پاکستان میں اس وقت منشیات استعلام کرنے کا رجحان بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے
حالانکہ محتلف فالاحی اداروں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی لوگوں میں منشیات کے
استعمال کرنے کو ترک کرنے کے متعلق آگائی پیدا کر رہی ہے اس کے باوجود یہ
وجا بڑھتی ہی جا رہی ہے۔منشیات کی روک تھام کے عالمی سطح پر بھی کام جاری
ہے جیسے 26 جون کو عاملمی یوم انسداد منشیات منایا جاتا ہے جسکا مقصد لوگوں
میں منشیات استعمال کرنے کے نْصانات کی آگاہی پیدا کرنا ہے۔کراچی کے علاوہ
منشیات فیٖصل آباد ،گجرات ،راولپنڈی ڈویژن اور دیگر دیگر شہروں بہت بڑی
مقدار میں استعمال کی جاتی ہے۔راوپنڈی کے ملحقہ شہروں اٹک،چکوال اورٹیکسلا
کے دیہی علاقوں میں منشیات کے استعمال کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد پائی
جاتی ہے جو آسانی سے چند روپیوں کے عوض کہیں سے حاصل کر کے استعمال کرنا
شروع کر دیتے ہیں۔دیہی علاقوں میں پولیس کی طرف سے کوئی خاص مانیٹرنگ نہیں
کی جاتی جس وجہ سے یہ وبا کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد
ایک کروڑتک پہنچ چکی ہے جس میں بیس فیصد خواتین بھی شامل ہیں، بیس فیصد کا
مطلب 20لاکھ خواتین منشیات کا استعمال کرتی ہیں۔ جبکہ ملک میں منشیات
استعمال کرنے والے لوگوں میں سالانہ چار سے چھ لاکھ کا اضافہ ہورہا ہے جو
انتظامیہ کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ وزارت انسداد منشیات کے پلاننگ اینڈ
مانیٹرنگ یونٹ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف شہروں میں کئے گئے سروے سے
پتا چلتا ہے کہ منشیات کا سب سے زیادہ استعمال تعلیم یافتہ خواتین میں ہو
رہا ہے۔ منشیات کی عادی 47 فیصد خواتین کالج یونیورسٹی کی تعلیم یافتہ، 21
فیصد خواتین کی تعلیم میٹرک یا پرائمری جبکہ 47 فیصد خواتین شادی شدہ ہیں۔
43 فیصد خواتین کو منشیات ان کے دوست جبکہ 15.6 فیصد کو منشیات ہمسائیوں کے
ذریعے مہیا کی جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارے یونائٹڈ نیشن آفس آن ڈرگ اینڈکرائم(United Nation’s
Office on Drug and Crime) ، نار کوٹکس کنٹرول ڈویڑن اور پاکستان بیورو آف
سٹیٹسٹکس (Pakistan Bureau of Statistics)نے پاکستان میں منشیات کے استعمال
کے حوالے سے کیے گئے سروے کی مشترکہ سالانہ رپورٹ برائے سال 2013 ء جاری کی
ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں15سے 64سال کیتقریباً 60 لاکھ 70 ہزار افراد
منشیات کا استعمال کرتے ہیں جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے ۔ ۔ یونائٹڈنیشن
آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم(UNODC) کے پاکستان میں نمائندے سینرر گویڈز کا کہنا
ہے کہ اس رپورٹ میں منشیات کے عادی افراد بارے مفصل ڈیٹا فراہم کیا گیا ہے
اور یہ معلومات پاکستان میں منشیات کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے کافی
سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس سلسلے میں طویل
منصوبہ بندی،سرمایہ کاری اور مربوط کاروائی کے لئے حکومتی اداروں کے تعاون
کی اشد ضرورت ہے ۔ رپورٹ میں یہ بات بھی واضح کی گئی ہے کہ منشیات کا
استعمال خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں
زیادہ ہے ، جو منشیات کی ترسیل اور کاشت کے لئے بدنام ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دو سے ڈھائی لاکھ خاندان پوست کی کاشت کرتے
ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطاً تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی
حاصل ہوتی ہے جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک کیلئے ایک خطیر رقم ہے۔ توجہ
طلب بات یہ ہے کہ پاکستان کا مغربی بارڈر انتہائی غیرمحفوظ ہے اور وہاں
حکومتی رٹ بالکل نہیں ہے جس کی بڑی وجہ طالبان کی افغانستان اور پاکستان کے
سرحدی علاقوں میں موجودگی ہے۔طالبان اور دیگر شدت پسند تنظیمیں پاکستان کی
ریاستی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں اور اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے منشیات
کے کاروبا مٰیں بھی ملوث ہیں ۔ سینٹرل ایشیاء آن لائن نے اپنی ایک رپورٹ
میں خیبر میڈیکل کالج کے شعبہ کیمیائی تجزیہ اور فورنزک میڈیسن کے ایک
کیمیائی تجزیہ کار پرویز خان کے حوالے سے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ خودکش
مشن پر روانہ ہونے سے قبل خود کش بمبار ہیروئن، افیون، اسٹیرائڈز اور دیگر
نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پشاور کے نزدیک ادیزئی قومی لشکر اور
پولیس کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے ایک متوقع خودکش بمبار کے معائنے سے
اس کے خون میں ہیروئن کی بڑی مقدار کا انکشاف ہوا جو حملے سے چند منٹ قبل
انجکشن کے ذریعے لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این او ڈی سی
(UNODC)نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان
اور دیگر دہشت گردگروپس اپنی تخریبی کارروائیوں کیلئے منشیات کی آمدنی
استعمال کر رہے ہیں اور سال 2012 تک طالبان کی منشیات سے حاصل ہونے والی
آمدنی 70 کروڑ ڈالر کے قریب تھی جو مستقبل قریب میں مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
حکومت کی طرف سے وفاقی، صوبائی اور علاقائی سطح پر منشیات کی ترسیل کا عمل
روکنے اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے کی بھی اشد
ضرورت ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبائی حکومتوں کو منتقل کر
دیا گیا ہے لیکن اس حوالیسے صوبائی حکومتوں کی استعداد کار بڑھانے کی کو ئی
مربوط کو شش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے صوبائی حکومتوں کی طرف سے منشیات کی
روک تھام اور نشے کے عادی افراد کی بحالی کے حوالے سے کارکردگی مایوس کن
ہے۔ جرمن خبر راساں ادارے کے مطابق اس مسئلے کا ایک تشویش ناک پہلو یہ ہے
کہ حکومت کی مجرمانہ غفلت اور معاشرتی بے حسی کی بدولت اتنی بڑی تعداد جو
منشیات جیسی لعنت کی عادی بن چکی ہے کے لئے علاج معالجے اور بحالی کی
سہولتیں بالکل ہی نا کافی نظر آتی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی
افراد کی بحالی کیلئے حکومتی سطح پر صرف چند مراکز موجود ہیں جو کہ صرف بڑے
شہروں میں ہیں ۔اس مقصد کے لئے قائم نجی ادارے بھی اس سلسلے میں کام ضرور
کر رہے ہیں مگر وہاں اس لعنت سے چھٹکارے کیلئے علاج اتنا مہنگا ہے کہ عام
آدمی وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ۔اس رجحان کو کم کرنے کیلئے ضروری
ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس کریں اور اس پر
قابو پالنے کیلئے مناسب وسائل و اقدامات بروئے کار لائیں-
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور
پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دو سے ڈھائی لاکھ خاندان پوست کی کاشت کرتے
ہیں جس سے ان خاندانوں کو اوسطاً تین سے چار ہزار امریکی ڈالر سالانہ آمدنی
حاصل ہوتی ہے جو کہ افغانستان جیسے غریب ملک کیلئے ایک خطیر رقم ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسف کے2008 سے لے کر 2012کی رپورٹس کے مطابق 80
سے90 فیصد منشیات افغانستان سے ساری دنیا کو منتقل ہوتی ہے جبکہ یہ منشیات
افغانستان سے پاکستان کے راستہ سے سمگل ہوتی ہے۔ یہ ریمارکس انہوں نے
خواتین پروبیشن اینڈ پروکلیمیشن آفیسرکی جانب سے دائررٹ درخواست کی سماعت
کے دوران دئیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے منشیات فروشوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کرنا
چاہیے اور تمام شہروں میں موجود شیشہ سینٹروں کو بند کرانا چا ہیے کیونکہ
نوجوان نسل شیشے سے پھر دوسری محلق منشیات کی طرف راغب ہو رہی ہے۔منشیات کے
خاتمے خصوصاً لڑکیوں کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے سب سے اہم کردار
والدین ادا کر سکتے ہیں۔ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی
عادات جیسے بچوں میں غصیلہ پن کا پیدا ہونا، امتحانات میں فیل ہونا،سکول
کالج سے غیر حاضر رہنا،جسمانی ساخت میں تبدیلی آجانا،سونے کی عادات میں
تبدیلی آجانا،رقم کی طلب یا معمول سے زیا دہ رقم کا پاس ہونا،پر ضرور توجہ
دیں اور چھان بین کریں۔عوام میں منشیات استعمال کرنے کے نقصانات کے متعلق
آگئی پیدا کرنی چاہیے جس سے لوگوں میں شعور پیدا ہو کہ منشیات صرف اور صرف
صحت کی تباہی کا نام ہے ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے۔ |