امیر جماعت کے انتخاب میں دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے پیغام

جنرل ضیاء الحق: مولانا محترم میں چاہتا ہوں کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے اس سلسلے میں آپ میرے ساتھ تعاون فرمائیں تو عنایت ہوگی ۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی : آپ اس ملک میں وعدے کے مطابق انتخابات کرادیں ،یہ اس قوم پر آپ کا بہت بڑا احسان اور آپ کی عنایت ہوگی۔

یہ مکالمہ 1977میں اس وقت کا ہے جب ضیاء صاحب بھٹو صاحب کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تھے اور 90دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا ،اسی دوران کسی وقت انھوں نے مولانا مودودی سے ملاقات کر کے یہ گفتگو کی تھی ۔انتخابات کے حوالے سے مولانا محترم کا ذہن اتنا صاف تھا کہ انھوں نے تنظیمی مصروفیا ت کے باوجود اپنی سرگرمیوں کا بیشتر حصہ جہاں ایک طرف قرارداد مقاصد کی تشکیل میں صرف کیا وہیں مولانا نے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد بھی جاری رکھی اور اس کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد بھی کیے جمہوریت اور انتخاب کے حوالے سے مولانا کا موقف اتنا مضبوط تھا کہ اسی اہم اور حساس موضوع پر ماچھی گوٹھ کے اجتماع میں جماعت کے اندر ایک بھونچال آیا اور چوٹی کے اہم رہنماؤں نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی ،اس موضوع پر مولانا نے چار گھنٹے کی ایک طویل تقریر کی جو "تحریک اسلامی کا آئندہ لائحہ عمل"کے عنوان سے ایک کتاب کی شکل میں موجود ہے ۔جب مولانا ملک میں اور باہر کی دنیا کے لیے انتخاب کے حوالے سے اتنے شدید تھے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی جماعت کو جمہوری روح سے خالی رکھتے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے جماعت کے اندر جمہوریت کا اسٹرکچر اور انتخابات کا جو طریقہ کار متعارف کرایا ہے اس کی مثال کسی دوسری جماعت میں نہیں مل سکتی۔جماعت اسلامی میں ہر سطح کی شوراؤں اور امیر جماعت پاکستان کا چناؤ براہ راست انتخاب سے ہوتا ہے جب کہ دیگر نچلی سطحوں پر استصواب کرایا جاتا ہے ۔اس میں ارکان جماعت کی آراء کی روشنی میں بالائی امیر اپنی شوریٰ کے مشورے سے فرد کا تقرر کرتاہے ۔جب سے جماعت قائم ہوئی ہے یہ انتخابات اپنے وقت پر باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں اور ہر سطح کے ا نتخاب بھی اپنے وقت پر ہوتے ہیں لیکن پچھلے دو تین ٹرم سے امیر جماعت کا انتخاب پہلے سے پریس کا موضوع بن جاتا ہے اس طرح جماعت کا طرز انتخاب ازخود ایک پبلک موضوع بن جاتا ہے اسی لیے اس دفعہ کے انتخاب میں چونکہ فیصلہ سابقہ روایات سے کچھ ہٹ کر آیا ہے اس لیے بعض سیکولر فکر کے حامل اخبارات نے منفی انداز میں خبروں کی سرخیاں بنائی اور نتیجے کے حوالے سے اپنے تجزیے اور تبصروں کو ایک خاص ذہن کے ساتھ پیش کیا جس پر جماعت اسلامی کے رہنما جناب فرید پراچہ نے بر وقت گرفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ "بعض اخبارات میں امیر جماعت اسلامی پاکستان کے انتخاب کے حوالے سے چھپنے والی اس خبر کہ ،سید منور حسن اور لیاقت بلوچ کو شکست ہوئی اور سراج الحق کی کامیابی منور حسن کی پالیسیوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے ،کو خلاف واقع قرار دیتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر کا انتخاب عام روایتی اور قومی انتخابات سے بالکل مختلف بلکہ اس کے الٹ ہے،اس لیے ہار جیت کا تاثر پھیلانا درست نہیں انھوں نے کہا کہ امیر جماعت کے انتخاب کے لیے اپنے طور پر کوئی امیدوار نہیں ہوتا بلکہ کسی میں انتخاب امیر میں حصہ لینے کی خواہش کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو تو وہ نااہل قرار پاتا ہے اس لیے جب کوئی رکن جماعت اپنے طور پر امیدوار ہی نہیں بن سکتا تو شکست کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے "اس مرتبہ یہ ہوا ہے کہ سابقہ روایت سے ہٹ کر فیصلہ ہوا کہ پہلے جو امیر ہوتا تھا وہی دوبارہ کامیاب ہوجاتا تھا الا یہ کے دو ٹرم امیر رہنے کی وجہ سے اسے استثنیٰ حاصل ہو اس دفعہ بھی سید منور حسن صاحب نے شوریٰ کے سامنے اپنی صحت کے مسئلے پر معذرت کی تھی لیکن شوریٰ نے ان کی معذرت قبول نہیں کی جس وقت یہ فیصلہ آیا اس وقت بھی منور صاحب اپنی آنکھوں کی علاج کے سلسلے میں کراچی میں تھے اور انھوں نے خود فون کر کے سراج الحق کو کہا کہ اب آپ ہمارے امیر ہوں گے یہ سن کر وہ رونے لگے ظاہر ہے یہ ذمہ داری کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے ۔ہمارے تجزیہ نگار حضرات اس حوالے سے بات نہیں کرتے کہ ملک میں واحد جماعت اسلامی ایک ایسی جماعت ہے جس کے اپنے اندر جمہوریت ہے جب کہ دیگر جماعتوں میں موروثی قیادتیں سامنے آتی ہیں مولانا مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن ،شاہ احمد نورانی کی جگہ اویس نورانی بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو اور اب پھر بلاول بھٹو غفار خان کے بعد ولی خان اور ان کے بعد اسفند یار ولی دوسری طرف حمزہ شہباز،مونس الٰہی کو بھی آئندہ کے لیے تیار کیا جارہاہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے لوگ جب برسراقتدار آتے ہیں تو وہ چاہے اپنے منصب کا نام وزیر اعظم رکھیں صدر رکھیں یا چیف ایگزیکیوٹیواپنے طرز عمل کے لحاظ سے ان کا رویہ پرانے طرز کے بادشاہوں کے مانند ہوتا ہے یہ اپنی جماعتوں کے اندر بھی بادشاہت کا رویہ اختیار کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ یہ پارٹی انتخاب نہیں کرواتے اور اگر کرواتے بھی ہیں تو صرف نچلی سطح میں انتخابات کے نام سے نامزدگیاں ہوتی ہیں ،اس لیے یہ ملک میں جمہوریت کا صرف راگ تو الاپتے ہیں لیکن جمہوری رویہ کا مظاہرہ نہیں کرتے اس لیے کہ یہ سب لوگ جمہوریت کے حوالے سے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور ،کھانے کے اور والا طرز اپناتے ہے جماعت اسلامی کے امیر کے انتخاب میں دوسری جماعتوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنی جماعتوں میں بھی جمہوریت اور انتخاب کا کوئی نہ کوئی طریقہ بنائیں تاکہ اس ملک کے لوگوں کو یہ یقین ہو جائے کے یہ لوگ جب برسر اقتدار آئیں گے تو ملک میں بھی جمہوری کلچرل کو فروغ دیں گے۔دوسری طرف ان جماعتوں کو اس حوالے سے اپنے کارکنان کی تربیت بھی کرنا چاہیے تاکہ ملک میں ایک خوبصورت جمہوری ماحول کو پنپنے کا موقعہ ملے ۔

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 40049 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.