تحریر:آصف فراز
آخروہی ہواجس کا خدشہ تھا،طالبان سے مذاکراتی عمل شروع ہونے اورجنگ بندی کے
اعلان سے یہ خدشات ظاہرکئے جارہے تھے کہ طالبان مذاکرات اورجنگ بندی کے نام
پروقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔۔لیکن بعض دوستوں کی طرف سے ان تبصروں اورتجزیوں
کا مذاق اڑایا جاتارہا۔۔یہ کہا گیا کہ مذاکرات کی مخالفت کرنیوالے ملک کو
جنگ میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔۔۔اوراب تحریک طالبان مہمندایجنسی کے سربراہ
خالدخراسانی نے خوداعلان کردیا ہے کہ ’’ جنگ بندی معاہدے کی مدت ختم ہوگئی
،اب جنگ ہوگی اورعوام کاخون بہے گا‘‘
پاکستان کے حالات حاضرہ پرلکھے اپنے ایک مضمون میں خالدخراسانی نے کہا ہے
کہ حکومت اورطالبان میں فائربندی معاہدہ کی مدت ختم ہوگئی ہے جس میں توسیع
نہیں کی گئی ،اب جنگ ہوگی ،دھماکے ہونگے اورعوام مریں گے۔۔۔لیکن اس کی ذمہ
داروہ نہیں بلکہ حکومت پاکستان ہے جس نے فائربندی کے دوران وعدہ شکنی کی
اوردرجنوں طالبان یا ان کے حامیوں کو ہلاک کیا جبکہ بیسیوں گرفتارکئے
گئے۔حالانکہ حکومت نے خفیہ طورپریہ شرط تسلیم کی تھی کہ جنگ بندی کے دوران
چھاپے نہیں مارے جائیں گے۔ان کے مطابق حکومت اورفوج ملک میں امن چاہتی ہی
نہیں ہیں،ملک کا باثرطبقہ جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے کیونکہ جنگ بندی سے ان
کا بزنس اورکمائی ختم ہوجائیگی-
تحریک طالبان کے کمانڈرنے جنگ بندی کے دوران حکومت پروعدہ شکنی کا الزام
لگایا ہے لیکن جنگ بند ی کے دوران جوخودکش حملے ہوئے ،دھماکے کئے جاتے رہے
اوردرجنوں بیگناہ شہری شہید ہوئے ان کا ذمہ دارکون ہے ،کیا یہ جنگ بندی کے
خلاف نہیں ہے ،حالانکہ جس وقت جنگ بند ی کا اعلان کیا گیا بعض دفاعی ماہرین
نے یہ خدشہ ظاہرکیا تھا کہ طالبان جنگ بند ی کے دوران خودکومنظم کرنا چاہتے
تھے اوراس عرصے میں انہوں نے لازما کوئی ناکوئی حکمت عملی یا تیاری کرلی
ہوگی جس کے بعد خالدخراسانی کو اس طرح کی بات کرناپڑی ،یہ بات بھی واضع ہے
کہ جنگ بندی کے دوران حکومت نے کیا حاصل کیا ہے ،طالبان نے ایک انچ جگہ
چھوڑی اورنہ ہی اپنے موقف سے پیچھے ہٹے ہیں،طالبان فاٹا کی آزادی یا انسانی
اور جمہوری حقوق کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے ہیں، و ہ مخصوص نظریات اورسوچ
کو ریاست ِ پاکستان پر عملی طور پر نافذ کرناچاہتے ہیں ،ہمیں اس سے بھی
کوئی اختلاف نہیں ہے ہرشخص کواپنی سوچ ،نظریئے کو دوسروں تک پہنچانے کا حق
ہے لیکن اس کا ایک جمہوری طریقہ موجودہے۔۔بندوق کی نوک پراپنی سوچ
اورنظریات کو دوسروں پرلاگونہیں کیا جاسکتا،یہ بات طالبان قیاد ت کو سمجھنا
ہوگی،ملک میں امن کاقیام ہویا پھرحقیقی معنوں میں اسلامی شریعت کا نفاذ یہ
سب جمہوری عمل سے ہی ممکن ہے -
اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت شدید مخالفت کے باوجود مذاکرات کا عمل جاری
رکھنا چاہتی ہے ،وزیراعظم خوداس عمل میں دلچسپی لے رہے ہیں اوراس مذاکراتی
عمل کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں ،طالبان مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ
مولانا سمیع الحق سمیت کمیٹی کے کئی ارکان حکومت اورطالبان دونوں سے جنگ
بندی میں توسیع کی اپیل کررہے ہیں ،کیونکہ جنگ بندی ہوگی توامن ہوگا
اورمذاکراتی عمل آگے بڑھے گا،طالبان کے نزدیک اگرحکومت نے وعدہ شکنی کی ہے
توطالبان بھی ان گروپوں کو منظرعام پرلانے میں مددکریں جو جنگ بندی کے
دوران حملے اوردھماکے کرتے رہے ہیں،طالبان کمانڈرکی طرف سے جنگ شروع ہونے
کی دھمکی یا خدشہ حالات خراب کرسکتا ہے اورامن کے لئے کی جانیوالی تمام
ترکوششوں پرپانی پھرجائیگا،مولانا سمیع الحق کو طالبان کمانڈرکے اس بیان کا
نوٹس لینا چاہئے اوران سے بات کرنی چاہئے،بقول پروفیسرابراہیم طالبان جنگ
بندی میں توسیع چاہتے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں
آیا ہے صورتحال کو گھمبیربنادیتاہے۔حکومت اگرمذاکراتی عمل کاتسلسل اورانہیں
نتیجہ خیزبناناچاہتی ہے توپھرکسی تاخیرکے بغیرجنگ بندی میں توسیع کا اعلان
کردیاجاناچاہئے لیکن اگرحکومت کوئی اورفیصلہ کرچکی ہے توپھرقوم کومزیدتذبذب
میں نہ رکھا جائے -
ملک کی کئی مذہبی ،سیاسی شخصیات حکومت کویہ مشورہ دے چکی ہیں کہ طالبان کے
جوگروپ مذاکرات چاہتے ہیں ان کے ساتھ جنگ بندی میں توسیع کا اعلان کرتے
ہوئے بات کا عمل جاری رکھا جائے اورجو گروپ جنگ چاہتے ہیں ان سے بندوق کی
زبان میں ہی بات کی جائے۔ادھرطالبان کے ترجمان شاہداﷲ شاہد نے کہا ہے کہ
جنگ بندی میں توسیع کے معاملے پرطالبان شوری میں اختلاف ہے،تاہم جلد ہی یہ
اختلاف ختم ہوجائیگا،اس کے بعد کیا ہوگا،کیا طالبان جنگ بندی میں توسیع
پرمتفق ہوجائیں گے یا پھرجس طرح طالبان کمانڈرخالدخراسانی نے کہا ہے ’’اب
جنگ ہوگی ،دھماکے ہونگے اورعوام مریں گے‘‘ |