صدارتی انتخاب:صرف شمالی افغانستان میں گہما گہمی رہی

ہفتے کے روز افغانستان بھر میں صدارتی انتخاب ہوا۔ صدراتی انتخاب کے لیے 11امیدواروں نے کاعذات نامزدگی جمع کرائے تھے، مگر دو امیدواروں نے صدارتی امیدوار زلمے رسول کی حمایت کر دی ، جس کے بعد آٹھ امیدوار انتخاب میں مدِمقابل رہے، جن میںعبد اللہ عبد اللہ، اشرف غنی احمد زئی، زلمے رسول، محمد داؤد سلطان زوی، قطب الدین حلال، گل آغا شیر زئی، عبدالرب رسول سیاف، ہدایت امین ارسلہ تھے۔ افغان الیکشن کمیشن کے سربراہ احمد یوسف نورستانی کا دعویٰ ہے کہ ٹرن آﺅٹ 50 فیصد سے زیادہ تھا، کیونکہ تقریباً 70 لاکھ افراد نے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ مغربی میڈیا کے مطابق ہفتے کے روز افغانستان میں ہونے والا صدارتی انتخاب کامیاب رہا ہے، اس کے ساتھ مغربی میڈیا پر ووٹنگ کے لیے طویل قطاریں بھی دکھائی جارہی ہیں، جن میں افغان باشندے اپنے نئے صدر کو منتخب کرنے کے لیے اپن حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں اورشمالی افغانستان اور قابل میں ووٹنگ کے لیے بنائی گئی ان قطاروں کی تصاویر دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ افغان عوام نے طالبان کو مسترد کردیا ہے، جو انتہائی خوف کے عالم میں بھی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ افغانستان میں اس انتخاب سے جمہوریت کامیاب ہوگئی ہے۔ حامد کرزئی نے صدارتی انتخاب کے انعقاد کو ایک کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ افغان عوام نے جمہوریت کے لیے حمایت ظاہر کر دی ہے۔ وائٹ ہاوس سے جاری بیان کے مطابق امریکی صدر براک اوباما نے کہا ”ہم انتخاب کے لیے ٹرن آوٹ پر افغان عوام، سیکورٹی فورسز اور الیکشن حکام کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ انتخاب افغانستان کے جمہوری مستقبل کے تحفظ اور بین الاقوامی حمایت جاری رکھنے کے لیے ضروری تھے۔“ برطانیہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے ایک بیان میں کہا یہ افغان عوام کی ایک عظیم کامیابی ہے کہ تشدد کے خطرے کے باوجود بچے بوڑھے، جوان، مرو اور خواتین اتنی بڑی تعداد میں نکلے اور ملک کے مستقبل کے لیے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ نیٹو کے فوجی اتحاد آنیرس فو راس موسن نے افغانستان کے انتخاب کو تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں لاکھوں افغان مرد و خواتین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، کے انہوں نے اس قدر پرجوش انداز میں اتنا بڑا ٹرن آوٹ دیا۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والے صدارتی انتخاب کو کامیاب قرار دینا اور ملک میں طالبان کی شکست قرار دینا کسی طور بھی درست نہیں ہے، مغربی میڈیا افغان الیکشن میں آدھا سچ بول رہا ہے،کیونکہ افغانستان کے تمام علاقوں میں لوگوں نے یوں بڑھ چڑھ کر حصہ نہیں لیا جس طرح تصاویر میں دکھایا جارہا ہے،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے بیان کردہ ٹرن آﺅٹ پورے ملک کا نہیں ہے، بلکہ صرف شمالی افغانستان یا قابل کا ہے اور جنوبی افغانستان میں ٹرن آﺅٹ انتہائی کم رہا ہے، اگرچہ شمالی افغانستان کے بعض حصوں میں لوگوں نے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے، لیکن جنوبی افغانستان میں اکثریت نے طالبان کا ساتھ دیتے ہوئے یا ان کی دھمکیوں سے ڈرتے ہوئے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ افغانستان کی آبادی اندازاً 28 ملین ہے، جس میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 13.5 ملین تھی، جو کہ ایک کروڑ35 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ملک کے کل 398 اضلاع میں سے پانچ اضلاع میں تمام انتخابی مراکز سلامتی کی وجوہات کی بنا پر بند رہے۔ افغانستان بھر میں 21 ہزار سے زاید پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔211 پولنگ اسٹیشنز کو بند کرنا پڑا، مجموعی طور پر سیکورٹی خدشات کی وجہ سے 959 پولنگ اسٹیشنز پر ووٹ نہیں ڈالے جاسکے۔ بعض اطلاعات کے مطابق ملک بھر میں 10فیصدپولنگ اسٹیشن بند رہے۔ ووٹنگ کا وقت صبح 7 بجے شروع ہو کر سہ پہر 5 بجے تک تھا، لیکن طالبان کے حملوں کے خوف سے دن کے شروع حصے میں ٹرن آﺅٹ انتہائی کم رہا، جس کی وجہ سے ووٹنگ کے لیے ایک گھنٹہ مزید آگے بڑھانا پڑا۔ واضح رہے کہ ہفتے کے روز انتہائی خوف و ہراس کے عالم میں افغانستان میں صدارتی انتخاب کا انعقاد ہواتھا۔ انتخاب کے لیے ملک بھر میں سیکورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، پولیس، آرمی اور خفیہ اداروں کے تقریباً 4لاکھ اہلکار مختلف مقامات پر تعینات تھے، تین ہزار گدھوں کو سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کیا گیا۔ ملک بھر میں موبائل سروس معطل رکھی گئی، جب کہ کابل میں ٹریفک کا داخلہ بند رہا۔ پاکستان نے افغانستان میں صدارتی انتخابات کے پیش نظر ہفتہ کو اپنی سرحد ہر طرح کی آمد و رفت کے لیے بند رکھی جبکہ فضائی نگرانی بھی کی گئی۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق پاک افغان سرحد پر تمام ”کراسنگ پوائنٹس“ جمعہ کو ہی بند کر دیے گئے تھے۔ سرحد پر 20 مارچ سے ہی اضافی دستے تعینات کر دیے گئے تھے اور اس کا مقصد افغانستان میں پرامن انتخابات کو یقینی بنانے کے لیے افغان حکام کے اقدامات میں معاونت کرنا تھا۔

افغانستان میں الیکشن سے قبل طالبان نے دھمکی دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ووٹ ڈالنے والوں کو حملوں کا نشانہ بنایا جائے گا،اسی دھمکی کے پیش نظرافغانستان میں سینئر امریکی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل مارک ملی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں الیکشن کے دوران حیران کن اور خطرناک حملے کرسکتے ہیں۔ طالبان کا اولین مقصد یہ ہے کہ نیٹو افواج کو خوف زدہ کیا جائے اور پورے افغانستان میں دہشت زدہ ماحول پیدا کیا جائے،لیکن اس کے باوجود افغانستان میں طالبان کی جانب سے الیکشن کے دوران اکا دکا ہی حملے کیے گئے۔ یہ ایک اہم سوال ہے کہ الیکشن سے قبل طالبان کی جانب سے دھمکی دیے جانے کے باوجود حملے نہیں کیے گئے،اس کے جواب میں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی جانب سے ووٹروں کو نشانہ نہ بنانے کا مطلب یہ نہیں کہ افغانستان میں طالبان بڑی قوت میں نہیں ہیں۔ بلکہ طالبان افغانستان کی ایک بڑی قوت ہیں، ان کے ساتھ مصالحت کے بغیر افغانستان میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جو بھی نئی حکومت سامنے آئے، اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج طالبان ہی ہوں گے، اس لیے انتخابی عمل کی کامیابی کے زعم میں مبتلا ہوکر طالبان کو نظرانداز کرنے یا کچلنے کی کوشش انتہائی نقصان دہ ہوگی۔طالبان نے حکمت عملی کے تحت افغان انتخابات میں حملے نہیں کیے، ورنہ انہوں نے افغان انتخابات سے قبل ملک بھر میں 1088حملے کیے ہیں، جن میں سیکڑوں سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے، حالیہ دنوں میں بھی انہوں نے کابل اور دوسرے انتہائی اہم اور حساس مقامات بڑے بڑے حملے کیے ہیں، جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ طالبان حملوں کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، اگر وہ انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن اور دوسری اہم جگہوں پر حملے کرسکتے ہیں تو عام پولنگ اسٹیشنوں پر ان کے لیے حملے کرنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔اب اگر انہوں نے حملے نہیں کیے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ طالبان خود ہی انتخابات کو سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے تھے،طالبان ان انتخابات کو اس لیے بھی سبوتاژ نہیں کرنا چاہتے تھے تا کہ امریکی نیٹو افواج کو اس جنگ زدہ ملک میں مزید قیام کا بہانہ ہاتھ نہ آسکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان کی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی دھمکیوں کے برعکس عمل اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان اس تاثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بیرونی افواج کے خلاف سینہ سپر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عوام کے بھی خلاف ہیں اور عوام پر حملے کرنے ان کی پالیسی ہی نہیں ہے، اگر عوام پر حملے کرتے ہیں تو اس سے عوام کے اندر طالبان کا امیج کچھ اچھا نہ بنتا،اس لیے انہوں نے عوام کو بچانے کے لیے اور اپنی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے الیکشن پر حملے نہیں کیے۔الیکشن کے بعد طالبان کی جانب سے جاری ہونے والے بیان سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام کو اپنے ساتھ ملانا چاہتے ہیں،طالبان رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ وہ جمہوری نظام کو تسلیم نہیں کرتے، افغانستان کو طاقت کے زور پر آزاد کروا کر اسلامی نظام نافذ کریں گے۔ جن لوگوں نے انتخابی جلسوں میں شرکت کی وہ سیاسی امور کا ادراک نہیں رکھتے اور شہروں میں دشمن کی چھتریوں کے تلے زندگی گزار رہے ہیں۔ غیر ملکی فوجوں کی موجودگی میں انتخابی عمل محض ڈرامہ ہے۔ لوگوں کی جلسوں میں شرکت کا یہ مطلب نہیں کہ طالبان، جنہوں نے گزشتہ تیرہ برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی قوت کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست سے دوچار کیا، ختم ہو گئے۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی نے طالبان کو اپنے عمل سے یقین دلایاتھا کہ وہ ان کے خلاف نہیں ہیں اور انہیں مستقبل کی سیاسی قیادت کا حصہ بنانے پر بھی تیار ہیں۔ افغان صدر نے کچھ ایسے پیغامات بھی طالبان تک پہنچائے جن سے طالبان کو تسلی ہو گئی کہ ان کی جگہ جو بھی کابل میں اقتدار سنبھالے گا ان کی پالیسیوں سے انحراف نہیں کرے گا، خاص طور پر امریکا کے فوجی انخلاءکے بعد چند ہزار فوج وہاں رکھنے کے معاہدے پر دستخط نہیں کرے گا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 702179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.