جماعت اسلامی اور چند مغالطے

جماعتِ اسلامی کے امیر جماعت کے حالیہ انتخابات کے بعد ذرائع ابلاغ اس پر اپنے اپنے انداز میں تبصرے کررہے ہیں۔ ان سب تبصروں کا (خواہ وہ تنقیدی ہوں یا توصیفی) جائزہ لیا جائے تو ایک قدر مشترک نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ تمام ہی لکھنے والے جماعت اسلامی سے متعلق بنیادی معلومات نہیں رکھتے اور نہ ہی جماعت اسلامی کے ارکان کے مزاج آشنا ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس حوالے سے اخبارات کی شہ شرخیا ں کچھ اور ہوتیں۔

روزنامہ ایکسپریس نے سرخی جمائی ’’ منور حسن کو شکست، خیبر پختونخوا کے سینئر وزیر سراج الحق جماعت اسلامی کے نئے امیر منتخب‘‘ جبکہ ذیلی سرخی میں ایک جملہ یہ بھی تھا کہ ’’ لیاقت بلوچ بھی امیدوار تھے‘‘ روزنامہ امت کی سرخی کچھ اس طرح تھی ’’جماعتِ اسلامی میں اپ سیٹ، منور حسن کی جگہ سراج الحق امیر منتخب ‘‘ ذیلی سرخی ملاحظہ کیجیے ’’ منور حسن کا جارحانہ مزاج، غیر محتاط بیانات فیصلے کا سبب بنے ‘‘روزنامہ قومی اخبار نے لکھا کہ ’’جماعت اسلامی کی تاریخ میں پہلی بار موجودہ امیر کو شکست سے دوچار ہونا پڑا، سراج الحق جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب، ان کے مد مقابل منور حسن اور لیاقت بلوچ شامل تھے‘‘یہ چند قومی اخبارات کی خبروں کی سرخیاں ہم نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ کالم نویسوں اور مضمون نگاروں نے بھی اس موضوع پر اپنے اپنے انداز سے طبع آزمائی کی ہے۔

پہلے ہم اخباروں کی سرخیوں کی بات کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جماعت اسلامی کے کسی بھی سطح کے امیر کے انتخاب میں کوئی امیدوار نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی فرد اپنے آپ کو امارت کے لیے پیش کرتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی لابنگ یا گروپنگ ہوتی ہے۔یہ بات واضح رہے کہ جماعت اسلامی میں صرف مرکزی امیر نہیں بلکہ حلقہ جات کی سطح تک ناظم یا امیر کو مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ منتخب کیا جاتا ہے۔کسی بھی سطح کے امیر کے انتخاب کے لیے پہلے ایک ناظم انتخاب مقرر کیا جاتا ہے جو کہ اس تمام عمل کی نگرانی کرتا ہے اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے، ارکان جماعت کے بیلٹ ان کے مکمل نام اور پتے کے ساتھ ان تک پہنچائے جاتے ہیں ۔ مرکزی امیر کے انتخاب کے لیے اگرچہ کوئی امیدوار نہیں ہوتا اور ارکان اپنی آزاد مرضی سے اپنی رائے استعمال کرتے ہیں تاہم ناظم انتخاب ارکان کی رہنمائی کے لیے تین یا چار ارکان کے ناموں کوہائی لائٹ کرتے ہیں ، یہاں یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ ارکان کے نام ان کی مرضی سے ہائی لائٹ نہیں کیے جاتے اور ارکان صرف ان ناموں کو ہی رائے دینے کے پابند نہیں ہوتے۔

جس فرد کو کسی بھی سطح کے منصب یا امیر کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے تواس کی حالت دیدنی ہوتی ہے، احساسِ ذمہ داری سے اس کے کاندھے جھکے ہوتے ہیں اور آنکھیں پُر نم ہوتی ہیں۔ ان آنکھوں نے یہ مناظر بھی دیکھے ہیں کہ ادھر کسی کی امارات یا نظامت کا اعلان ہوتا ہے اور وہ غش کھا کر گرپڑا۔ جہاں امارت کو بوجھ سمجھا جاتا ہو وہاں فتح اور شکست کا کیا سوال؟ وہاں تو جو ناکام ہوجائے وہی خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے ، ہاں البتہ دیگر سیاسی پارٹیوں میں منصب نہیں ہوتے بلکہ عہدے ہوتے ہیں اور ان عہدوں کے ساتھ جڑے اختیارات اور آسائیشں ہوتی ہیں اس لیے وہاں ہر فرد اپنا نام خود تجویز کرنے اور اپنے آپ کو پارٹی کا صدر، جنرل سیکرٹری بلکہ زون اور سیکٹر تک کی صدارت کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتا ہے اور انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ذرائع ابلاغ جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے اس اہم ترین فرق کو محسوس نہیں کرپائے اور جماعت اسلامی کو بھی اسی صف میں شامل کرلیا اور فتح و شکست کی سرخیاں لگا بیٹھے۔

میں اس کو لاعلمی تو ہرگز نہیں سمجھوں گا کیوں کہ ان سارے اخبارات کے مدیران اعلیٰ ترین صحافی اور اپنے شعبے کے ماہر ترین لوگوں میں سے ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان حضرات کی صحافتی بددیانتی اور جماعت اسلامی کو تقسیم کرنے اور لوگوں میں سید منور حسن صاحب کا تاثر خراب کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔یہاں ایک بات کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب سید منور حسن صاحب امیر جماعت بننے کے بعد پہلی بار کراچی تشریف لائے تھے ،اس وقت ان کے استقبال کے لیے ہزاروں کارکنان کراچی ائر پورٹ پہنچ گئے ، جب منور صاحب ائر پورٹ سے باہر تشریف لارہے تھے اس دوران ہجوم کے باعث ایک نجی چینل کے کیمرہ مین کو دھکا لگ گیا، یہ ایک اتفاقی بات تھی اور کسی نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تھا، موقع پر موجود ذمہ داران نے بھی اس کیمرہ مین سے معذرت کی لیکن منور حسن صاحب سے پرخاش رکھنے والے ذرائع ابلاغ نے اس موقع پر انتہائی افسوس ناک رویہ اختیار کیا اور ان کے ایک ہفتے کے دورۂ کراچی کا مکمل بائیکاٹ کیا اور ان کی کسی تقریب کی نہ تو خبر لگائی گئی اور نہ ہی تقریب کو کوریج دی گئی، ذرائع ابلاغ کے یہی نمائندے دیگر سیاسی جماعتوں سے گالیاں اور قتل کی دھمکیاں بھی سن کر خاموش رہتے ہیں لیکن صرف جماعت اسلامی اور منور حسن صاحب سے پُرخاش کی بنا پر تمام ذرائع ابلاغ متحد ہوگئے (کیوں کہ ان کواچھی طرح پتہہیکہ جماعت اسلامی کے کارکنان اخبارات کے مالکان اور مدیران کو فون کرکے یہ نہیں کہتے کہ آپ کے بچے اور بچیاں فلاں اسکول میں پڑھتے ہیں اور آپ فلاں فلاں راستے سے گھر جاتے ہیں اور نہ ہی اخبارات کے دفاتر میں تالے لگا کر چابیاں ساتھ لے جاتے ہیں اور نہ ہی صحافیوں کو لفافوں میں کارتوس رکھ کر پیش کرتے ہیں ) اورذرائع ابلاغ کے نمائندوں کا یہ رویہ ان کے پورے دورِ امارت تک ایسا ہی رہا بلکہ ان کی امارت ختم ہونے پر بھی منفی خبروں کے ذریعے ان کا تاثر خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

اخبارت میں خبریں چھپیں تو کالم نویس بھلا کسی سے پیچھے کیوں رہتے انہوں نے بھی چند اخبارات کی سرخیاں دیکھیں اور اس کے مطابق کالم پر کالم لکھ کر اخبارات کے صفحات سیاہ کرنے شروع کردیئے۔ جماعت اسلامی کے انتخابی عمل کی تعریف سے کالم شروع کیا جاتا اور پھر اپنی خواہشات کو تجزیوں کی صورت میں بیان کرنا شرع کردیا جاتا۔ اکثریت کی تان اسی بات پر ٹوٹتی کہ ارکان جماعت منور حسن صاحب سے مطمئن نہیں تھے اور ان کے فیصلوں اور متنازع بیانات کی وجہ سے ارکان نے انہیں فارغ کردیا ہے۔پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ منور حسن صاحب کے جن بیانات کو متنازع کہا جارہا ہے وہ بیانات دوسروں کی نظر میں تو متنازع ہوسکتے ہیں لیکن جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان کے لیے نہیں ۔جماعتِ اسلامی کے ارکان اور کارکنان نے منور حسن صاحب کے کسی بھی بیان کو نہ غلط کہا ہے، نہ سمجھا اور نہ ہی یہ تاثر درست ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان نے منور حسن صاحب کے ان بیانات کی وجہ سے ان کو منتخب نہیں کیا ہے۔جماعت اسلامی کے ارکان اور کارکنان کل بھی منور حسن صاحب سے محبت کرتے تھے اور آج بھی ان سے محبت کرتے ہیں، رہی منتخب نہ کرنے کی بات تو یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ منور حسن صاحب کئی بار اس بات کا اظہار کرچکے تھے کہ ان کی عمر اور صحت انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکیں ، اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب منور حسن صاحب امیر منتخب ہوئے تواس وقت بھی انہوں نے امارت کا حلف اٹھانے سے معذرت کرلی تھی لیکن محترم قاضی حسین احمدؒ نے انہیں ہمت دلائی اور اس طرح انہوں نے امارت کا حلف اٹھایا تھا۔

ارکان جماعت کے پیش نظر یہ ساری باتیں تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ سراج الحق صاحب کی سادگی، تقویٰ، عوام میں ان کی مقبولیت اور سیاست میں ان کا فعال کردار بھی سامنے تھاجبکہ وہ نسبتاً کم عمر بھی ہیں۔سراج الحق صاحب کو امیر منتخب کرنے کی یہی وجوہات ہیں، اس کے علاوہ ذرائع ابلاغ میں جماعتِ اسلامی کے حالیہ انتخابات منور حسن صاحب اور جماعت اسلامی کے حوالے سے جو بھی باتیں پھیلائی جارہی ہیں وہ محض لوگوں کی قیاس آرائیاں اور ا ن کی خواہشات ہیں جن کو کالموں اور مضامین کی شکل میں ظاہر کردیتے ہیں۔ایسے حضرات کی خدمت میں ادب کے ساتھ عرض ہے کہ جماعت اسلامی کے بارے میں منفی باتیں پھیلانے اور منورحسن صاحب کی شخصیت کو متنازع بنانے سے گریز کریں۔
 
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520745 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More