وفاقی حکومت کی طرف سے طالبان سے شروع کیے جانے والے مذاکرات اب نتیجہ خیز
موڑ پر پہنچ چکے ہیں دونوں طرف سے قیدیوں کے تبادلے کے بعد اچھا ماحول بن
چکا تھااور اس ٹائم پیریڈ کے دوران حیرت انگیز طور پر کوئی خاص بڑا واقعہ
ماسوائے اایف ایٹ کچہری کے رونماء نہیں ہوا تھا ۔کہ اسلام آباد کے سیکٹر
ایچ 11 میں واقع سبزی منڈی کے اندر صبح کے مصروف اوقات آٹھ بجے کے قریب
دھماکہ ہوا جس سے 21 افراد ہلاک اور 80 سے زیادہ زخمی ہوگئے ہیں دھماکے کے
بعد پولیس نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور امدادی کارکن جائے
وقوعہ پر پہنچ گئے دھماکے میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ زخمی بھی ہوئے پمز
ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 23 ہے اکیس
ہلاکتوں کی تصدیق وزیر داخلہ نے بھی کی انھوں نے بتایا کہ زخمیوں کی تعداد
اسی ہے زیر داخلہ نے طالبان کی طرف سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کے بارے میں
کہا کہ تفتیش کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کون ذمہ دار ہے اور کون نہیں
وزیر داخلہ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سزی منڈی کے مرکزی راستے پر لگائے گئے
’ڈیٹیکٹر‘ ناقص ہیں اور ان سے بارود کا پتا نہیں چلایا جا سکتاسوال یہ ہے
کہ اگر یہ ڈیکٹیٹر ناقص تھے تو ان کی چیکنگ کی ذمہ داری کس کی تھی ؟کیا جس
کی ذمہ داری تھی انھوں نے ان کوچیک کیا تھا اگر نہیں تو کیوں ؟یہ وہ سولات
ہیں جن کا جواب وزیر داخلہ موصوف کو برحال دینا ہو گا ۔ اسلام آباد کا
ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے سبزی منڈی میں گاڑیوں کی پارکنگ کے علاوہ سبزیوں
اور پھلوں سے لدی ہوئی گاڑیوں کے منڈی میں داخلے کی مد میں 120 روپے فی
گاڑی کے حساب سے سالانہ تین کروڑ روپے سالانہ کا معاوضہ وصول کرتا ہے لیکن
اس کے باوجود اس منڈی کی سیکیورٹی اور صفائی کا جو نظام ہے وہ کسی بھی طور
پر درست نہیں کہا جا سکتا اسی صورت حال کی وجہ سے ایسے واقعات رونماء ہوتے
ہیں جن پر شور و غل کیا جاتا ہے مگر چار دن گزربنے کے بعد پھر وہی صورت حال
ہو جاتی ہے اسلام آباد کی یہ سبزی منڈی علاقے کی بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے
اور یہاں ملک کے دور دراز علاقوں اور چاروں صوبوں سے پھلوں اور سبزیاں
فروخت کے لیے لائی جاتی ہیں جن کے خریدار تاجر اسلام آباد راولپنڈی اور
گردو نواح کے علاقوں سے آتے ہیں جن میں زیادہ تر چھابہ فروش اور ریڑھی بان
ہوتے ہیں جو یہاں سے فروٹ خرید کر پورا دن فروخت کر کے اپنا اور اپنے گھر
والوں کا پیٹ پالتے ہیں اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق روزگار اور کاروبار
کے سلسلے میں روزانہ دو سے تین لاکھ افراد اس منڈی میں آتے ہیں ان غریب
مزدوروں کو اس طرح دہشت گردی کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے ۔چونکہ منڈی میں
لایا جانے والا فروٹ صبح کے اوقات میں ہونے والی بولی میں فروخت کیا جاتا
ہے اور منڈی میں صبح سویرے ہی نیلامی شروع ہو جاتی ہے اور اس دوران سینکڑوں
افراد موجود ہوتے ہیں اور یہ واقعہ بھی نیلامی کے دوران پیش آیاجس کی وجہ
سے جانی نقصان بہت زیادہ ہوا ہے عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ
دھماکہ ہوا اْس وقت وہاں سات سو کے لگ بھگ افراد موجود تھے زخمیوں اور ہلاک
ہونے والوں کو گاڑیوں میں ہسپتال لے جایا گیادھماکے میں زخمی ہونے والے
افراد کو اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال، پولی کلینک اور پمز منتقل
کیا گیا ہے اور ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جس جگہ پر دھماکہ ہوا
وہاں پر پولیس اہلکاروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جو پولیس کی
کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے تھانہ سبنری منڈی جائے حادثہ سے چند میٹر
کے فاصلے پر ہی ہے حکام کے مطابق اس تھانے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد صرف
25 ہے واضح رہے کہ اس سے پہلے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی اسی
سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک سو کے قریب افراد ہلاک
ہوگئے تھے اْس واقعے کے بعد سبزی منڈی کے اطراف میں دیوار تعمیر کرنے کا
حکم دیا گیا تھا لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوایہ دیوار کیوں تعمیر
نہیں ہوئی اس کی تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کس
پر ہے ؟اسسٹنٹ آئی جی اسلام آباد کے مطابق اس حملے میں تقریباً پانچ کلو
دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا ہے پولیس ذرائع کے مطابق دھماکہ خیز مواد
امرودں کی پیٹیوں میں رکھا گیا تھاجو نیلامی کے دروان پھٹ گیا۔سبزی منڈی کے
تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی اقدامات کیے تھے لیکن حکام کی ہدایات
کی روشنی میں وہاں پر تعینات سیکورٹی گارڈز یہ کہہ کر ہٹا دیے گئے کہ
اْنھیں بھتہ خوری کی وارداتوں میں استعمال کیا جاتا ہے وفاقی حکومت نے
سیکیورٹی پالیسی کااعلان کر دیا ہے لیکن عوام تو تب ہی اسے سراہیں گے جب ان
کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنے گا ۔ادھر تحریکِ طالبان پاکستان نے اس
دھماکے کے علاوہ سبی کے ریلوے سٹیشن پر ہونے والے دونوں حملوں سے لاتعلقی
کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مذمت کی ہے ایسے میں حکومت کو اپنی تحقیقات کا
دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے پتا لگانا چاہیے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو دہشت
گردی کے ذریعے سے اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل چاہتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ وزیر داخلہ صاحب اپنے اس بیان کی پاسداری کریں جس میں انھوں نے اسلام
آباد کو محفوظ شہر بنانے کا وعدہ کیا تھا اس کے لئے صرف باتوں اور پالیسیوں
سے کام نہیں چلے گا بلکہ حقیقت پسندانہ اور عملی کام کر کے دیکھانا ہو گا ۔ |