ایک وقت تھا کہ پاکستانی اپنی فوج سے اپنی اولاد سے بڑھ
کے پیار کیا کرتے تھے۔ایوب خان کے مارشل لاء نے عوام کے دل سے پیار ختم کیا
اور اس کی جگہ دہشت نے لے لی۔اس میں کچھ شک نہیں کہ پاکستان کی بنیاد میں
اگر کچھ اچھا ہے تو وہ ایوب خان کے دور ہی کا مرہون منت ہے۔ضیاء الحق کے
مارشل لاء نے بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے پاکستان کے عوام کو پرو اور اینٹی
بھٹوکے دو خانوں میں تقسیم کر دیا ۔اس کے ساتھ ہی فوج سے مزاحمت کا مزاج
بھی پیدا ہوا۔ایوب خان کے دور کی دہشت اپنے اختتام کو پہنچی اور لوگوں کو
یقین ہو گیا کہ فوج کے ٹینکوں کے سامنے بھی سینہ تان کے کھڑا ہو سکتا ہے۔اس
کے بعد جنرل مشرف کا دور آیا۔فوج کی حکمرانی کے حوالے سے یہ سب سے برا دور
تھا۔اس دور میں حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے عام فوجیوں کو یونیفارم میں گھر
سے نکلنا مشکل ہو گیا۔ خود فوج کے اندر بد اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ کسی
بھی بڑے فوجی فنگشن میں بریگیڈیئر رینک تک کے افسران کی جامہ تلاشی کی جاتی
تھی۔اس دور میں فوج اور عوام کے درمیان یوں فاصلے پیدا ہوئے کہ ہیرو سمجھے
جانے والے فوجی افسران عوام میں اپنی شناخت چھپانے پہ مجبور ہو گئے۔
زرداری اور نواز شریف کے گٹھ جوڑ نے مشرف کو صدارتی محل اور آرمی چیف کے
عہدہ سے چلتا کیا اور جنرل کیانی نئے آرمی چیف بن گئے۔ جنرل کیانی مشرف کے
دور میں چونکہ انتہائی اہم عہدوں پہ فائز رہے تھے اس لئے انہیں فوج کی بے
وقعتی اور فوج کے خلاف عوامی رد عمل کا پوری طرح احساس تھا۔ انہوں نے آتے
ہی جہاں فوج کے اندر اصلاحات کیں۔جوانوں اور افسروں کا مورال بلند کیا۔
انہیں احساس دلایا کہ وہ دنیا کی بہترین فوج کا حصہ ہیں وہیں انہوں نے بیک
جنبش قلم فوج کے سارے افسروں اور جوانوں کے سول اداروں سے واپس بلا لیا۔
انہوں نے برملا فوج کو سیاست سے الگ کرنے کا اعلان کیا اور اس پہ عمل کر کے
بھی دکھایا۔فوج وہیں پہ استعمال ہوئی جہاں سولین حکومت نے فیصلہ کیا۔
آپریشن راہ نجات کی کامیابی انہی پالیسیوں کی مرہون منت تھی۔اسی پالیسی کا
نتیجہ تھا کہ پیپلز پارٹی کی انتہائی کرپٹ سمجھی جانے والی حکومت نے پانچ
سال پورے کئے۔جنرل کیانی کے ان اقدامات کی وجہ سے نہ صرف فوج کا مورال بلند
ہوا بلکہ عوام اور فوج کے تعلقات میں بھی بہتری آئی۔جنرل کیانی کی انہی
پالیسیوں کی بناء پہ آج دوبارہ عوام اپنی فوج کی محبت کا دم بھرتی ہے۔ جنرل
کیانی کے بعد جنرل راحیل نے نہ صرف ان پالیسیوں کو جاری رکھا بلکہ اپنے آپ
اور فوج کو حکومت اور حکومتی معاملات سے بالکل ہی علیحدہ کر لیا۔یار لوگ تو
یہاں تک کہتے بھی سنے گئے کہ جنرل صاحب تو لاش سامنے دیکھ کے بھی اسے
حکومتی مرضی کے بغیر مرا ہوا نہیں کہتے۔
نون لیگ والے اور عمر اکمل دونوں کا معاملہ ایک جیسا ہے۔ عمر اکمل ایک غریب
باپ کا بیٹا ہے۔اسے اس ملک اور اس کی عوام نے سٹا بنا دیا ہے۔وہ کبھی وارڈن
سے الجھ کے جوتے کھاتا ہے اور کبھی سیکیورٹی گارڈ کے گلے پڑتا ہے۔اسے احساس
رہتا ہے کہ وہ سٹار ہے اور لوگ اس کی وہ عزت نہیں کرتے جس کا وہ مستحق
ہے۔نون لیگ والوں کا بھی تقریباََ یہی حال ہے۔ مرکز اور پنجاب میں ان کی
حکومت ہے لیکن انہیں اتفاق فونڈری کی بھٹیاں نہیں بھولتیں۔ اندر سے وہ ابھی
بھی لوہار ہی ہیں اور انہیں بھی ہر وقت یہی دکھ ستاتا رہتا ہے کہ لوگ ان سے
ڈرتے کیوں نہیں۔نون لیگ نے جنرل مشرف پہ غداری کا مقدمہ قائم کیا۔ بنیادی
طور پہ تو یہ آئین کی شق ہی قابل غور ہے۔چوہدری شجاعت کا یہ مشورہ بہت صائب
تھا کہ آرمی چیف کو غدار کہنے کی بجائے اسے آئین شکن کہا جائے تو یہ بات
زیادہ قرین قیاس ہو گی۔جنرل مشرف نے ایک غیر آئینی کام کیا تھا اسے سزا
ملنا بھی ضروری تھی تا کہ آئیندہ کسی طالع آزما کونظام تلپٹ کرنے کی ہمت نہ
ہو لیکن جنرل مشرف کے مقدمے کی آڑ میں نون غنوں نے فوج کے ساتھ حساب کتاب
چکتا کرنا شروع کر دیا۔مشرف اور اس کے وکلاء نے بھی دانستہ فوج کو ایک فریق
کے طورپہ پیش کیا اور دوسری طرف حکومتی وزراء نے بحیثیت ادارہ فوج کے لتے
لینے شروع کئے۔پہلی بات تو یہ کہ جنرل مشرف کے اقتدار سنبھالتے وقت جتنے
سیاستدان مشرف کی گود میں بیٹھے تھے آج شریفوں کے کندھوں پہ سوار ہیں۔اگر
جنرل مجرم ہے تو اس کے ساتھی کیسے دودھ کے دھلے ہو گئے اور دوسری بات یہ کہ
جنرل مشرف کبھی فوج کے چیف تھے اب نہیں ہیں۔جنرل مشرف کا نام لے کے فوج کو
گالی دینے کی کیا تک بنتی ہے۔ فوجی مرنے کے بعد بھی فوجی ہی رہتا ہے لیکن
فوج ریٹائرڈ فوجیوں کا احترام تو کرتی ہے لیکن اس احترام کے لئے کچھ خاص دن
مخصوص ہوتے ہیں۔
جنرل مشرف کے معاملے میں فوج کے اندر بے چینی کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ہاں
فوج کو جس طرح بحیثیت ادارہ نون لیگی نشانہ بنا رہے ہیں اس پہ ضرور فوج کے
جوانوں اور افسروں کو تشویش ہو گی اور ہونی بھی چاہئیے۔ جنرل راحیل کمانڈوز
کے درمیان موجود تھے جب کسی جوان نے ان سے جنرل مشرف کے بارے میں سوال کیا۔
جنرل کا جواب عین فوجی روایات کے مطابق تھا اور اس کا سیدھے سبھاؤ یہ مطلب
ہے کہ جس طرح فوج ملک کے دوسرے اداروں ،پارلیمنٹ عدلیہ اور انتظامیہ کا
احترام کرتی ہے اسی طرح وہ دوسرے اداروں سے بھی اسی احترام کی توقع کرتی
ہے۔تھوڑے کہے کو زیادہ جانیں اور پاکی دامان کی حکایت کو اتنا نہ بڑھائیں
کہ دامن نچوڑنے پڑیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ فوج دامن نچوڑے تو اکثر دامن گیر
ساتھ ہی نچڑ جاتے ہیں۔ فوج آپ کے ملک کی فوج ہے اسے ہیرو رہنے دیں ولن نہ
بنائیں۔ولن سے نیکی کی توقع تو کوئی بے وقوف فلم بین بھی نہیں کرتا۔ |