سعودی عرب اور پاکستان کی دوستی کا عروج تو ہم سب نے ڈیڑھ
ارب ڈالر کی مالی امداد کی صورت میں ملاحظہ فرما لیا۔ اب اس ڈیڑھ ارب ڈالر
کو امداد کہہ لیں، تحفہ کہہ لیں، مسلم بھائی چارے کی درخشاں مثال قرار دیں
لیں! ڈالر تو آ گئے اورروپے کی قدر بھی بڑھ کر فی ڈالر 98 اور 99 کے درمیان
آ گئی پر دوسری جانب بچوں کے خشک دودھ کی قیمت جو پہلے 358 روپے فی 400
گرام پیک تھی اب 390 روپے فی 400 گرام پیک ہے!!!
بلا شبہ آج کے سرمایہ دارانہ نظام میں بنا مطلب و مفاد پرایا تو درکنار
اپنا بھی حاجت مند کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنا گنورارا نہیں کرتا تو اس
سعودی امداد کو دو ملکوں کے مابین بہترین تعلقات اور مفادات سے زیادہ دو
خاندانوں کے درمیان قائم تعلقات و مفادات کے تناظر میں پرکھنا چاہیے۔ ایک
باقائدہ شاہی خاندان اور دوسرا ایسی ہی بادشاہت پاکستان میں قائم کرنے کا
خواہاں ضرور رہاہے! سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان کی فکر اپنی من
پسند شخصیات کے دورِ حکومت ہی میں کیوں ہوتی ہے؟ اس کا جواب بھی سیدھا سا
ہے کہ ہر وہ پاکستانی حکومت جو ایران سے تعلقات بہتر رکھنے کی کوشش کرے گی
وہ سعودی عرب کے لئے نا پسندیدہ رہے گی۔اسی طرح ہر حکومت جو ملک سے فرقہ
واریت اور دہشت گردی کا حقیقی خاتمہ کرنے کی کوشش کرے گی وہ بھی سعودی عرب
کے لئے ناگواری کا باعث ہو گی۔ اس بات کی سادہ سی مثال سعودی عرب کی ایران
سے نفرت کا وہ عالم ہے کہ جس کے زیر نگیں بارہا ایران کو دنیا کے لئے خطرہ
قرار دیتے ہوئے امریکہ کو ایران پر بھر پور حملہ کرنے پر اکساتا رہا اور
ایران دشمنی میں اسرائیل کا ہمنوا ہے۔
ڈیڑھ ارب ڈالر کی رقم پاکستان جیسے معاشی طور پر پسے ہوئے ملک کے لئے بے شک
خطیر ہے پر Petro Dollars کا حامل ایسا شاہی خاندان جس کے شاہ خرچ شہزادے
آدھ ارب ڈالر محض اپنے ہوائی سفر کے لئے طیارے کی خرید اور تزین و آرائش پر
صرف کر دیں، ڈزنی ورلڈ گھومنے جائیں تو ایک ہی جھٹکے میں تین روزہ تفریحی
دورے پر 20 ملین ڈالر اڑا دیں جو کہ پاکستانی حساب سے قریباٌ دو ارب روپیہ
بنتاہے،نائٹ کلبوں میں جائیں تو تھرکتے جسموں پر کڑوڑوں نچھاور کر دیں،
مہنگی سے مہنگی گاڑیاں خریدیں پھر ان پر ہیرے جواہرات جڑتے پھریں تو ایسے
کسی شاہی خاندان کے لئے ڈیڑھ ارب ڈالر خرچ کر کے زر خرید غلام بنانا سستا
سودا ہے۔ غلام بھی وہ جو دنیا کی سات ایٹمی قوتوں میں شمار کیا جاتا ہے،
دنیا کی پانچویں بڑی افواج کا حامل ہے، جہادی مہمات کا وسیع تجربہ رکھتا
ہے،اپنے پیروں پر بلا چوں چراں کلہاڑے چلانے کا ہنر خوب جانتا ہے اور سونے
پہ سہاگا دماغ کو ماؤوف رکھنے پربھر پور دسترس حاصل ہے!!!
بین الاقوامی حالات تبدیل ہو رہے۔ ممالک کے مابین نئے تعلقات استوار ہو رہے
ہیں۔ ایران برس ہا برس دنیا سے کٹے رہنے اور تمام تر معاشی پابندیوں کا مزہ
چکھنے کے بعد اپنا ایٹمی خواب ادھورا چھوڑ کر اپنے اس دشمن کے ساتھ مذاکرات
کی میز پر آن بیٹھا ہے جس سے کسی زمانے میں ان کا اِٹ کتے کا ویر تھا۔ یہ
گلوبلآئزیشن کا دور ہے! ڈیرھ اینٹ کی مسجد بنا کر، دشمنیاں پال کر جینا
نہیں صرف سسکنا ممکن ہے۔
پاکستان نے حالیہ برسوں میں ضیاء دور کی جہاد ی پالیسی کے جو نتائج دہشت
گردی کی صورت میں بھگتے ہیں اور بھگت رہا ہے اس کے بعد بھی پاکستان کوئی
سبق نہ سیکھے تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ عقل مند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا
ہے یہاں تو 50-60 ہزار پاکستانی لاشوں، چیتھڑوں اور کٹے ہوئے سروں پر کھڑا
دشمن ہمارا منہ چڑاتا رہتا ہے۔
بین الاقوامی سطح پر پھیلی فرقہ واریت اور دہشت گردی کی لہر میں حالیہ
برسوں میں سعودی عرب کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ دہشت گردی میں ملوث
تنظیموں کو وصول ہونے والی مالی ترسیلات کے اکثریتی تانے بانے سعودی عرب ہی
سے جا کر ملتے ہیں۔ حالانکہ سعودی عرب نے امریکہ کی جانب سے دہشت گرد
تنظیموں کو حاصل شدہ سعودی سرزمیں سے نکلی مالی ترسیلات سے جڑے ثبوت فراہم
کئے جانے اور دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی کے حوالے سے امریکی دباؤ
پر سعودی عرب سے نکلتی باقائدہ مالی ترسیلات پر ہاتھ سخت کرتے ہوئے القائدہ
جیسی جماعتوں کے مالی اثاثے منجمد کئے ہیں پر دیگر ہم مسلک جماعتوں پر
سعودی عرب میں چندہ اکٹھا کرنے اور اس کی ترسیل پر کوئی پابندی عائد نہیں۔
بین الاقوامی معاملات میں سعودی کردار انتہائی دوغلا ثابت ہو رہا ہے۔ ایک
طرف حال ہی میں مصر میں اخوان المسلمون اور عراق میں اسلامک سٹیٹ آف عراق
اینڈ لیونٹ کو کالعدم قرار دیا ہے تو دوسری جانب شام میں باغیوں کی
بالواسطہ بھر پور حمایت بھی جاری ہے۔ ماضی میں عرب سپرنگ کے دوران مصر میں
اقتدار پذیر ہونے والی اخوان المسلمون کی مرسی حکومت گرانے میں مصری فوج کو
اربوں ڈالر کی امداد دی گئی اسی طرح بحرین میں سنی حکومت کی بھرپور معاونت
کر کے انقلاب کو دبایا گیا۔ در حقیقت شاہی خاندان اب دہشت گردی کے خاتمے کا
لبادہ اوڑھ کر ایسے قوانین و سخت سزائیں جاری کر رہا ہے اور ہر اس جماعت کو
کالعدم قرار دے رہا ہے جس کے نظریات شاہی خاندان کی بادشاہت کے لئے خطرہ
ہیں اور معاشرے کو متحرک کرتے ہوئے عوام میں سیاسی شعور ، حقوق اور آزادی
کی چنگاری کو ہوا دے سکتے ہیں۔ شام یا دیگر ممالک میں سعودی شہریوں کے مزید
لڑنے پر پابندی لگانے کا مقصد بھی یہی خوف ہے کہ یہ لڑاکے کل کو سعودی عرب
کے بادشاہی نظام کو بھی چیلنج کر سکتے ہیں! اسی لئے اب ان کو شام میں لڑنے
کے لئے تھرڈ پارٹی ، انسانی وسائل ، ہتھیار اور نیا ترسیلی نظام درکار ہے۔
سعودی عرب کی اس جہادی پالیسی کی بنیاد 1744 میں السعود خاندان اور محمد
ابن عبدالوہاب کے مابین طے پانے والا اقتدار میں باہمی شراکت کا وہ معاہدہ
ہے جس کے تحت السعود خاندان محمد ابن عبدالوہاب کے نظریات ہر ممکن طریقہ سے
نافذ العمل کروائے گا اور بدلے میں السعود خاندان کا سعودی ریاست پر حقِ
بادشاہت اور سیاست تسلیم کیا جائے گا۔ اسی معاہدہ کے تحت پہلی سعودی ریاست
امارات درعیہ وجود آئی۔ یہ معاہدہ آج تک قائم و دائم ہے۔ مذہبی لحاظ سے
سعودی عرب سرزمیں کی عزت و تکریم تمام مسلمین کے دلوں میں قائم ہے اور رہے
گی پرسعودی شاہی خاندان اسی مذہبی لگاؤ کی آڑ میں اپنے اقتدار کے دوام،
قومی اثاثوں کے بل پر عیاشیوں ، بادشاہت کا نظام برقرار رکھنے اور اسے دنیا
بھر میں پھیلانے کی منشاء کسی بھی حد تک بھی جانے سے گریز نہیں کرتا۔ افغان
روس جنگ میں بھی سعودی عرب کے پاکستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کی بنیادی
وجہ مدرسوں کے رستے اپنے انتہا پسند نظریات کی ترویج تھی جس میں وہ حد درجہ
کامیاب بھی رہا۔
پاکستان کے لئے ضروری ہے سعودی عرب ، بحرین اورمتحدہ عرب امارات جیسے کسی
فرقہ واریت پر مبنی بلاک کا حصہ بننے سے اجتناب کرے۔ نہ پاکستان میں
بادشاہی نظام رائج ہے اور نہ ہی عوام کسی ایسے نظام کی حمایت کرتی ہیں۔
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جسے کامیابی سے محض جمہوری طریقہ سے ہی چلایا جا
سکتا ہے۔ سعودی خاندان کی محبت اور شفقت کے باوجود پاکستان اپنے آپ کو نہ
شام کی جلتی ہوئی صورتحال میں کسی بھی طرح بالواسطہ یا براہ راست جھونک
سکتا ہے اور نہ ہی ایران کے خلاف کسی مہم جوئی کا حصہ بن سکتا ہے۔ پاکستان
کا کردار ایک ثالث کا ضرور ہو سکتا ہے جو فرقہ واریت پر مبنی اس جنگ کے پر
امن خاتمے کا موجب ہو سکے۔پاکستان! جہاں پہلے ہی امن کے نام پر دہشت گردوں
کی منت سماجت کی جا ری ہے وہاں یاری دوستی یا Petro Dollars کے بوجھ تلے دب
کر کوئی نیا بین الاقوامی فرنٹ کھول دینے کا متحمل پاکستان نہیں ہو سکتا۔
|