آج ہمارے اکثر تعلیمی اداروں میں یہ بات دیکھنے میں آتی
ہے کہ وہاں "ہم نصابی" لیکن درحقیقت غیر تعمیری سرگرمیوں کو خصوصی اہمیت دی
جاتی ہے۔ خصوصاً گرلز کالجز اور نجی تعلیمی اداروں میں ہم و غیر نصابی
پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی ہیں۔
سالانہ تقریبات، مقابلہ حسن، فیشن شوز، ملبوسات کی نمائش، کیٹ واک اور کبھی
ڈانس مقابلوں کے عنوان سے پروگرامز کے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی،
ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے۔ ملک بھر میں پرائمری
سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں "روشن خیالی" کے نام پر جو
وباء پھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور
نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے
کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے
"ٹاپ سٹارز" ابھر رہے ہیں۔
پاکستان میں جگہ جگہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں اور روز بروز ان
میں اضافہ بھی ہو رہا ہے، مگر اخلاقی لحاظ سے معاشرہ پستی کی جانب لڑھک رہا
ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لئے کہ تعلیمی ادارے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں
کررہے۔ آج ہمارے دنیاوی تعلیم کے یہ ادارے جدید تحقیقات و ایجادات کے
بجائے مغربی تہذیب سیکھنے سکھانے کے مستقل اڈے بن چکے ہیں۔ جہاں صنعت اور
ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی طرف محنت اور توجہ کم اور مغربیت سیکھنے کا
ذوق و شوق زیادہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم پر مسلط تعلیمی نظام نے ہمارے
نوجوانوں کی اسلامی سوچ کو زیادہ پروان نہیں چڑھنے دیا، بلکہ نام نہاد ترقی
کی آڑ میں انہیں آزاد اور آوارہ ماحول کی بھینٹ چڑھایا اور ڈھٹائی کے
ساتھ اسے ہماری ثقافت سے نتھی کیا جارہا ہے۔ بدقسمی سے پاکستانی قوم نے اس
ولائتی ماحول کو امارت کے اظہار، تہذیب، فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور
انڈر سٹینڈنگ کا نام دے کر قبول کرلیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز شدت
سے پیدا ہونے والی اس روش کو اگر بدلا نہ گیا تو آنے والا وقت پاکستان کے
تعلیمی اداروں کی تباہی کا پیغام لے کر آئے گا جو ہماری اسلامی ثقافت پر
نہ مٹنے والے دھبے چھوڑ جائے گی۔ |