آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں

ملک اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔اندرونی و بیرونی خطرات کا اژدہا پھن پھیلائے ہمارے وجود کو ہڑپ کرنے کے در پے ہے۔غیروں کی جنگ کا وہ کمبل جسے گزشتہ عشروں میں ہم نے بلا سوچے سمجھے کھینچ کر اوڑھ لیا تھا اب وہ ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔افغان جہاد اور 9/11 کے حادثے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں غیر مشروط طور پرعالمی طاقتوں کا ہمرکاب ہوکرہم نے جو سنگین غلطی کی تھی اس کے نتائج آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ عام آدمی سے لیکر ملک کے طاقتور ترین لوگوں تک کوئی بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہے۔خود کش حملوں کی خود روفصل ہر طرف لہلہا رہی ہے۔ ا س تناظر میں حکومت کو قومی سلامتی کے حوالے سے فوری طور پر جراتمندانہ ، فہم وفراست پر مبنی اور دور رس نتائج کے حامل فیصلے کرنا ہیں۔ اس وقت اگردرست فیصلے کر لئے گئے تو یہ ملکی بقاء کے لیے سود مندثابت ہو ں گے۔

میاں نواز شریف اپنے گزشتہ دو ادوار میں جن تلخ ترین تجربات سے گزرے ہیں ان کومدنظررکھ کر وہ اس دور میں ہر قدم ا س طرح محتاط ہو کر اٹھا رہے ہیں جس طرح دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتے جو طاقت کے ان مراکز سے محاذ آرائی کا تاثر دے جنہوں نے ان کو سابقہ ادوارمیں اپنی ترجیحات کے مطابق حکومت چلانے کی اجازت نہیں دی۔ ایک طرف اتنی احتیاط برتی جا رہی ہے اور دوسری طرف قومی سلامتی کے پیش نظرکچھ ایسے فیصلے کئے جا رہے ہیں جو بظاہر تو درست معلوم ہوتے ہیں مگر مستقبل قریب میں ان کے نتائج ملک کے لئے کچھ خاص فائدہ مند نہیں ہوں گے۔ایسے ہی فیصلوں میں سے ایک تازہ ترین فیصلہ دفاعی بجٹ میں پندرہ سے بیس فیصد اضافے کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ حالیہ دنوں میں عساکر پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان ہونے والی ملاقات میں مالی سال 2014-15کے لئے دفاعی بجٹ میں اضافے کاجو فیصلہ کیا گیا ہے ا س کی توجیح کچھ لوگوں کی طرف سے یہ پیش کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی دونوں محاذوں پر سنگین ترین خطرات کا سامنا ہے اور ان خطرات سے نمٹنے کے لئے بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کی خاطردفاعی بجٹ میں ہر سال اضافہ نا گزیر ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جس پرمختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں میں شدید ترین اختلاف رائے موجود ہے۔

قوموں کی تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ترقی کی منازل اپنے دفاع پر بے تحاشہ رقوم خرچ کر کے نہیں تعلیمی انقلاب لا کر طے کی ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں دفاعی ادارے پہلے ہی اتنے طاقتور ہیں کہ ان کے حوالے سے عوام میں ریاست کے اندر ریاست کا تصور پایاجاتا ہے، ان کے بجٹ میں ہر سال اضافہ بد حال معیشت کے حامل ملک کے لئے کس طرح ممکن ہے۔ اس حوالے سے ایک چھوٹا سا واقعہ بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف1999میں سنگا پور کے دورے پر گئے اوروہاں کے سابق وزیر اعظم لی کو آن یو سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو 30سال سنگا پور کے وزیر اعظم رہنے کے بعد قوم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گئے اب مجھے اجازت دے دی جائے ۔ ملاقات میں سنگاپورکی ترقی کے معمار بزرگ نے میاں صاحب کی خواہش پر انہیں ملکوں کی ترقی کے چند گر بتائے۔ پاکستان کے حوالے سے اپنے تجربات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا آپ کے ملک کی ترقی میں دودوسری رکاوٹوں کے علاوہ تیسری اہم وجہ آپ کی ضرورت سے زیادہ بڑی فوج ہے۔ ان کا کہنا تھاآپ کے ملک میں فوج سیاست کا حصہ بن چکی ہے اور مجھے دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ملا جس نے فوجی اثر میں رہ کر ترقی کی ہو۔لی کوآن یوکے تجزیے سے ہمیں یہ تلخ حقیقت سمجھنے میں کون سی مشکل درپیش ہے کہ دفاع کے نام پر ہر سال کھربوں روپے خرچ کرنے کے باوجودہم ملک کو تو محفوظ نہیں بنا سکے ا لبتہ دفاعی اداروں کی طاقت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

یہ بات تمام تر شکوک وشبہات سے بالاتر ہے کہ پاک فوج کا شمار بحیثیت ادارہ دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے اور کوئی محب وطن شخص قومی دفاع کے حوالے سے ا س کے کردار کی نفی نہیں کرسکتا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی ادارے کو ملکی استحکام کی بنیادی اکائی تصور کرکے باقی تمام شعبوں کویکسر نظر انداز کردیا جائے۔بجا کہ ا س وقت پاکستان کی انٹرنل سیکورٹی کی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ خود کش حملوں کی وباء، مذہب کے نام پر ہونے والی قتل و غارت، بد امنی، برا طرز حکمرانی، تباہ حال معیشت، نسلی و مسلکی فسادات، کراچی اور بلوچستان کے مسائل،خسارے میں چلنے والے ادارے، توانائی کا بحران،بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور لوگوں کے متشدد انہ رویے ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔موجودہ حالات کا اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ہمارے قومی وجود کو دیمک کی طرح چاٹنے والے یہ تمام مسائل شعبہ تعلیم کو نظر انداز کرنے کی روش کا بالواسطہ یا بلا واسطہ نتیجہ ہیں۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک دفاع پرتو بے تحاشہ خرچ کیا گیامگر تعلیم کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے درسگاہیں انتہائی کم ہیں اس پر مستزاد یہ کہ جوادارے موجود ہیں ان میں معیاری تعلیمی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سکول کی سطح سے لیکر یونیورسٹی لیول تک تعلیمی ادارے وسائل کی بد ترین کمی کا شکار ہیں۔اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار فیکلٹی تو نہ ہونے کے برابر ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحقیقی ، تخلیقی اورتجزیاتی کام کی بجائے طلبہ رٹہ بازی کا ہنر خوب آزما کر دھڑا دھڑکاغذی ڈگریاں سمیٹ رہے ہیں۔تعلیمی شعبے کی اس بد ترین پسماندگی کے باوجود ہر سال دفاعی بجٹ تو اندھا دھند بڑھایا جاتاہے مگرصحت اور تعلیم کے بجٹ میں ہونے والا اضافہ شرمناک حد تک کم ہوتا ہے۔ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف آخری ہچکیاں لیتی زبوں حالی کا شکار معیشت اس قابل نہیں کہ ہر سال فارغ التحصیل ہونے والے نوجوانوں کو کھپا سکے۔ ان حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تعلیم، صحت، بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی، ترقیاتی کاموں اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی بحالی پر زیادہ سے زیادہ رقوم خرچ کی جاتیں مگر حکومتی مشیر' آ بیل مجھے مار' کے مصداق حکمرانوں کو دفاعی بجٹ میں اضافے جیسے عجیب و غریب مشورے دے رہے ہیں۔میاں نواز شریف کے سابقہ ادوار کے تلخ تجربے اوردفاعی اسٹیبلشمنٹ کے حد سے زیادہ طاقتور ہونے کے تناظر میں میرتقی میر کا یہ شعر بر محل محسوس ہوتا ہے-
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

مانا کہ تبدیل ہوتے ہوئے معروضات اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہر ملک کے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے مگر ان دفاعی اخراجات کازیادہ ترحصہ سرحدوں کی حفاظت پر خرچ کیاجاتا ہے۔ اندرونی دفاع ،دفاعی بجٹ میں اضافے سے نہیں عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی اور ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنا کرہی ممکن ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور ا س جیسی دوسری دہشت گرد تنظیموں سے نمٹنابے اختیار اور بے بس مذاکراتی کمیٹیوں کا کام نہیں۔ بے فائدہ مذاکرات کے لئے کمیٹیاں بنانے اور توڑنے کی مشق لا حاصل میں وقت ضائع کرنے کی بجائے وسیع پیمانے پر آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ اس طرح کے آپریشن کے لئے دفاعی اداروں کے پاس پہلے ہی کافی وسائل موجود ہیں لہذا دفاعی بجٹ میں اضافے کا کوئی جواز نہیں۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد جنگوں کی نوعیت تبدیل چکی ہے ۔ عالمی گاؤں بنی اس دنیا میں روایتی جنگوں کے زمانے لد گئے۔ اب سائبر وار، میڈیا وار، ائر سپیس اور معاشی مسابقت ملکوں کے نئے میدان جنگ ہیں اسی لئے اکثر ممالک اپنے تمام تر سرحدی جھگڑے اور ہر قسم کے اختلافات ختم کر کے ایک دوسرے کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاکراپنی سرحدوں کو محفوظ بنا رہے ہیں۔ہم بھی روایتی خارجہ پالیسی ترک کر کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد ڈال کر اپنی سرحدوں کو محفوظ بناسکتے ہیں۔ اگرہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو معیشت پر بوجھ بننے والے دفاعی بجٹ کو بہ آسانی قابل برداشت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

ممکن ہے کچھ لوگوں کواس نقطہ نظر سے اختلاف ہو لیکن اس ناچیز کی رائے یہ ہے کہ دفاعی بجٹ کی ایک حد مقرر کر کے اسے اگلے پانچ سال کے لئے منجمند کر دیا جائے اور آئندہ سالوں میں پیش کئے جانے والے میزانیوں میں تعلیم کا بجٹ تین سو سے پانچ سو فیصد تک بڑھا دیا جائے۔اگر ایسا ہو جائے تو کوئی بات نہیں اگلے ڈیڑھ سے دو عشروں میں ہماری تقدیر نہ بدل سکے۔ دوسری ترجیح معیشت کی بحالی ہونی چاہئے اور یہ بھی اس صورت میں ممکن ہے جب دفاعی اخراجات میں کمی کے بعد بچ جانے والی رقم کو نئے پراجیکٹس شروع کرنے اور خسارے میں چلنے والے اداروں کی بحالی پر خرچ کیا جائے۔ اس دلیل کا جواب بھی پیشگی عرض کیے دیتا ہوں جو اس کالم کی اشاعت کے بعدتنقید کے طور پر سننے کو ملے گی وہ یہ کہ اس وقت دنیا کے تمام ممالک اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کر رہے ہیں ایسے میں ہم کس طرح دفاع پر سمجھوتہ کر کے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر دفاعی اخراجات India Centricہیں اور بھارت کو یہ معلوم ہے کہ جب بھی ہماری سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو جنرل قدوائی ڈاکٹرائن کے تحت ہم ایٹم بم بھی چلا سکتے ہیں کیونکہ ایٹم بم ہم نے شو کیس میں سجا کر رکھنے کے لئے نہیں بنایا۔اس کے باوجود بھی اگر کسی کو دفاعی بجٹ کم محسوس ہو تو اس کے لئے تجویز یہ ہے کہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ اپنے اخراجات اس بزنس کی آمدنی سے پورے کر ے جو اس کے زیرانتظام منافع بخش اداروں کی شکل میں چل رہے ہیں۔ میاں محمد نواز شریف اگر اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے تعلیم کو اپنی پہلی ترجیح قرار دے کراس کا بجٹ کئی سو گنا بڑھا دیں اور دفاع کے بجٹ کو بتدریج کم کر دیں تو یہ بات کامل یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے قومی وجود کو لاحق اکثر بیماریاں خود بخود ختم ہو جائیں گی ۔آ پ تجربہ کر کے دیکھ لیں۔

Ghulam Mehdi
About the Author: Ghulam Mehdi Read More Articles by Ghulam Mehdi: 11 Articles with 8277 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.