میاں گھر آئے تو بھوک زوروں پہ تھی۔بیگم نے گوبھی گوشت پکایا تھا۔ یہ شاید
بھوک کا اثر تھا یا اس دن شاید بیگم نے کچھ توجہ سے کھانا بنایا تھا۔میاں
کھانا کھا کے نہال ہو گئے اور انہوں نے دل کھول کے کھانے اور اس کے ساتھ ہی
بیگم کی تعریف کی۔اگلے دن کھانا کھانے بیٹھے تو دسترخوان پھر گوبھی گوشت کی
خوشبو سے مہک رہا تھا۔انہوں نے مسکرا کے بیگم کی طرف دیکھا اور کھانا شروع
کر دیا۔اگلے دن پھر گوبھی گوشت عین کھانے کے وقت ان کا منہ چڑا رہا تھا۔
میاں سوائے بیگم کی طرف دیکھنے کے اور کر بھی کیا سکتے تھے۔گوبھی گوشت زہر
مار کیا اور منہ بسورتے اٹھ گئے۔ اب گوبھی گوشت گویا ان کی چھیڑ بن گئی
تھی۔بیگم لیکن گوبھی گوشت کی تعریف کے نشے میں مگن تھیں انہیں احساس ہی نہ
ہو سکا کہ تحسین کے چکر میں وہ بے ضرر سے میاں کی کھوپڑی الٹ چکی ہیں۔اگلے
دن دسترخوان پہ گوبھی گوشت کا ڈونگا اٹھایا اور سامنے کی دیوار پہ دے
مارا۔بیگم ہکا بکا کہ میاں کو کیا ہو گیا۔اب خاتون کو کون سمجھاتا کہ میاں
بھلے میاں ہوں لیکن انسان بھی ہیں اور انسان کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ۔انسان
ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور تنوع مانگتا ہے۔
طالبان فوج حکومت اور سیاست پہ لکھ لکھ کے بالآخر مجھے احساس ہو گیا ہے کہ
میں بھی مدت سے اپنے قارئین کو گوبھی گوشت کھلا رہا ہوں۔ان کی ہمت کی بھی
داد دیتا ہوں کہ اس کے باوجود وہ تحسین کرتے ہیں۔ابھی تک انہوں نے نقارہ
خدا کو اٹھا کے دیوار پہ نہیں مارا۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ چور چوری سے
جاتا ہے لیکن ہیرا پھیری سے نہیں۔کل سے پھر یہاں گوبھی گوشت ہی بنے گا لیکن
آج منہ کا ذائقہ بدلنے کو یہ کہانی حاضر ہے۔اس ڈش میں گوبھی اور گوشت دونوں
نہیں لیکن مصالحہ بہرحال وہی ہے سو اس کے لئے پیشگی معذرت۔
بھولے کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔میری طرح کا غریب آدمی تھا۔اﷲ کا شکر کہ ایک
مختصر سے وقفے کے بعد پھر دوبارہ سے غریب ہو کے کینڈے میں آ گیا ہے۔یہ اور
بات کہ اس کی پہلی غربت اور دوسری غربت کے دور میں زمین آسمان کا فرق
ہے۔پہلے جب ہم دونوں سڑک چھاپ تھے تو وہ بڑی بڑی ڈیوٹیاں مانگا کرتا۔ میرے
پاس پیسے ہوں تو یہ کروں،وہ کروں۔میں اسے سمجھایا کرتا بھولے ہم جو ہیں بس
ٹھیک ہیں ۔قدرت جو ہم سے کروانا چاہے گی وہ ہو جائے گا۔ زیادہ سمارٹنس نہ
دکھاؤ۔جو ذمہ داری ملی ہوئی ہے اسے نبھاؤ۔اگر تمہارا کام اچھا ہوا تو تمہیں
بڑی ذمہ داری بھی قدرت کی طرف سے عطا ہو جائے گی لیکن وہ بھولا ہی کیا جو
کسی کی بات مان لے۔ قدرت سے اس کے تقاضے بڑھتے رہے۔
ایک دن اچانک بھولے کو پتہ چلا کہ اس کی پھوپھی فوت ہو گئی ہیں۔انگلینڈ سے
ان کی میت پاکستان لائی گئی۔وہ پاکستان اور انگلینڈ میں اچھی خاصی جائیداد
کی مالک تھیں۔بھولے کے حصے میں اسی لاکھ روپے آئے۔بھولے کی ٹہور دیکھنے
والی تھی۔پھوپھی کا غم تو اس نے اسی وقت تک منایا جب تک ترکے کی رقم اس کے
ہاتھ نہیں آگئی۔بھولے نے پیسے کب دیکھے تھے۔رقم ہاتھ آئی تو بھولا بھولا نہ
رہا ۔ اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اپنا جنگ عظیم دوئم کا کھٹارہ ویسپا
بیچا اور ایک نئے ماڈل کی گاڑی خریدی۔بچوں کو ساتھ لیا اور سکردو ،ہنزہ اور
ملک کے دوسرے مقامات کی سیر کو نکل گیا۔بھابھی نے گنگا بہتی دیکھی تو گھر
کے پردے ،پرانے صوفے سب بدل ڈالے۔آج کل کے دور میں ایسے اللے تللوں کے
سامنے اسی لاکھ کی حیثیت ہی کیا ہے؟ بھولا ایک پنجابی محاورے کے مطابق واپس
آنے والی جگہ پہ آگیا ۔بیٹریوں کی پرانی دکان تو وہ کب کی بند کر چکا
تھا۔قرض کی نوبت آگئی۔بچے یونیورسٹیوں میں تھے۔ان کی فیس اور دوسرے خرچوں
کے لالے پڑ گئے۔یہ صورت حال دیکھ کے بھولے کو اندازہ ہوا کہ دولت ہی سب کچھ
نہیں ہوتی۔عقل بھی خداداد ہے جسے چاہتا ہے دیتا اور جس سے چاہے واپس لے
لیتا ہے۔بھولے کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔خالی ہاتھ بھولا پھر میری بیٹھک میں
تھا۔ اجڑا اجڑا اور پریشان حال۔عقل کے معاملے میں میرا تو اپنا ہاتھ خاص
تنگ ہے۔میں نے برا بھلا کہا کمینے لوگوں کی طرح کچھ طعنے مارے اوربس۔
بھولے کی قسمت کہ اسی شام بابا جی تشریف لے آئے۔مسئلہ ان کے سامنے پیش ہوا
تو فرمانے لگے۔بیٹا قدرت کے اپنے رنگ ہیں۔ کشائش اور رزق کا ٹھیکہ قدرت نے
اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جو کام بھی کریں ۔محنت دیانت
اور ایمانداری سے کریں۔برکت دینے والا وہی ایک ہے۔رزق میں وسعت بانٹنے سے
آتی ہے۔سینت سینت کے نہ رکھو۔لوگوں میں بانٹو۔یہ بھی شکر کا ایک انداز
ہے۔شکر کرو گے وہ زیادہ کر دے گا۔اتنا کہ تمہارے وہم و گمان میں بھی نہ
ہوگا۔اگلے دن بھولا دوبارہ اپنی پرانی دکان پہ تھا۔بھولا ترکے کے اسی لاکھ
کے ساتھ اپنی دکان بھی تباہ کر چکا تھا۔ کہانی لمبی ہے۔مختصر یہ کہ کچھ
دوستوں نے مدد کی۔ایک نئی کمپنی نے بھولے کو ڈیلر شپ آفر کر دی۔بھولا
دوبارہ اپنے پاؤں پہ کھڑا ہے۔اب کی بار وہ قدرت سے کام نہیں مانگتا۔جو
ڈیوٹی ملے اسی میں محنت کرتا ہے۔اس نے پیسے بچانا نہیں خرچ کرنا سیکھ لیا
ہے۔ وہ خرچ کرتا ہے اور بابا جی کے بقول غیب سے اور آ جاتے ہیں۔بھولا ایک
بار پھر غریب ہے۔اب کی بار لیکن اس کی غربت پہ ہزاروں امارتیں قربان کی جا
سکتی ہیں۔
بچے اب بھی کسی ہل سٹیشن پہ جانے کی فرمائش کرتے ہیں ۔بھابھی اب بھی پردوں
اور صوفوں کو بدلنے کا تقاضا کرتی ہے لیکن۔۔۔بھولے کی ترجیحات بدل گئی ہیں۔
بھولا غریب ہو کے بھی امیر ہو گیا ہے۔اس کا ایمان ہے کہ جو رزق اس کے نصب
میں ہے وہ اسے ملے گا۔ محنت ،خلوص نیت اور خدمت شرط ہے۔ جتنا گڑ اتنا
میٹھا۔۔۔ہم البتہ گل محمد ہیں کہ اتنا کچھ بدلتے دیکھا لیکن نہ محنت نہ
خلوص نیت اور نہ ایمان کی پختگی۔۔۔۔نہ خدمت نہ ایثار۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی خود سے
سوال کرنے کو جی چاہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔تمہارا کیا بنے گا کالیا؟ |