پاک طالبان مذاکرات اک نئے موڑ پر

ابھی تک طالبان اور پاکستان کی قاٗم کردہ مذاکراتی کمیٹیاں باہمی اعتماد کی فضا کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ اور ابتدائی سطح کے’’ بھروسہ اقدامات ‘‘ کے لیے نمائندوں کے درمیان بات چیت کے دور چل رہے ہیں۔پاکستان کی جانب سے کچھ قیدی رہا بھی کر دئیے گے ہیں ۔لیکن تا حال طالبان کی جانب سے ابھی تک کسی سول یا فوجی قیدی کی رہا کا مژدہ نہیں سنایا گیا……حالانکہ برابری کی سطح کے مذاکرات میں برابر کے اقدامات اٹھانے کا اہتمام ضروری ہوتا ہے۔اگر ایک فریق کے مطالبات تسلیم کیے جاتے رہیں اور دوسرا فریق سینے پر ’’ نو گنجائش‘‘ کی نیم پلیٹ سجائے خود مطالبے پر مطالبے کرتا جائے تو پھر اہل عقل دانش کے لیے غور و فکر کی دعوت ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں طالبان اور پاکستان کے مابین ہونے والے مذاکراتی عمل کا مخالف ہوں۔ ایسا قطعا نہیں ہے ۔یقیننا ایسا سوچنے اور سمجھنے والے دوستوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔بھلا میں کیونکر مذاکراتی عمل کا مخالفت کروں گا؟ میں کیوں وطن عزیز میں قیام امن کے لیے شروع کیے جانے والے عمل کا مخالف ہوں گا؟میرے بارے میں ایسی رائے اور خیالات رکھنے والے دوستوں کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ’’ میں چاقو اور چھری کی ایجاد کا مخالف نہیں ہوں ،میں تو ان کے بے جا استعمال کا مخالف ہوں۔ چاقو چھری ایجاد کرنے والے کا مقصد ان سے سبزیاں اور پھل فروٹ کاٹنا تھا نہ کہ انسانوں کو مارنا مطلوب و مقصود تھا۔اسی طرح میں آتشی اسلحہ رکھنے کا حامی اس حد تک ہوں کہ اس سے اپنی جان و مال کی حفاظت کی جائے نہ کہ اﷲ کی اشرف المخلوقات کو کیڑوں اور مکوڑوں کی طرح مارنے کے لیے اسکے لائینسس تھوک کے بھاو سے جاری کر دئیے جائیں۔

میں اپنے ایسے مہربان دوستوں سے یہ بھی کہنا چاہوں گا کہمیں مذاکراتی عمل کا مخالف نہیں ہوں بلکہ میں تو انکا زبردست حامی ہوں کیونکہ میں بھی روز روز کے دہماکوں اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے تنگ آ گیا ہوں ……میں بھی اپنے وطن عزیز کو پھر سے امن کا گہوارہ دیکھنا چاہتا ہوں۔میں بھی چاہتا ہوں کہ جب میں صبح گھر سے باہر نکلوں تو میرے دل و دماغ پر یہ خیال نہ چھایا رہا کہ ’’
گھر سے نکلا تو میں بے موت مارا جاوں گا
لاوارثوں کی طرح میں لحد میں اتارا جاوں گا

پچھلے چند روز سے ان ’’پاک طالبان مذاکرات‘‘ کے حوالے سے جو خبریں شائع اور نشر ہو رہی ہیں۔ان سے میری تشویش نہ صرف اور بڑھ گئی ہے۔ بلکہ ان سے میرے خدشات کو مذید تقویت پہنچی ہے۔اب ذرا ان خبروں کو ملاحظہ کیجیے ۔پہلی خبر یہ ہے ۔جو روزنامہ ایکسپریس لاہور میں شائع ہوئی ہے جواس طرح ہے’’ پاکستان نے طالبان کے 16قیدی رہا کر دئیے ‘‘ اب دوسری خبر بھی پڑھ لیں جو 07/04/2014 کے روزنامہ ایکسپریس ہی میں شائع ہوئی ہے’’ قیدیوں کا تبادلہ جلد شروع ہو جائیگا، قیدیوں کی فہرست فراہم کردی گئی ہے،دو روز میں براہ راست مذاکرات کا دور ہوگا۔ پروفیسر ابراہیم ‘‘

اب خدا کے واسطے مجھے بتایا جائے کہ ان خبروں کے مطالعہ کے بعد سب سے پہلے ذہن میں کیا کیا سوالات جنم لیتے ہیں؟میرے ذہن ناپختہ میں تو یہی سوال ابھر رہا ہے کہ یہ مذاکرات حکومت پاکستان اور اس کے ہڑتالی اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان نہیں ہورہے ۔ بلکہ یہ تاثر قائم کیا جا رہا ہے کہ ’’ایک ریاست دوسری ریاست سے مذاکرات کر رہی ہے‘‘جیسے 1971 کی جنگ کے بعد بھارت اور پاکستان کے وزرا ئے اعظم کے درمیان مذاکرات ہوئے اور شملہ معاہدہ طے پایا اور پھر اسکے نتیجے میں جنگی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی۔

طالبان نے اشارہ دیا ہے کہ سابق وزیر اعطم سید یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر سلمان تاثیر کے فرزندوں اور پروفیسر اجمل کو مشروط رہا کیا جا سکتا ہے۔اور انکے بدلے پاکستان کو ایک ہزار طالبان کے جنگی قیدی رہا کرنے ہوں گے۔ان ہزار قیدیوں کی فہرست دوتین روز میں فراہم کردی جائیگی۔جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے پروفیسر طالبان قیادت کے بہت ہی قابل اعتماد رفیق کار ہیں۔انکا کہنا ہے کہ شہباز تاثیر، علی حیدر گیلانی اور پروفیسر اجمل کی رہا ایجنڈے میں شامل ہے۔اب ذرا طالبان کے ’’مائی باپ‘‘ مولانا سمیع الحق کی باتیں بھی سن لیں۔وہ فرماتے ہیں کہ ’’جنگی قیدیوں کے معاملات سب سے آخر میں آئے ہیں اور حکومت غیر عسکری طالبان کو رہا کرنے پر غور کر رہی ہے۔‘‘کیوں دوستوں آیا ناں مزہ

حکومت پاکستان تو خیر سگالی کے لیے اقدامات کر رہی ہے لیکن فریق ثانی کی جانب سے’’ مسلسل خاموشی ‘‘ ہے ۔بلکہ نئے نئے مطالاب کی لمبی فہرست سامنے آ رہی ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت طالبان کے قیدی رہا کر رہی ہے اور طالبان کے پاس قیدیوں کی رہائی کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔انہوں نے واضع کیا کہ اگر طالبان نے علی حیدر گیلانی اور شہباز تاثیر کو رہا نہ کیا تو یہ پاکستانی قوم کے ساتھ دھوکہ ہوگا۔اس کے ساتھ ہی سید خورشید شاہ نے حکومت کو خبردار بھی کیا ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرنے سے گریز کرے جن پر بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑے۔

دعا ہے ربالعزت کی بارگاہ میں کہ وہ ہماری خطائیں معاف فرمائے،ہمیں نور ہدایت سے رہنمائی عنایت کرے،ہمارے ملک کو امن و آتشی کا پھر سے گہوارہ بنا دے۔ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں نظر آئیں ماوں کے بیٹے ،بہنوں کے بھائی ،سہاگنوں کے سہاگ، بھائیوں کی بہنیں ،بیٹوں کی مائیں ، ہر صبح گھروں سے جب نکلیں تو انہیں یقین ہو کہ وہ شام کو گھر واپس پہنچیں گے۔ہمارے دلوں میں بسی ہوئی بے یقینی کی فضا کو جڑ سے اکھاڑ پھینک ……اے میرے مولا کہا جاتا ہے کہ یہ پیارا وطن تیرے نام پر حاسل کیا گیا تھا اگر یہ سچ ہے تو پھر تیرا نام لینے کا دعوی کرنے والے اسکی بربادی پر کیوں مصر ہیں؟
 

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161273 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.