بھارت کی بادشاہ گر خواتین سیاست دان

بھارت کے انتخات پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ لیکن بھارت کے سیاست دانوں کی نظریں ان بادشاگر خواتین سیاست دانوں پر ہیں جو کسی بھی لیڈر کو وزیر اعظم بناسکتی ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مسئل بھی عجیب و غریب ہیں۔بھارت کی غربت کا کوئی انت نہیں ہے، اور خواتین مسائل سیلاب کی طرح ہیں۔ انتخابات میں فلمی صنعت، کرکٹ، سیاست اور سٹاک مارکیٹ ،بھائی لوگ سب کے سب مصروف ہیں۔ سات اپریل 2014 سے لوک سبھا کی 543 نشستوں کے انتخابات شروع ہو گئے ہیں جو بارہ مئی تک جاری رہیں گے جن کے بعد اس ملک کی نئی سیاسی قیادت67 سال پرانے عوامی مسائل حل کرنے کے وعدے پورے کرنے کا وعدہ کے ساتھ اقتدار میں آئیگی اور حسب سابق پہلے سے زیادہ مسائل چھوڑ جائے گا۔ہندوستان کی سیاست میں کہا جارہا ہے کہ تین خواتین کو بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ خواتین اماں، دیدی اور بہن جی بھی کہلاتی ہیں۔ سیکولر جمہوریت کی یہ بادشاہ گر یا حکمران ساز خواتین ہیں ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا ۔ جو سابق اداکارہ بھی ہیں۔ یہ اپنے عقیدت مندوں (ضرورت مندوں) کی ماں جی بھی کہلاتی ہیں چھیاسٹھ سالہ اس ماں جی نے اپنے بیٹے کی شادی کے اخراجات کا ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کیا تھا۔جے للیتا کے علاوہ جایا رام، ممتابینرجی اور مایاوتی بھی بادشاہ گروں کی تکون میں شامل بتائی جاتی ہیں۔ وہ اپنی سیاست کی وجہ سے اور اپنی کارکردگی کی بنا پر بھی نہیں اپنی شہرت کے بل بوتے پر ہندوستان کے81کروڑ 45 لاکھ بالغ ووٹروں کی رائے عامہ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ بادشاہوں کی شخصی حکومتوں سے جمہوریت تک کے طویل سفر کے باوصف ہندوستانی سماج ابھی تک شخصی فیصلوں کی حکمرانی اور حکمرانوں کے شخصی فیصلوں کی زد سے باہر نہیں نکلأ۔بھارتی سیاست کا سب سے تیز رفتار گھوڑا بی جے پی کے وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار نریندر مودی ہے۔ جو زبردست تیاریوں اور بے پناہ اخراجات کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں مگر ان کی کامیابی کچھ زیادہ یقینی نہیں کہی جاسکتی۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے کہ ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت نے عام انتخابات میں پچاسی فیصد ووٹ حاصل نہیں کئے۔اب تک اتحادی پارٹیوں نے حکومتیں بنائیں ہیں۔ اس بار بھی کسی سیاسی جماعت کے واضح اکثریت کے آثار نہیں ہیں۔ دراصل مضبوط حکومت سیاست بازوں کی سودہ بازیوں کے حق میں نہیں ہوتی حکومت جتنی کمزور ہوگی سیاسی بلیک میلنگ اسی قدر آسان ہو گی۔ ہندوستان کا جو بھی سیاست دان مستقبل کا وزیراعظم بننے کا خواہش مند ہو گا اسے امریکہ بہادر کی مرضی اور ماں جی جے للیتا، دیدی مایاوتی اور بھین جی ممتا بینر جی کے سیاسی تعاون کی بھی ضرورت ہوگی۔ اخبارات میں اس نوعیت کی خبریں آئی ہیں کہ جے للیتا نے اپنی پارٹی کو ہدایت کی ہے کہ وہ نریندر مودی کے خلاف بیان بازی سے گزیز کرے مگر اس سے مودی صاحب کو یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان کو ماں جی کا سیاسی تعاون حاصل ہو گیا ہے۔ماں جی نے یہ بھی کہا ہے کہ کانگریس کی لوٹ مار ختم ہونی چاہئے لیکن اس سے ان کی یہ مراد بھی نہیں ہوگی کہ بی جے پی کی لوٹ مار شروع ہو جائے۔ تامل ناڈو کی اماں کے بارے میں یہ خبر بھی چھپی تھی کہ پانڈی چرمی کے ایک چھاپے میں ان کی وارڈ روب سے دس ہزار قیمتی ساڑھیاں اور 750 جوتوں کے جوڑے برآمد ہوئے تھے۔ اس نوعیت کی خبروں سے ہندوستان کے سیاسی لیڈروں کی شہرت میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا ہے۔ماں جی اگر اپنی بے پناہ دولت کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں تو اپنے ووٹروں کی بھرپور مالی معاونت اور مدد بھی کرتی ہیں۔ للیتا نے بھی اپنے علاقے میں بہت سارے لیپ ٹاپ تقسیم کئے ہیں ممتا بیز جی کی شہرت ان کی سادہ زندگی اور سادگی پسندی سے تعلق رکھتی ہے۔ مایا وتی چھوٹی جاتیوں کے لوگوں میں سب سے زیادہ مشہور ہیں اور ہندوستان کے مستقبل کی حکومتوں کی سربراہی میں ان کا عمل دخل واضع حد تک ہوگا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان تین بادشاہ اگر خواتین میں سے کوئی ایک خود بھی ہندوستان کی ملکہ بننے کی خواہش کرے مگر بادشاہ گر ہونا بادشاہ ہونے سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔

جے للیتا: جنوبی ہند کی ملکہ۔
جے للیتا آنجہانی فلمی ہیرو ایم ڈی راماچندرن کے ساتھ بہت سی فلموں کا حصہ رہی ہیں اور اسکرین پر ان دونوں کی کیمسٹری نے آج تک لوگوں کو اپنے سحر میں جکڑا ہوا ہے۔ چندرن نے 1972ء میں ایک نئی سیاسی جماعت تشکیل دی تھی اور جے للیتا یہاں بھی ان سے قدم سے قدم ملا کر چلا کرتی تھیں مگر درمیان میں چندرن کو بے رحم موت کا فرشتہ اپنے ساتھ لے اڑا۔

چندرن کی موت پر ہمددری کا عوامی جذبہ اور جے للیتا کی فلمی شہرت، ان کے سیاسی کیرئیر کی مضبوطی کا زینہ بن گئی۔ مضبوطی بھی اس قدر کہ 1991ء سے مسلسل تین مرتبہ۔۔یعنی 15سالوں تک وہ ریاست کی وزیراعلیٰ منتخب ہوتی رہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں ان کی شخصیت کاجادو ابھی تک چھایاہوا ہے حالانکہ ان پر بدعنوانی کے زبردست الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔

اپنی شہرت کو مزید دوام بخشنے کے لئے انہوں نے ’اماں کینٹین‘ کے نام سے ایک عوامی خدمت کی مہم شروع کی ہوئی ہے جس کے تحت ہر ضرورت مند آدمی کو صرف تین روپے میں دوپہر کا کھانا ملتا ہے۔وہ مختلف عوامی ریلیوں میں لوگوں کو لیپ ٹاپ اور سائیکلیں بھی مفت بانٹتی رہی ہیں، جبکہ انہوں نے عوام کو ایسی اور بہت سی اسکیمیں شروع کرنے کا یقین دلایا ہے۔۔اس شرط پر کہ عوام انہیں ووٹ دے اور ان کی جماعت کم از کم 30نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوجائے۔

سنہ 1997ء میں پولیس نے غیر قانونی طور رپر دولت جمع کرنے کے الزام میں ان کے گھر پر چھاپا مارا تھا جس میں پولیس کو نہایت قیمتی 10ہزار ساڑھیاں اور 750جوڑی مہنگے ترین جوتے ملے تھے۔ لیکن، پھر بھی بھارت کی خوش حال ترین اور صنعتی مرکز کا درجہ رکھنے والی ریاست، تامل ناڈو کے بڑے بڑے وزیر ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ پچھلے 30سالوں سے جے للیتا ریاست کی بے تاج بادشاہ۔۔۔نہیں۔۔۔بادشاہ گر بنی ہوئی ہیں۔

ممتا بینرجی
اگر جے للیتا جنوبی ہند کی ملکہ ہیں تو ممتا بینر جی اور ان کی جماعت’ تری نومل کانگریس‘ مغربی بنگال اور اس کے دارالحکومت کولکتہ پر حکمرانی کرتی ہے۔ سنہ 2012ء میں اختلاف کے باعث اپنے 18ارکان کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے فیصلے نے کانگریس کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کو ’پارہ پارہ‘ کردیا تھا۔ اس وقت بھی تری نومل کانگریس مغربی بنگال کی 42نشستوں میں سے تقریباً 30 نشستیں کی توقع کررہی ہے۔

ممتابینر جی کو لوگ ’دی دی‘ یعنی بہن کہتے ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں 16مئی کو آنے والے انتخابی نتائج سنیں کے بعد وہ کدھر کا رخ کریں گی اس کا ابھی سے اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

کولکتہ سے تعلق رکھنے والے ایک تجزیہ نگار سبیا ساچی باسو رے چوہدری کا کہنا ہے ’ممتا بینرجی، جے للیتا کے مقابلے میں اپنے سادہ لائف اسٹائل اور عام آدمی تک باآسانی رسائی کی صلاحیت کے عوض خوب شہرت رکھتی ہیں۔‘

مایاوتی: دلتوں کی رانی
بھارت میں اچھوتوں کو’دلت‘ کہاجاتا ہے اور مایا وتی کو’دلتوں کی رانی‘۔ اس کے علاوہ انہیں عام لوگ ’بہن جی‘ بھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ انہوں نے شیڈولڈ یا پسماندہ دلتوں کو ان کا حق دلانے میں بہت اہم کردار اداکیا ہے۔ اس کے عوض آج بھی لاکھوں لوگ ان پر جان چھڑکتے ہیں۔

مایا وتی کی جماعت کا نام ’بہوجن سماج پارٹی‘ ہے جو موجودہ لوک سبھا (ایوان زیریں) میں 21نشستیں رکھتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے اگلے وزیراعظم کے طور پر نریندر مودی کو منتخب کیا تو یہ بھارت کی تباہی کے مترادف ہوگا۔ ماضی میں انہوں نے بی جے پی کے ساتھ تعاون ختم کرکے اسے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کی وزارت اعلیٰ سے محروم کردیا تھا۔

چنائی اور دہلی جیسے کاسموپولیٹن شہروں سے تعلق رکھنے والے کچھ ماہرین اور اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تینوں خواتین کی جڑیں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ان کی امیج، ان کا جذبہ، ان کا شخصی کرشمہ اور انتظامی مہارت۔۔سب کچھ لوگوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ایسے میں جب وہ ووٹ کی غرض سے کہیں جائیں تو عوام کیلئے ان کا کہا ماننا تو ’بنتا‘ ہی ہیبھارت میں سیاسی جماعتیں خواتین ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن خواتین کا کہنا ہے کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات میں خواتین امیدواروں کی نمائندگی بہت کم ہے۔برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان کی سیاست پر کچھ نامور سیاسی شخصیات رونما ہوئیں جو آج بھی اس علاقے کے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہیں۔ ان میں ایک جانا پہچانا نام اندرا گاندھی کا ہے جو ہندوستان کی ایک نامور خاتون سیاست دان بن کر ابھریں۔ وہ سن 1917 میں پیدا ہوئیں ۔ سیاسی خاندان سے ان کا تعلق تھا اور ان کے والد بھی ہندوؤں کے معروف لیڈر تھے۔ ان کی وجہ شہرت ان کا سیاسی کیریئر ہی تھا۔پنڈت جواہر لعل نہرو کی بیٹی بھی ایک بادشاہ گر تھی۔ وہ الہ آباد میں پیدا ہوئیں۔ سوئزرلینڈ ، سمر ویل کالج آکسفورڈ اور بعد میں وشوا بھارتی شانتی نکتین میں تعلیم حاصل کی۔ گیارہ برس کی عمر میں سیاست میں حصہ لینا شروع کیا۔انگلستان میں قیام کے دوران میں اور بعد از اں ہندوستان واپس آ کر بھی طلبا کی تحریکوں میں سرگرم حصہ لیتی رہیں۔ تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں تیرہ ماہ کے لیے جیل بھیج دی گئیں۔ 1942 میں ایک پارسی نوجوان فیروز گاندھی سے شادی کی۔ اسی زمانے میں ہندوستان چھوڑ دو کی تحریک چلی۔ جس میں حصہ لینے پر وہ اوران کا خاوند قید ہوگئے۔1947 میں آل انڈیا کانگرس ورکنگ کمیٹی کی ممبر منتخب ہوئیں۔ بعد میں کانگرس کے شعبہ خواتین کی صدر، مرکزی انتخابی کمیٹی اور مرکز پارلیمانی بورڈ کی ممبر بنیں۔ فروری 1959 میں انڈین نشنل کانگرس کی صدر چنی گئیں۔ 66۔1964 میں وزیر اطلاعات و نشریات ہوئیں۔ 1966 میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 1967 کے انتخابات میں کانگرس کی فتح کے بعد وزیراعظم بنیں۔ 1971 کے انتخابات کے بعد تیسری مرتبہ وزیراعظم چنی گئیں۔ مارچ 1977 کے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی کانگرس آئی نے جنتا پارٹی سے شکست کھائی۔ وہ خود بھی جنتا امیدوار راج نارائن سے ہار گئیں۔ 1978 میں مہاراشٹر کے ایک حلقے کے ضمنی انتخاب میں لوک سبھا کی رکن چن لی گئیں۔ لیکن دسمبر 1978 میں لوک سبھا نے، دوران حکومت اختیارات کے ناجائز استعمال کے جرم میں ان کی رکنیت منسوخ کر دی گئی۔ اورقید کی سزا دی۔

تقریبا ایک ہفتے بعد رہا کر دی گئیں۔ جنوری 1980 میں لوک سبھا کے عبوری انتخابات میں کانگرس آئی کی جیت ہوئی اور اندراگاندھی نے مرکز میں وزارت بنائی۔ سکھوں کے خلاف انھوں نے فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اور گولڈن ٹمپل پر فوجی حملے کے بعد سکھوں میں ان کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا۔1984 میں دو سکھ محافظوں نے گولی مار ان کو قتل کردیا۔ ان کے بیٹے راجیو گاندھی بعد میں ہندوستان کے وزیراعظم رہے۔ جبکہ ان کی بہو سونیا گاندھی ان دنوں انڈین نیشنل کانگرس کی صدر ہیں۔ سونیا گاندھی نے انتخابی عمل شروع ہوتے ہی مشکلات میں مبتلا رہی۔ ان کی پارٹی میں بغاوت سر اٹھا رہی تھی۔ موقع پرست وفاداریاں تبدیل کر کے پل کے دوسرے کنارے کی طرف جا رہے تھے۔ ایسے وقت میں سونیا کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ناکامی کے تاثر کو کیسے روکا جائے؟ انہوں نے ہمت کی اور اپنے قدم برھائے دہلی کی شاہی مسجد کی طرف۔ امام بخاری کے بند دروازے پر دستک دی ، گلے شکوے ہوئے۔ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس سے بڑھ کر دونوں نے سیکولرازم کے لئے ایسی طاقت کے بڑھتے ہوئے قدم تخت دہلی کی طرف روکنے کی حکمت عملی کا اعلان کیا۔ جو فرقہ پرستی کے الزام کی زد میں ہے دونوں نے تھوڑے وقت میں بڑے بڑے فیصلے کر لئے۔ سونیا گاندھی کو امام بخاری کی حمایت اور مدد ایسے وقت میں میسر آئی ہے جب کانگریس کو ہی نہیں مسلمانوں کو بھی مودی کے قدم روکنے کی ضرورت تھی۔ سونیا نے شاہی مسجد جا کر اپنی انا کی قربانی دی اور امام بخاری جو کانگریس سے سخت ناراض تھے اور 2009کے الیکشن میں سماج وادی پارٹی کو حمایت دے چکے تھے۔ اترپردیش کے فسادات نے امام بخاری کو ملائم سنگھ سے دورکر دیا اور مایا وتی کی طرف لے جا رہے تھے۔ بی جے پی اور مودی کی مقبولیت کی لہر جس کو سیکولر قوتیں مصنوعی مقبولیت قرار دے رہی تھیں۔ بے شک اسے مصنوعی قرار دیا گیا ہو مگر اس نے امریکہ اور یورپ تک کے میڈیا کو اپنے سحر میں لے رکھا ہے۔ سونیا گاندھی نے امام بخاری سے ملاقات کر کے کانگریس کو متوقع شکست سے سنبھالا دیا ہے ورنہ کانگریس کا یہ حال تھا کہ اس کی کشتی ڈوبتی نظر آنے لگی تھی اور وہ تاریخی شکست سے دورچار ہوتی۔ سونیا گاندھی نے اس یقینی شکست کو کافی حد تک روک لیا ہے اس کا فائدہ تو انتخابی نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ البتہ ملاقات سے مسلم ووٹرز نرم ہوتے ہیں سونیا اور امام بخاری کی کوششوں سے سیکولر قوتیں زور پکڑتی اور اتحاد دکھاتی ہیں تو بی جے پی اور ان کے اتحادیوں کے لئے سب اچھا نہیں۔ مودی کی اس سے پہلے اڑان کافی اونچی تھی۔ خاص طور پر امام بخاری نے بھارت کے نمائندہ مسلمانوں کو جامع مسجد میں ان کے ساتھ انتخابی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے اکٹھا کیا۔ جب سونیا اور امام بخاری ملاقات ہوئی تو میڈیا ہی نہیں بلکہ بی جے پی اور اس سے وابستہ جماعتوں میں بھی کھلبلی مچ گئی۔ نریندر مودی کی پریشانی بھی چھپائے نہ چھپ رہی تھی اور یہ پریشانی بلا سبب بھی نہیں تھی۔ کیونکہ نریندرمودی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر مسلمانوں کی طاقت کانگریس کی طرف لڑھک گئی تو پھر اس کے اقتدار میں آنے کے خواب ریت کے گھروندے ثابت ہوں گے۔ بی جے پی کی اتحادی اور بال ٹھاکرے کے لگائے ہوئے پودے شیوسیناکی مایوسی اس حد تک بڑھی ہے کہ اس نے کانگریس پر فرقہ وارانہ جماعت سے اتحاد کا طعنہ ہی نہ دیا بلکہ انہوں نے سونیا گاندھی اور امام بخاری کی ملاقات کو گیدڑ اور بھیڑیا کی ملاقات قرار دید یا۔ سونیا گاندھی کی اس کامیابی، انتخابی حکمت عملی اور سیاست کو مخالف جو بھی نام دیں اصل بات یہ ہے وہ ایک کامیاب سیاست دان کی طرح مخالفین پر حملہ آور ہوئی ہیں اور ایسی حکمت عملی اتنی کامیاب کہ مخالفین کے چھکے چھوٹ گئے ہیں۔لالو پرشاد یادو نے تو امام بخاری کا شکریہ ادا ہی نہیں کیا بلکہ بھارت کے اتحاد کے لئے ان کی کوششوں کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ لالوپرشاد یادو نے بہار میں چھ مسلمان بھی اپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار اتارے ہیں۔ بہار میں لوک سبھا کی 12نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے 17 فی صدووٹ ہیں۔ امام بخاری نے سونیا کی حمایت مسلمانوں کے مستقبل اور مفاد میں کی ہے بھارت دنیا کے ایسے ملکوں میں سے ایک ہے جہاں اقلیتوں کے خلاف سب سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات ہوتے ہیں۔ جن میں مسلم اکثریت کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان کی املاک تباہ کی جاتی ہیں۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ فسادات میں حکومتیں اور انتظامیہ شریک ہوتی رہی ہیں۔ جس کی مثال چند روز پہلے بابری مسجد کی تازہ رپورٹ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نرسیما راؤ ، یوپی کے وزیراعلی کلیان سنگھ، منوہر جوشی، ایڈوانی، اوما بھارتی سب مسجد کی شہادت کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔

انہیں مسجد شہید کرنے کی ٹریننگ دی گئی اس کے ساتھ یہ بھی حقیت ہے کہ سیکولر ازم کی بالادستی اور مسلمانوں کے حقوق کی جنگ آج تک جامعہ مسجد دہلی اور اس کے امام بخاری لڑتے رہے ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد تین سو سال سے رہنمائی کی پہچان ہے۔ مغلیہ عہد میں لال قلعہ جس طرح ہندوستان پر حکومت اور اقتدار اعلیٰ کی علامت تھا۔ وہاں دینی اور سیاسی رہنمائی دہلی کی جامعہ مسجد سے ملتی تھی اور یہ ضرورت ہر عہد کا تقاضا رہی ہے۔ اس مسجد کے اولین امام سید عبدالغفور بخاری کو مغل حکمران شاہ جہان بخارا سے ہندوستان لائے جن کا استقبال خود شاہ جہان نے پیدل چل کر کیا۔ دہلی کی جامع مسجد کی سیاسی طاقت کو متاثر اور کمزور کرنے کی کوشش کو ہر حکمران نے اپنی ضرورت سمجھا مگر وہ کامیاب نہ ہوتے۔رہنمائی کے اس مرکز کو سید عبداﷲ بخاری نے بڑے زوروں سے منوایا۔مسلمانوں کے حقوق کے علمبردار پارلیمنٹ اور وزارتوں میں تو جاتے رہے مگر سیاسی وفاداریوں کی مجبوری تھی کہ ان کی آواز کو بہت بلند اور اونچا کبھی نہ سنا گیا جب حالات اور ظلم حد سے بڑھتا گیا تو امام بخاری مسلمانوں کے مسائل اپنے خطبہ میں سمیٹتے رہے۔ امام بخاری کے اس انداز کو حکمرانوں نے پسند نہیں کیا۔ اتحاد کی سوچ آگے بڑھی مگر حکمران ناراض ہوتے چلے گئے ان کا کردار اس سے بھی آگے بڑھا، سیاسی قائد کے طور پر بھی مانے جانے لگے۔ ان کا طرز فکر عموماً کانگریس کی طرف داری رہا۔ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے خلاف اٹھنے والی آوازوں میں ان کی آواز نمایاں تھی۔ اندرا گاندھی کو اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کا احساس ہوا تو سیدھا سید عبداﷲ بخاری کی پاس پہنچی غلطیوں پر معافی مانگی۔ ان کی زندگی میں ہی (2000 ) احمد بخاری صرف امامت کے منصب پر ہی نہیں بلکہ سیاسی وراثت کا تاج بھی ان کے سر پر رکھا گیا۔ موجودہ امام بخاری کی کوئی سیاسی جماعت نہیں امام صرف الیکشن سے قبل اپیل کرتا ہے۔ نشان منزل دکھاتا ہے۔ یہ بھی راہنمائی فرماتا ہے کہ کس طرح اور کہاں کہاں اتحاد کر کے مسلمانوں کی بڑی تعداد پارلیمنٹ میں بھیجی جا سکتی ہے۔ امام بخاری حمایت کے رخ اور زاویئے ضرورتوں اور سہولتوں کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ سونیا گاندھی سے جو کچھ امام بخاری نے مانگا ہے وہ بھارت کے آئین میں درج ہے۔ مسلمانوں کے مسائل کا حل فرقہ وارنہ فسادات کا خاتمہ سچر رپورٹ پر عمل اور رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی سفارشات کا نفاذ 2014 میں اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو تمام وعدوں کو پورا کرنا۔ اب سے کچھ ہفتوں بعد بننے والی نئی بھارتی حکومت سے متعلق سیاسی پنڈتوں نے فال نکالنا شروع کردی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل تین خواتین’ کنگ میکرز‘ کے ہاتھوں میں جا سکتی ہے۔ یہ ایسی ’بادشاہ گر‘ خواتین ہیں جو علاقائی سطح پر عوام کے دلوں میں بستی ہیں۔ ان میں سے ایک تو اپنے دور کی مشہور فلم اسٹار بھی رہی ہیں۔ آج بھی عوام انہیں بہت عزت و احترام سے ’اماں‘ کہہ کر پکارتی ہے۔یہ کنگ میکرز ہیں۔۔۔ جے للیتا، ممتا بینرجی اور مایا وتی۔۔ان کا کرشمہ سیاست کی آمیزیش کے ساتھ ڈنکے پیٹ رہا ہے۔ مضبوط سیاسی نظریہ رکھنے والے کہتے ہیں یہ تینوں خواتین نئی سرکار بنانے میں اہم ترین رول ادا کریں گی۔نریندر مودی انتخابی دوڑ میں ابھی تک سب سے آگے ہیں۔ لیکن یہ امید کسی کو بھی نہیں کہ ان کی پارٹی، علاقائی جماعتوں کی حمایت کے بغیر مطلوبہ اکثریت حاصل کرسکے گی۔ پچھلے 30سالوں سے کوئی بھی ایک جماعت 50فیصد پارلیمانی نشستیں نہیں جیت سکی ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک مخصوص سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے ’نئی دہلی میں تبدیلی کا وقت آن پہنچا ہے۔ ریاست تامل ناڈو کی وزیراعلیٰ جے للیتا اپنے حماتیوں کو ایک اشارہ کردیں تو اقتدار کی چڑیا مودی کے سر پر بیٹھ جائے۔‘ اس بار یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انتخابی نتائج پر خواتین کا معنی خیز اثر ہو سکتا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کی گریجویٹ سچیکا پاٹھک کا کہنا ہے کہ "میں بہت پرجوش ہوں اور انتخابات کے دن کا انتظار کر رہی ہوں کیونکہ میرا بھی ایک ووٹ ہے اور میں پہلی بار اس کو ڈالنا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میرے ووٹ میں زبردست طاقت ہے اور میرے مستقبل کی تعمیر میں یہ بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے، لیکن بدقسمتی سے خاتون پارلیمانی امیدوار صرف چند ہی ہیں۔"بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق، 2010 سے لے کر اب تک 20 میں سے 16 ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں خواتین ووٹروں کی تعداد مردوں سے زیادہ رہی ہے۔ اتر پردیش اور بہار دونوں میں-- جو بالترتیب 80 اور 40 لوک سبھا نشستوں کی نمائندگی کرتے ہیں -لیکن سیاست میں مردوں کے غلبے اور عمومی مردانہ عصبیت، عورتوں کے لیے ہنوز ایک چیلنج ہے۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں ووٹ ڈالنے والی خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی– 342.2 ملین خواتین ووٹر اور 374.7 ملین مرد ووٹر– تاہم مرد امیدواروں کی نمائندگی کل نامزد امیدواروں کا 93.1 فیصد تھی۔بہت سی خواتین کہتی ہیں کہ "ہم سے ہر سطح پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، خواہ یہ روزگار ہو یا دوسری سماجی ذمہ داریاں۔ حتی کہ جب ووٹنگ کی بات ہوتی ہے تو ہم سے اپنے بزرگوں کے حکم پر عمل کرنے کو کہا جاتا ہے اور ووٹ ہمارے لئے بے معنی ہو جاتا ہے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ووٹ ہماری زندگی تبدیل کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ خواتین ووٹر اور خواتین بادشاہ گر بھارت میں کیا تبدیلی لاتی ہیں۔

Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 418803 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More