اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی زند گی میں صحت کو بنیادی
اہمیت حاصل ہے ۔مال و دولت ، علم و تعلیم اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان
سب میں صحت واحد نعمت ہے جس کے بغیر زندگی ختم ہو جاتی ہے ۔ حضرت موسیٰ
علیہ سلام اﷲ تعالیٰ سے کلام کیا کر تے تھے اسلئے ان کو کلیم اﷲ بھی کہا جا
تا ہے ۔ ایک دفعہ حضرت مو سیؑ نے اﷲ تعالیٰ سے عر ض کی کہ اے اﷲ اگر انسان
تم سے ایک چیز مانگے تو کیا مانگے تو اﷲ نے کہا کہ اے موسیٰ مجھے سے مانگے
تو صحت مانگے ‘کیوں کہ صحت سے بڑی چیز اور دولت کوئی نہیں ۔لیکن اﷲ نے
انسان کی تخلیق کے ساتھ بیماریا ں بھی پیدا کی ہے تاکہ انسان شکر گزار بنے
لیکن افسوس کہ ہم نے کبھی بھی اپنی تندروست صحت کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ
سچ تو یہ ہے کہ اﷲ نے ہمیں بے شمار نعمتیں دی ہے لیکن ہم کسی بھی نعمت کا
شکر ادا نہیں کر تے ۔ جسم میں کسی ایک حصے میں بھی درد پیدا ہو جا ئے اس
وقت اﷲ یا د آجا تا ہے لیکن جوں ہی صحت ٹھیک ہو جائے تو اﷲ کا شکر کر نا
بھول جا تے ہیں۔ اﷲ نے انسانی زندگی کو ختم کر نے کے لئے موت کو پیدا کیا
ہے اور موت اﷲ کی طرف سے انسان کو سب سے بڑا تحفہ ہے ۔
اﷲ نے ایسی بیماری پیدا نہیں کی ہے جس کا علاج ممکن نہ ہولیکن یہ انسانوں
پر منحصر ہے کہ وہ اﷲ کے نعمتوں، قدرتوں کا کتنا تلاش اور علم رکھتا ہے ۔
ہر حکومت کی کوشش ہو تی ہے کہ وہ لو گوں کو صحت ، علاج و معالج کی بہتر
سہولت دیں ۔ اس طر ح خیبر پختونخوا حکومت نے بھی صوبے میں صحت کا انصاف
پروگرام شروع کیا ہے جس کا بنیادی مقصد 9بڑی بیماریوں کا تدارک کر نا ہے
اور عوام کو ان بیماریوں سے نجات دلانا ہے ۔ صحت کا انصاف پر وگرام کے لئے
بیرونی امداد 22ارب روپے کے خطیر رقم مختص کی گئی ہے تا کہ غر یب اور نادار
لو گوں کو بیماریوں سے بچانے اور علاج معالجے کی بہتر سہو لت مل جائے۔ صو
بائی حکومت کا کہنا ہے کہ اس پروگرام کے تحت نو مہلک بیماریوں سے صوبے کے
عوام کو نجات دلائیں گے جس میں کالی کھانسی، یرقان،خسرہ ، گردن توڑ بخار،
نمونیہ اور پولیوو غیرہ کے حفاظتی ٹیکے اور علاج کیاجا ئے گا ۔ ہر گھر میں
بالٹی ، تو لیہ اور صابن کی ٹیکی تقسیم کی جا ئے گی ۔
صو بائی حکومت نے صحت کا انصاف پر وگر ام شروع تو کیا ہے اور اس کادسواں مر
حلہ بھی مکمل ہو گیاہے ۔ پہلے مر حلے میں پشاور شہر تھا اور اب ضلع صوابی ،
مردان اور چارسدہ کو بھی شامل کیا گیاہے ۔میر ے معلومات کے مطابق پشاور میں
صرف پو لیو کے قطرے پھیلائے جارہے ہیں باقی بیماریوں کا کو ئی پروگرام شروع
نہیں ہوا ہے اور نہ ہی بالٹی اور تولیے تقسیم ہو ئے ہیں۔سوال یہ پیدا ہو تا
ہے کہ آیا 22 ارب روپے کی خطیر رقم صرف بالٹیوں اور لوٹوں پر خر چ کی جا ئے
گی ؟۔صحت کا انصاف پروگرام میں جن بیماریوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ صرف اب تک
بینروں اوراشتہارات میں بیماریوں کے متعلق لکھا ہو تا ہے عملی طور پر صرف
پو لیوکے قطر ے پھیلائے جا رہے ہیں جو ایک اچھا عمل ہے۔ضرورت اس بات کی ہے
کہ جس طر ح تحر یک انصاف کے منشور میں درج ہے کہ ہم صحت کے بجٹ میں اضافہ
کر یں گے اور صحت کے بنیادی سہولیات اور بیماریوں سے بچاؤ ، علاج معالجے کے
جد ید طر یقوں پر عمل کر کے عوام کو ہسپتالوں میں سہو لیات دینگے اس پر عمل
کر نے کی ضرورت ہے جبکہ یہ بیرونی امداد بالٹیوں، لو ٹوں ، صابن اور تو
لیوں پر خر چ کرنے کے بجائے ان خطرناک 9 بیماریوں پر جامع پلاننگ سے خرچ کی
جا ئے تو انشاء اﷲ ان خطرناک بیماریوں سے پختو نخوا کے عوام کو نجات مل
سکتا ہے ۔دیہی علاقوں میں قائم بنیادی مرکز صحت BHUمیں تو ڈاکٹر حضرات کبھی
کبھار چلے ہی جاتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات ،علاج معالجے کا جو بورڈ ہسپتال
میں لگا ہو تا ہے وہ علاج وہاں پرد ستیاب نہیں ہوتا ۔ وزیر اعلیٰ کے ڈسٹر
کٹ نو شہرہ میں تما م BHUسمیت تحصیل اور ڈسٹر کٹ ہسپتالو ں کا بھی ایک جیسا
حال ہے ۔وزیر اعلیٰ اور نئے وزیر صحت کو صحت کے حوالے سے بڑ ے فیصلے کر نے
پڑیں گے اس کے بغیر نہ تو صحت کا انصاف پروگرام میں خرچ ہونے والے 22ارب
روپے کا عوام کو کوئی فائدہ ہو گا اور نہ ہی صحت کے حوالے سے بیماروں کو
درپیش مسائل سے چھٹکارامل سکتا ہے ۔صوبائی حکومت کو صحت کا انصاف پروگرام
کے لئے ٹھوس اور جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ یہ خطیر رقم صرف
بالٹیوں ، تو لیوں اور اشتہارات پر خرچ کیے جا ئے ۔ |