استنبول میں سیاسی دھماکا ہوا اور برسر اقتدار جماعت شدید متاثر ہوئی۔
سیاسی گہماگہمی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی۔ ہوا یوں کہ ہمارے برادر مسلم
ملک ترکی کی حکم راں جماعت کے آٹھ ہزار اراکین نے اجتماعی استعفیٰ دے دیا۔
وجہ یہ تھی کہ ان اراکین کو اپنی جماعت کے حکم رانوں کی داخلی اور خارجی
پالیسیوں پر اعتراض تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں اور عہدے داروں نے
اپنے استعفے ایسے وقت میں دیے جب ان کی جماعت نہ صرف پورے استحکام کے ساتھ
ملک میں برسراقتدار ہے، بل کہ اس نے ترکی میں ہونے والے حالیہ بلدیاتی
انتخابات میں بھی زبردست کام یابی حاصل کی ہے۔
ہونے والا واقعہ رونما ہوچکا۔ میں محو حیرت اس بات پر ہوں کہ حکومت میں
ہوتے ہوئے بھی اراکین نے اصولوں پر سودا نہ کیا اور اصولی موقف اختیار کرتے
ہوئے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ بطور پاکستانی میرے لیے یہ ایک اچھنبے
کی بات ہے، کیوں کہ میں نے جو ماحول پاکستان کی سیاست کا دیکھا ہے، اس میں
ایسے واقعات کے رونما ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری سیاست میں
اختلاف کبھی اصولوں کی بنیاد پر نہیں ہوتا، بلکہ یہاں ذاتی مفادات، مالی
فائدے اور باہمی سودوزیاں کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اصول مرتب کیے
جاتے ہیں۔ اب تو اس مدعے پر یہ بحث بھی نہیں ہوتی کہ ہماری سیاسی جماعتیں،
جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں، جمہوریت کی چیمپیئن بنتی اور اس کے
لیے قربانی کے دعوے کرتی ہیں، در حقیقت ان کے اندر اوپر سے نیچے تک جمہوریت
کہیں نظر نہیں آتی۔
استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر خاص طور پر ہر بڑی جماعت کسی نہ کسی فرد یا
خاندان کی ذاتی ملکیت نظر آتی ہے، جس میں موروثی نظام پوری ڈھٹائی کے ساتھ
رائج ہے، جہاں یہ امر طے شدہ ہے کہ جماعت کی سربراہی فقط جماعت کے قائد کے
خاندان کا کوئی فرد ہی کرے گا، چاہے پارٹی کا کوئی دوسرا راہ نما یا رکن
کتنا ہی جاں نثار، قابل اور مخلص کیوں نہ ہو۔ باپ کے بعد بیٹا، بیٹی، پوتا،
پوتی، نواسا، نواسی اور بہو یا داماد ہے جماعت کی قیادت کے اہل قرار پاتے
ہیں۔
یعنی ہمارے دیس میں سیاسی قیادت بھی کسی جائیداد کی طرح بہ طور ورثہ دی
جاتی ہے، جس کا معیار خونی یا قریب ترین رشتہ قرار پاتا ہے، صلاحیت نہیں۔
دیکھیے اور غور کیجیے! سیاسی جماعتوں کے جو نام نہاد پارٹی الیکشن کیے جاتے
ہیں ان کے نتائج کیا ہوتے ہیں؟ وہاں پارٹی قیادت کے من پسند اور خوشامدی
اور راہ نماؤں کے باپ، بیٹا، بہن، بھائی ہی ’’کام یاب‘‘ قرار پاتے ہیں۔ اسی
طرح جب عام انتخابات یا ضمنی الیکشن کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ
آتا ہے تو قربانیوں، صلاحیت اور دیرینہ وابستگی پر راہ نماؤں کے رشتوں کو
ترجیح دی جاتی ہے۔ یعنی کہ ’’گدی فکس‘‘ کے اصول پر پارٹی قائم ہے۔
پارٹی کی بنیاد جس منشور پر رکھی گئی ہے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ چاہے
پارٹی اس سے انحراف کر جائے یا قیادت الٹی قلابازی کھالے، پارٹی کے عہدے
داروں اور کارکنوں میں سے کوئی اف تک نہیں کرتا۔ بہ طور حکم راں جماعت کوئی
سیاسی پارٹی اپنے منشور کے خلاف یا عوام دشمنی پر مبنی پالیسی اختیار کرلے،
پارٹی کے اندر سے کئی آواز اس کی مخالفت میں نہیں اٹھتی، بل کہ اس کے
چھوٹوں بڑوں میں سے ہر ایک اپنی اپنی اہلیت کے مطابق پارٹی قیادت کے طرز
عمل کا دفاع پورے جوش وخروش کے ساتھ کرتا ہے، کیوں کہ سب مزے میں ہیں،
اجارہ داری قائم ہے، مقام مستقل ہے، اجی توبہ کیجیے کون پارٹی کو چھوڑے گا،
جیسی بھی ہے آخر ’’ہماری‘‘ پارٹی ہے جیسا بھی ہے آخر ’’ہمارا‘‘ لیڈر ہے۔
اصول ضابطے کون دیکھتا ہے بس گدی اہم ہے۔
یہاں معاملہ صرف مفاد پرستی کا نہیں۔ اصولوں اور نظریات کے بجائے افراد اور
گروہوں سے غیرمشروط وابستگی ہمارے لوگوں کی اجتماعی نفسیات بن گئی ہے۔ ہم
پارٹی کی وفاداری کو ملک سے وفاداری کے مقابلے میں زیادہ اہم گردانتے ہیں۔
کبھی بادشاہ ہوتا تھا اور سارے درباری اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، انکار
کر بھی کون سکتا تھا جو خوشامدی ہوتا اسے عہدہ اور انعام و اکرام سے نوازا
جاتا اور جو بادشاہ کے فیصلے پر آواز بلند کرتا اس کا ٹھکانا زنداں ہوتا یا
تلوار اس کی اٹھے سر کو تن سے جدا کردیتی۔ بس کچھ ایسا ہی ہے۔ بادشاہ گئے
تو ہم نے غلامی کی صدیوں پرانی عادت کے تحت اپنے سر جاگیرداروں، سرداروں
اور پھر لیڈروں کے سامنے جھکا دیے۔ بادشاہ اور جاگیردار کی غلامی تو عموماً
حالات کے جبر کے تحت کی جاتی تھی، مگر لیڈروں کو خوشی خوشی غلامی کرنے والی
رعایا اور ہر حکم مان لینے کو تیار مزارع میسر ہیں۔
یہ سیاسی پارٹی سے وفاداری کم اور پیری مریدی کے تماشے زیادہ لگتے ہیں۔
سیاسی لیڈر پیر اور سارے کارکن اس کے مرید، آواز احتجاج کون بلند کرے۔
البتہ کچھ موقع آتے ہیں جب یکایک کسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد کا ضمیر
جاگ اٹھتا ہے اور وہ اختلاف سے بھی آگے بڑھ کر بغاوت پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔
جیسے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کی آمد ہو یا صدارتی انتخابات مرحلہ،
ایسے مواقع پر منتخب ایوانوں میں بیٹھے مریدوں کی منڈی لگ جاتی ہے اور اس
منڈی میں وفاداریاں بکتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پارٹی پر برا وقت آتے ہی دور اقتدار میں ساتھ رہنے
والے جو وفا کی علامت بنے رہتے ہیں، جھٹ سے دوسری جماعت کے ہوجاتے ہیں۔
لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے جب وزارتیں، عہدے، مراعات دان ہوتے ہیں تو کوئی
حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، چاہے جو اصول مرتب کیے جائیں چاہے
جیسی پالیسی تشکیل دی جائے، لیکن گدی اہم ہوتی ہے۔
اس کے برعکس جب ہم ترکی کے سیاسی کارکنوں کا شعور دیکھتے ہیں تو یہ بات
سمجھ آتی ہے کہ وہاں جمہوریت کیوں مستحکم ہے، وہاں حکم راں ہمارے اہل
اقتدار کے مقابلے میں زیادہ دیانت دار کیوں ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں سیاسی
کارکن بھی شعور کی یہی سطح پالیں اور افراد کے بجائے نظریے اور جماعت سے
وابستگی پر یقین رکھیں، تو ہماری سیاسی قائدین کے رویے بھی تبدیل ہوجائیں
گے۔ |