروں اور رہنماؤں میں دلچسپ
فقروں کا تبادلہ بھی ہورہا ہے۔بھارت میں پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر ہر
جگہ سیاسی ہلچل نظر آ رہی ہے یہاں تک کہ اس دوران ریلیز ہونے والی فلموں کے
پروموشن میں بھی انتخابات کے تعلق سے باتیں ہو رہی ہیں۔ کچھ ایسے بھی فنکار
ہیں کہ جو اپنے خاندان کی سیاست سے کنارہ کش نظر آتے ہیں۔ ممبئی میں ایک
فلم کے پروموشن کے دوران معروف اداکار سنی دیول نے ایک سوال کے جواب میں
کہا کہ وہ سیاست کے لیے نہیں بنے ہیں۔یاد رہے کہ ان کے والد اور اپنے زمانے
کے معروف اداکار دھرمیندر بھی سیاست کے میدان میں اتر چکے ہیں جبکہ ان کی
سوتیلی ماں ہیما مالنی تو بی جے پی کا معروف چہرہ تصور کی جاتی ہیں۔سنہ
1983 میں فلم ’بیتاب‘ سے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کرنے والے سنی دیول گذشتہ
دنوں ممبئی میں فلم ’دھشکیاؤں‘ کے پروموشن کے لیے آئے تھے جس میں وہ ’لکوا‘
کا کردار نبھا رہے ہیں۔ وہاں انھوں نے انتخابات کے موضوع پر اخباری
نمائندوں سے بات کی۔ انتخابات کے بعد ملک میں وہ کس قسم کی تبدیلی دیکھنا
چاہیں گے؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا: ’تبدیلی پہلے ہم سب کو اپنے
اندر لانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر چیز صحیح طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر
ہم کوئی کام کرنے جا رہے ہیں اور وہ کام نہیں ہو پا رہا ہے ، تو ہمیں اس کے
لیے رشوت نہیں دینی چاہیے۔‘سنی دیول نے فلم بیتاب سے اپنے کریئر کی شروعات
کی تھی۔انھوں نے کہا: ’اگر آپ کسی قطار میں لگے ہوں تو اس قطار کو نہ توڑیں
اور کوڑا کرکٹ ادھر ادھر نہ پھینکیں۔ اگر ہم یہ سب کریں اور کسی کی برائی
نہ کریں تو ملک میں اپنے آپ ہی تبدیلی آ جائے گی۔سنی دیول نے کئی معروف
فلمیں کی ہیں جن میں ’سوہنی مہیوال‘، ’یتیم، ’گھایل‘، ’غدر ایک پریم کتھا‘،
’بورڈر‘ وغیرہ شامل ہیں۔کیا سنی دیول کا فلموں سے سیاست میں آنے کا بھی
ارادہ رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں سنی نے کہا: ’میں ابھی اس بارے میں کچھ
نہیں کہہ سکتا کیونکہ کل کیا ہوگا، کوئی نہیں جانتا البتہ میں اتنا ضرور
کہہ سکتا ہوں کہ میں اس ڈھنگ کا آدمی نہیں ہوں اور میں سیاست کے لیے نہیں
بنا ہوں۔‘ٹی وی میں آنے کے سوال پر انھوں نے کہا: ’اگر ٹی وی میں مجھے کچھ
ایسا شو ملے، جس میں ایک اچھی کہانی ہو اور اس کے کردار اچھے ہوں تو میں اس
پروگرام کو ضرور کرنا چاہوں گا۔واضح رہے کہ امیتابھ، سلمان، شاہ رخ، اور
عامر خان جیسے بڑے اداکار ٹی وی پر بھی موجود ہیں۔سنی دیول بہت سی فلموں
میں سکھ کے کردار میں نظر آئے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ ٹی پروگرام
’ستیہ مے و جیتے جیسے کسی پروگرام کا حصہ بننا چاہتے ہیں جس میں سماجی
مسائل پر بحث کی جاتی ہے تو انھوں نے کہا: ’دیکھئے میں نے یہ شو نہیں دیکھا
ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر کسی شو میں اچھی کہانی ہوگی تو میں اسے
ضرور کرنا چاہوں گا۔‘سنی دیول کا زور کہانی پر تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ آج
کل کہانی سے زیادہ اس کی پروموشن فلم کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ اس بات
پر سنی دیول نے کہا: ’دیکھیے پبلسٹی پر ہی فلمیں نہیں چلتیں۔ پبلسٹی کو صرف
بیداری پھیلانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ہی لوگوں کو آپ
کی فلم کے ٹریلر اچھے لگیں گے، آپ کی فلم کی جھلک اچھی لگے گی تو وہ فلم
دیکھنے آئیں گے۔ عوام کو اس وقت کیا کھانے کی خواہش ہے۔ بی جے پی کی سب سے
بڑی حریف کانگریس پارٹی نے چودہ فلمی ستاروں کو اپنی جماعت میں شامل کیا
تھا۔ اس کے رکن پارلیمان سبیرامی ریڈی کا کہنا ہے کہ ’فلمی ستاروں میں ماضی
کے مقابلے میں آج سیاسی شعور زیادہ ہے۔ وہ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور سیاست
کو سمجھتے ہیں۔ بیشتر فلمی ستارے سیاسی جماعتوں کے لئے انتخابی مہموں میں
شامل ہوئے ہیں لیکن فلم سٹار گوندا ممبئی کے ایک انتخابی حلقے سے ایک بڑے
وفاقی وزیر کے خلاف الیکشن لڑ چکے ہیں۔ فلمی ستاروں میں کچھ ایسے بھی ہیں
جو بھارتی تاریخ سے آشنا نہیں ہیں۔جب ایک اخبار نویس نے بی جے پی کا ہاتھ
تھامنے والے سریش اوبرائے سے پوچھا کہ چھ دسمبر 1992 کیوں اہم تاریخ سمجھی
جاتی ہے تو انہوں نے بڑے اچنبے سے پلٹ کر اخبار نویس سے ہی پوچھا آخر
کیوں‘؟یاد رہے کہ یہ وہ تاریخ ہے جب ایودھیہ میں بابری مسجد منہدم کی گئی
تھی۔انیس سو اسی کے وسط میں مشہور اداکار امیتابھ بچن نے کانگریس کے ٹکٹ پر
اپنے آبائی شہر الہ آباد سے انتخاب جیتا تو تھا مگر پھر انہوں نے سیاست
چھوڑ دی تھی۔ امیتابھ کا خیال تھا کہ سیاست جذبات کی دنیا سے بڑا میدان ہے
اور اس میں کھیلنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں‘۔بھارت میں حالیہ عام انتخابات
میں اس بار بھی کئی فلمی ستارے انتخابی سرگرمیوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ کئی بھارتی فلمی ستارے کروڑوں ووٹروں کو انتخابات میں ووٹ
ڈالنے کے لئے اکسانے کی مہم پر بھی نکلے ہوئے ہیں۔ فنکار سیاست کے میدان
میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ سپر سٹار عامر خان اور 2006 میں سپر ہٹ
ہونیوالی فلم ’’رنگ دے بسنتی‘‘ کے ہدایت کار راکش مہرا نے مل کر ٹی وی کے
لئے ایک ایک منٹ کی تین اشتہاری فلمیں بنائی۔ جن کا مرکزی پیغام ہے ’’
استحکام کے لئے ووٹ دیں، اچھے لوگوں کو ووٹ دیں‘‘۔عامر خان کا کہنا ہے کہ
تشدد اور ممبئی حملوں نے بھارت کو بدل دیا ہے۔ اب عوام زیادہ حساس ہوگئے
ہیں اور ان کی سیاستدانوں سے زیادہ توقعات وابستہ ہیں۔ میرے خیال میں یہ
نہایت ضروری ہے کہ وہ صحیح امیدواروں کو ووٹ دیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا: ’’
میں کسی پارٹی یا کسی خاص نظریہ کو مشتہر نہیں کر رہا میرا مقصد صرف یہ ہے
کہ عوام صحیح امیدواروں کو کامیاب بنائیں۔‘‘کئی بار سیاست میں بولی وڈ کے
فلمی ستاروں نے نہ صرف بھارت میں مثبت تبدیلیوں کے لئے اپنا کردار ادا کیا
ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ عوام میں سیاسی شعور آگاہی کے لئے بھی سالوں سے
جدوجہد میں مصروف ہیں۔‘‘ انتخابات میں حصہ لینے پر سنجے دت کی پابندی اور
گووندہ کی انتخابات سے دستبرداری جیسے معاملات کے ساتھ ساتھ کئی بار یہ
فلمی ستارے سیاسیت کی بام اوج تک بھی پہنچے۔ سنجے دت کے والد سنیل دت
کانگریس کی طرف سے انیس سو چوراسی میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ من
موہن سنگھ کی کانگریس جماعت کی حکومت میں انہوں نے بوقت مرگ 2005 تک بطور
وزیر بھی خدمات سر انجام دیں۔دلیپ کمار بھارتی ایوان بالا کے رکن رہے اور
ہند و پاک دوستی کے رابطوں کے لئے اہم کردار ادا کیا۔امیتابھ بچن بھی انیس
سو چوراسی میں ریکارڈ ووٹوں سے بھارتی لوک سبھا کے رکن منتخب ہوئے تھے۔
تاہم دو برسوں بعد وہ ایوان کی رکنیت سے مستعفی ہو گئے تھے۔ان کے علاوہ
بولی وڈ کے سیاست کے میدان میں بھی کامیاب رہنے والے ستاروں میں گووندہ،
شترگن سنہا، دھرمندر، ہما مالنی اور ونود کھنہ قابل ذکر نام ہیں۔نوپم کھیر
کی اہلیہ کرن کھیراپارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور وہ انکی
پرزور حمایت کر رہے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو میں انوپم کھیر نے خواتین کو
انتہائی مضبوط قرار دیتے ہوئے اس بات کی بھی پرزور مخالفت کی کہ سیاست فلمی
ستاروں کے بس کی بات نہیں۔انہوں نے کہا کہ فلمی ستاروں میں سیاست کی سمجھ
بوجھ سیاسی لیڈروں سے زیادہ ہی ہوتی ہے -
بھارت میں عام انتخاب کے لئے جہاں سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی سرگرمیوں
میں اضافہ ہوا ہے وہیں بالی وڈ کے فلمی ستاروں کی انتخابی بھاگ دوڑ بھی بڑھ
گئی ہے۔ بالی وڈ کے اداکار سلمان خان کانگریس کے ایک امیدوار ملند دیوڑا کی
انتخابی مہم میں شرکت کرچکے ہیں۔ وہ ایک روڈ شو میں اپنی جھلک دکھلا کر چل
دیئے۔ سلو بھیا کی آمد کا سن کرعلاقے کے ہزاروں ووٹروں نے انتخابی جلسے میں
شرکت کی اور ان کیلئے نیک جذبات کا اظہار کیا۔ دوسری طرف بالی وڈ کے منا
بھائی سنجے دت کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے بعداپنی جماعت سماج وادی پارٹی
کے جلسوں کیلئے دن رات کام کیا۔ سنجے دت سماج وادی پارٹی کی اتحادی جماعت
کے ایک امیدوار راما سنگھ کی انتخابی مہم کیلئے دن رات لگے رہے۔ سیاست ہو
یا اداکاری دونوں میں عوام کی دلچسپی اور جوش خروش قائم رہتا ہے،دنیا بھر
میں فلمی ستارے اپنی سیاسی وابستگی کا کہیں نہ کہیں اعلان کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں طارق عزیز نے پیپلز پارٹی میں برے جوش خروش سے کام کیا۔لیکن
پاکستانی فلمی اداکاروں کو سیاست راس نہیں آئی۔ |