ہم نہ کہتے تھے کہ ہمارا کمانڈو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ۔سب
نے دیکھا کہ پرویز مشرف صاحب نے غداری کیس کی 36 ویں سماعت پر ’’کٹہرے‘‘
میں کھڑے ہو کر اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو ’’مردانہ وار‘‘ سُنا۔ اُن
کی خصوصی عدالت میں عدم حاضری کسی خوف کی بنا پر نہیں تھی ۔درحقیقت ہمارے
کمانڈو چاہتے ہی یہ تھے کہ جب اُن کا جی چاہے ، تبھی وہ عدالت میں جائیں
تاکہ یہ اثر زائل ہو سکے کہ مُکّے لہرانے والے کمانڈو پر کوئی ’’زور ،
زبردستی‘‘ بھی ہو سکتی ہے ۔پرویز مشرف صاحب نے صحتِ جرم سے انکار کے بعد
خصوصی عدالت میں ’’تاریخی خطاب ‘‘فرمایا۔اُن کی آواز کی گھَن گَرج سے یہ
محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ کبھی ’’بیماریٔ دِل ‘‘ میں مبتلاء بھی ہوئے
ہوں گے۔اُنہوں نے فرمایا ’’ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ، ترقی و
خوشحالی لانے اور عوام کا معیارِ زندگی بلند کرنے والا شخص کسی طور پر غدار
نہیں کہلایا جا سکتا۔میں اﷲ کو حاضر ناظر جان کر اور اپنی بوڑھی ماں اور
بچوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنے دَور میں ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی
اور اپنے آٹھ سالہ دور میں ملک کے لیے جو کچھ کیا وہ پاکستان کی ساری تاریخ
پر بھاری ہے ‘‘۔کچھ مشرف مخالف ’’بَد باطن‘‘ یہ کہتے ہیں کہ پرویز مشرف
صاحب نے واقعی ’’ایک پیسے‘‘ کی کرپشن نہیں کی کیونکہ ایک پیسے کے سِکّے کا
توپاکستان میں وجود ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی تو اسے کوئی فقیر تک قبول نہ
کرتا ۔اُنہوں نے تو کروڑوں ، اربوں اکٹھے کیے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ
اُنہوں نے پاکستان میں اپنے جو اثاثے ظاہر کیے اُن کی مالیت بھی کروڑوں
نہیں ، اربوں میں ہے ۔بیرونی ممالک میں خریدی گئی جائیداد اِس کے علاوہ
ہے۔بھلا ایک گورنمنٹ ملازم ، خواہ وہ چیف آف آرمی سٹاف ہی کیوں نہ ہو ،
اتنی جائیداد کا مالک کیسے ہو سکتا ہے ؟۔لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ واقعی
کمانڈو نے ملک کے لیے جو کچھ کیا ، وہ ساری پاکستانی تاریخ پر بھاری ہے
کیونکہ پاکستان کیا ، دُنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی
سَر براہِ مملکت نے اپنی قوم کی بیٹیوں تک کو غیروں کے ہاتھ بیچ ڈالا ہو
یااپنی دھرتی کو غیروں کے استعمال کے لیے یوں کھول دیا ہو کہ جیسے اِس کا
کوئی ’’والی وارث‘‘ ہی نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب باتیں ہی باتیں
ہیں ۔ہمارے کمانڈو نے واقعی ایسی تاریخ رقم کی ہے کہ حمزہ شہباز صاحب کو
سارے کام ادھورے چھوڑ کر ، اپنی اولین فرصت میں پرویز مشرف صاحب کا نام
گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں لکھوانا چاہیے ۔اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم
یہ سمجھنے پر مجبور ہونگے کہ میاں خاندان کے ’’وارثِ اعلیٰ‘‘ نے محض حسد کی
بنا پر ایسا نہیں کیا اور ابھی تک وہ اپنے خاندان کی جَلا وطنی کا دُکھ
نہیں بھولے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ’’محبوب لیڈڑ‘‘ اب بیرونِ ملک جانے کو تیار بیٹھے
ہیں لیکن ایسا وہ اپنی مرضی سے کر رہے ہیں ، کسی خوف کی بنا پر نہیں ۔دراصل
تین ماہ تک AFIC کی ’’قیدِ تنہائی‘‘ کاٹنے کے بعد ہمارے ’’ہر دِلعزیز رہنما‘‘
کچھ ’’اوازار‘‘ سے ہو گئے ہیں اِس لیے وہ اب اپنی ’’مخصوص دِل چسپیوں‘‘ کی
دنیا میں پھر سے لوٹنا چاہتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ ’’ جمہور‘‘ منہ دیکھتے
رہ گئے اور ریمنڈ ڈیوس پھُر سے اُڑ گیا ۔اب پھر جمہور تلملاتے رہ جائیں گے
اور کمانڈو پرواز کر جائے گا ۔شاید جمہوریت اسی کا نام ہے کہ ’’جمہور ‘‘ کی
سُنی جائے ، نہ مانی ۔شنید ہے کہ ایک خلیجی ملک کا طیارہ نور خاں ایئر بیس
پر پہنچ چکا اور سب تیاریاں مکمل ، بَس گرین سگنل کا انتظار ۔تقویت اِس خبر
کو یوں بھی پہنچتی ہے کہ سُننے میں یہ بھی آیا ہے کہ مشرف صاحب کو AFIC سے
ڈسچارج کرکے گھر بھیجا جا رہا ہے تاکہ ’’شَر پسند میڈیا‘‘ یہ نہ کہہ سکے کہ
فوج نے با لآخر اپنے چیف کو باہر بھیج کر ہی دَم لیا۔اِن ’’ بھولے پنچھیوں‘‘
کو کون سمجھائے کہ ہمہ مقتدر ادارہ آج بھی صرف فوج ہی ہے ۔یہ بجا کہ جنرل
کیانی صاحب کے چھ سالہ دَور میں فوج کے بارے میں ایسا تاثر کافی حد تک کم
ہوا اور کہنے والوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’فوج ستّو پی کر سوئی ہوئی
ہے ‘‘ لیکن پرویز مشرف کیس نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا کہ ’’خواب تھا جو
کچھ کہ دیکھا ، جو سُنا افسانہ تھا‘‘ ۔آخر قوم نے اِس کیس سے کیا حاصل کرنا
چاہتی ہے؟۔کیا عدل کی حکمرانی جو فی الحال تو نا ممکن ہے۔جب سے ٹرائل شروع
ہوا ہے ، قوم کے خون پسینے سے حاصل کیے گئے کروڑوں روپے مشرف صاحب کی
سکیورٹی پر صرف ہو چکے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم کو ’’سو جوتے بھی
مارے جائیں گے اور سو پیاز بھی کھلائے جائیں گے‘‘۔شاید اسی کو بھانپتے ہوہے
لال مسجد والے مولانا عبد العزیز نے بھی کہہ دیا ہے کہ مشرف کو معافی دے کر
انگلینڈ بھیج دیا جائے اور اُس کی سکیورٹی پر صرف ہونے والے کروڑوں روپے ’’
تھَر‘‘ کے مظلومین کو بھیج دیئے جائیں ۔ہمیں مولانا صاحب کی اِس تجویز سے
مکمل اتفاق ہے اور وجہ یہ ہے کہ ہم ’’بنفسِ نفیس‘‘پرویز مشرف صاحب کی
سکیورٹی پر کیے جانے والے انتظامات کو بھگت چکے ہیں ۔ہوا یوں کہ ایک عزیز
کی رحلت پر 31 مارچ کو راولپنڈی جانا پڑا ۔راولپنڈی پہنچ کر ہم نے سڑکیں
گھومنا شروع کیں لیکن ہر جگہ پرویز مشرف صاحب کی سکیورٹی کے لیے لگا ’’روٹ‘‘
ہمارا مُنہ چڑاتا رہا ۔در اصل ہمارا ’’روٹ‘‘ بھی وہی تھا جو ہمارے کمانڈو
کا تھا ۔اِس لیے نہ پائے ماندن ، نہ جائے رفتن کے مصداق ہم ایک جگہ گاڑی
روک کر کھڑے ہو گئے ۔میاں کی متواتربڑبڑاہٹ ہمارے کانوں میں رَس گھولتی رہی
۔ہم خوش تھے کہ ہمارے کمانڈو نے اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی پورے پنڈی کو
جام کرکے عوام کو ’’وخت‘‘ میں ڈال دیا ہے۔لَگ بھَگ ایک گھنٹہ انتظار کے بعد
ہمارے کمانڈو کا قافلہ ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزر گیا ۔ہم نے اُچک اُچک
کر قافلے کی گاڑیاں گننے کی کوشش کی لیکن بے سود کیونکہ قافلہ ہی اتنا بڑا
تھا کہ گنتی مشکل تھی ۔جو لوگ ہمارے کمانڈو کی مقبولیت کے منکر ہیں اُنہیں
، جس شان سے ہمارے کمانڈو باہر نکلتے ہیں ، اُس کا نظارہ کروا دینا چاہیے ۔ہمیں
یقین ہے کہ ایسی شان دیکھ کر وہ خود ہی شرمندہ ہو جائیں گے ۔میرے میاں
’’نمازِ جنازہ‘‘ میں شرکت سے تو محروم رہ گئے ، لیکن ہم خوش تھے کہ ہم نے
اپنے کمانڈو کی ’’عظمتوں ‘‘ کا نظارہ کرکے اپنی آنکھیں ’’ٹھنڈی‘‘کر لیں۔
بات ہو رہی تھی پرویز مژرف صاحب کے بیرونِ ملک جانے کی ۔خصوصی عدالت نے تو
صاف کہہ دیا کہ اُس نے توپرویز مشرف صاحب کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا
حکم نہیں دیا۔یہ فیصلہ وزارتِ داخلہ کا ہے اِس لیے اُسی سے رجوع کیا جائے
۔گویا جو بال حکومت نے خصوصی عدالت کی کورٹ میں پھینکی تھی ، خصوصی عدالت
نے وہی بال ’’گُگلی‘‘ مار کرحکومتی کورٹ میں واپس پھینک دی ۔ اِس کے باوجود
بھی وزیرِ اعظم میاں نواز شریف صاحب فرماتے ہیں کہ سابق صدر کا معاملہ
عدالت میں ہے ۔ صدرِ مملکت ممنون حسین صاحب کا فرمان ہے کہ وہ وزیرِ اعظم
صاحب کی سفارش پر عمل کریں گے ۔شنید ہے کہ میاں صاحب نے نواز لیگ کے سینئر
رہنماؤں کو ظہرانے پر بُلا لیا ہے ۔اندازہ یہی ہے کہ ظہرانے پر پرویز مشرف
صاحب کی بیرونِ ملک روانگی کے بارے میں صلاح مشورہ کیا جائے گا ۔اپنے وزیرِ
دفاع خواجہ محمد آصف’’ سیالکوٹی‘‘ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پرویز
مشرف صاحب کو راتوں رات جانے دیں۔ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب کا پروگرام
پرویز مشرف صاحب کو فُل پروٹوکول اور گارڈ آف آنرکے ساتھ باہر بھیجنے کا
ہو۔آخر وہ ہمارے سابق چیف آف آرمی سٹاف ، سابق صدر اور سابق چیف ایگزیکٹو
(تھری اِن وَن)ہیں۔اُنہیں بھلا ’’ایویں ای‘‘ کیسے جانے دیا جا سکتا
ہے۔البتہ اِس سارے افسانے میں وہ بالکل خاموش ہیں جنہیں وزیرِ داخلہ کہا
جاتا ہے حالانکہ اُنہیں تو بولنے کا ’’شوق ای‘‘ بہت ہے ۔ |