یوں تو مرزا اسداﷲ خان غالب کی
زندگی غم واندوہ کامرقع تھی۔کم سنی میں والدین کی رحلت ،مشفق ومہربان
چچاکاداغِ مفارقت دے جانا اور پینشن یعنی حقہ پانی بند ہوجاناجیسی صعوبتوں
کوآپ نے بڑی خوش اسلوبی سے برداشت کیا۔ان پُردرد لمحات کو مرزا صاحب نے
اپنی حُسن بیان ،شوخی وظرافت جیسی خدادادصلاحیت سے کبھی اپنے اوپرحاوی نہیں
ہونے دیا۔مرزا صاحب کی تحریر کے ساتھ ان کی تقریر بھی بہت پُر لطف تھی اسی
وجہ سے لوگ ان سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کے مشتاق رہتے تھے،وہ زیادہ
بولنے والے نہیں تھے مگر جو کچھ ان کی زبان سے نکلتاتھالطف سے خالی نہ
ہوتاتھا۔ظرافت مزاج میں اس قدر تھی کہ اگران کوبجائے حیوان ناطق کے حیوا ن
ظریف کہاجائے توبے جانہ ہوگا۔حسن بیان،حاضر جوابی اور بات میں سے بات
پیداکرناان کی خصوصیات میں سے تھا۔ مرزاصاحب کی شوخیوں کے چند مثالیں درج
ذیل ہیں۔مرزاصاحب کواکثرلوگ پنشن کاحال دریافت کرنے کوخط بھجتے تھے۔ایک
دفعہ میرمہدی نے اسی مضمون کاخط بھیجاتھا،اس کے جواب میں مرزاصاحب لکھتے
ہیں’’میاں بے رزق جینے کاڈھب مجھ کوآگیاہے،اس طرف سے خاطر جمع رکھنا،رمضان
کامہینہ روزے کھاکھاکرکاٹا،آگے خدارزاق ہے،کچھ اور کھانے کونہ ملاتوغم
توہے‘‘۔مرزا کوشطرنج اور چوسر کھیلنے کی بہت عادت تھی۔اس بابت انھیں جیل
بھی ہوئی،جب مرزا قید سے چھوٹ کرآئے تومیاں کالے صاحب کومکان میں آکررہے
تھے،ایک روز میاں کے پاس بیٹھے تھے،کسی نے آکر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد
دی،مرزانے کہا:پہلے گورے کی قیدمیں تھااب کالے کی قیدمیں ہوں‘‘۔یعنی
مرزاصاحب نے قیدوبند کی صعوبتوں پر لعن طعن،شکوہ وشکایت کرنے کی بجائے اسے
اپنے الفاظ وبیان کے سنگم میں چھپالیا۔کہتے ہے انسان کی شہرت اس کے حاسدین
کوجنم دیتی ہے۔کچھ ایسا ہی مرزاغالب کے ساتھ بھی ہوا۔آئے دن مرزاصاحب
کوگمنام ناموں سے خطوط آتے جو فحش کلامی اورگالی گلوچ سے پُر ہوتے۔مگر
مرزاصاحب ان خطوط کوپڑھ کر برہم ہونے کی بجائے اس میں بھی مزاح کا پہلوتلاش
کرلیتے تھے۔جیساکہ آپ کوایک خط آیاجس میں ماں کی گالی لکھی ہوئی
تھی،مسکراکرکہنے لگے کہ’’اس اُلّو کوگالی دینی بھی نہیں آتی،بُڈھے
یاآدھیڑآدمی کو بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کوغیرت آئے،جوان کوجوروکی
گالی دیتے ہیں کیونکہ اس کوجوروسے زیادہ تعلق ہوتاہے،بچے کوماں کی گالی
دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابرکسی سے مانوس نہیں ہوتا۔یہ قُرم ساق جو بہتر
برس کے بڈھے کوماں کی گالی دیتاہے اس سے زیادہ کون بے وقوف ہوگا؟
مکان کے جس کمرے میں مرزااسداﷲ خان غالب دن بھر بیٹھتے اٹھتے تھے وہ مکان
کے دروازے کی چھت پر تھا اور اس کے ایک جانب ایک کوٹھری تنگ وتاریک تھی جس
کادر اس قدر چھوٹاتھا کہ کوٹھری میں بہت جھک کرجانا پڑتاتھا،ایک دن جبکہ
رمضان کامہینہ اور گرمی کاموسم تھا،مفتی صدرالدین آزردہ ٹھیک دوپہر کے وقت
مرزا سے ملنے کوچلے آئے،اس وقت مرزاصاحب ایک دوست کے ساتھ چوسر یاشطرنج
کھیل رہے تھے،مولانابھی وہیں پہونچے اور مرزاکواس حالت میں دیکھ
کرفرمایا:ہم نے حدیث میں پڑھاتھاکہ رمضان کے مہینے میں شیطان
مقیدرہتاہے،مگرآج اس حدیث کی صحت میں تردد پیداہوگیاہے‘‘۔مرزا صاحب نے
برجستہ کہا’’قبلہ!حدیث بالکل صحیح ہے،مگرآپ کومعلوم ہے کہ وہ جگہ جہاں
شیطان مقیدرہتاہے وہ یہی کوٹھری توہے‘‘۔الغرض مرزاکی کوئی بات لطف اور
ظرافت سے خالی نہ ہوتی تھی ۔مرزاصاحب مرغن غذاؤں کے بڑے شوقین تھے،آخری
ایام میں تنگدستی ومفلسی نے جب شکنجہ کساتو شوق توبہرحال باقی رہامگر اس کی
دستیابی ختم ہوگئی۔ایک روز دوپہر کاکھاناآیا ،برتن تو بہت سے تھے مگر
کھانابہت قلیل تھا،مرزانے مسکراکرکہا’’اگر برتنوں کی کثرت پر خیال کیجئے
تومیرادسترخوان یزید کادسترخوان معلوم ہوتاہے اور جوکھانے کی مقدار
کودیکھیے توبایزیدکا‘‘۔انسان بوڑھاتوہوجاتاہے مگر اس کی خواہشیں ہمیشہ جوان
رہتی ہے اور نئے نئے پکوان تناول کرنامرزاصاحب کی فطرت تھی،مگر تنگ دامنی
میں انہوں نے اس کی کمیابی کی شکایت نہیں کی،تنگ دل نہیں ہوئے بلکہ اس میں
بھی مزاح کاپہلوڈھونڈنکالا۔پھلوں میں آم آپ کو بہت مرغوب تھا۔آموں کی فصل
میں ان کے دوست دوردور سے ان کے لیے عمدہ عمدہ آم بھیجتے تھے اور وہ خود
اپنے دوستوں سے تقاضاکرکرکے آم منگواتے تھے۔ایک روزمغل بادشاہ بہادر شاہ
ظفر آموں کے موسم میں چند مصاحبوں کے ساتھ،جن میں مرزا بھی تھے ۔باغ حیات
بخش یامہتاب باغ میں ٹہل رہے تھے،آم کے پیڑ رنگ برنگ کے آموں سے لدرہے
تھے۔یہاں کاآم بادشاہ یاسلاطین یابیگمات کے سواکسی کومیسر نہیں
آسکتاتھا،مرزاباربار آموں کی طرف غور سے دیکھتے تھے،بادشاہ نے پوچھا:مرزااس
طرح غور سے کیادیکھتے ہو؟مرزا صاحب نے ہاتھ باندھ کرعرض کیا:کسی بزرگ نے
کہاہے
برسرِ ہردانہ بنوشتہ عیاں
کایں فلاں ابن فلاں ابن فلاں
اس کودیکھتاہوں کہ کسی دانے پر میرااور میرے باپ داداکانام بھی لکھاہے
یانہیں۔بادشاہ مسکرائے اور اسی روز ایک ٹوکری عمدہ عمدہ آموں کی
مرزاکوبھجوائی۔آموں کی متعلق یہ لطیفہ بھی مرزاصاحب کی شوخی
کابرملااظہارکراتاہے۔ حکیم رضی الدین خاں جو مرزا کے نہایت قریبی دوست تھے
،ان کوآم نہیں بھاتے تھے،اک دن وہ مرزا کے مکان پر برآمدے میں بیٹھے تھے
اور مرزابھی وہیں موجودتھے۔ایک گدھے والااپنے گدھے لیے گلی سے گزرا،آم کے
چھلکے پڑے ہوئے تھے،گدھے نے سونگھ کرچھوڑ دیئے،حکیم صاحب نے کہادیکھیے آم
ایسی چیز ہے جسے گدھابھی نہیں کھاتا،مرزانے کہابے شک گدھاآم نہیں
کھاتا۔مرزاصاحب کی حیات کے ان پہلوؤں سے یہ درس ملاکہ اگر انسان بڑی سی بڑی
مصیبت کاسامناالفاظ وبیان کے حسین استعمال کے ذریعے کرسکتاہے۔ |