پوری نماز میں یا عبادت میں جب ہم دعا کے مقام پر پہنچتے ہیں، تو ہم بہت
تیزی میں ہوتے ہیں اور بہت جلدی کے ساتھ دعا مانگتے ہیں۔ ایک پاؤں میں جوتا
ہوتا ہے، دوسرا پہن چکے ہوتے ہیں، اٹھتے اٹھتے،کھڑے کھڑے جلدی سے دعا
مانگتے چلے جاتے ہیں ،یعنی وہ رشتہ اور وہ تعلق جو انسان کا خدا کی ذات سے
ہے، وہ اس طرح جلد بازی کی کیفیت میں پورا نہیں ہو پاتا۔ ہمارے علماء نے
ایک ترکیب یہ سوچی تھی کہ دعا مانگتے وقت انسان پورے خضوع کے ساتھ اور پوری
توجہ کے ساتھ Attention Fullرکھتے ہوئے دعا کی طرف توجہ دے اور جو اس کا
نفسِ مضمون ہو، اس کو ذہن میں اتار کر، تکلم میں ڈھال کر اور پھر اس کو
Communicate کرنے کے انداز میں آگے چلا جائے تاکہ اس ذات تک پہنچے، جس کے
سامنے دعا مانگی جا رہی ہے یا پیش کی جا رہی ہے۔
دعا کے معنی اﷲ تعالی سے مانگنے اور اس کی بارگاہ میں اپنی احتیاج کا دامن
پھیلانے کے ہیں۔ دعا کی اہمیت اسی سے واضح ہے کہ ہم سراپا احتیاج ہیں اور
ہر لمحہ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کے محتاج ہیں۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم
کا ارشاد ہے:دعا مومن کا ہتھیار ہے، دین کا ستون ہے اور آسمان و زمین کا
نور ہے۔ (مسندِ ابویعلی، مستدرک حاکم)
ایک اور حدیث میں ہے:دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے:دعا عین عبادت ہے۔ (مسندِ احمد، نسائی، ابوداود، ترمذی)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:دعا رحمت کی کنجی ہے، وضو نماز کی کنجی ہے، نماز
جنت کی کنجی ہے۔ (دیلمی بسند ضعیف)
ان ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالی کو دعا کتنی محبوب ہے، اور کیوں
نہ ہو؟ وہ غنی مطلق ہے اور بندوں کا عجز و فقر ہی اس کی بارگاہِ عالی میں
سب سے بڑی سوغات ہے۔ ساری عبادتیں اسی فقر و احتیاج اور بندگی و بے چارگی
کے اظہار کی مختلف شکلیں ہیں۔ دعا میں آدمی بارگاہِ الہی میں اپنی بے بسی و
بے کسی اور عجز و قصور کا اعتراف کرتا ہے، اسی لئے دعا کو عین عبادت بلکہ
عبادت کا مغز فرمایا گیا، عبادت سے جس شخص کے دِل میں بندگی کی یہ کیفیت
پیدا نہیں ہوتی وہ عبادت کی حلاوت و شیرینی اور لذت آفرینی سے محروم ہے۔
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آدمی کی ہر دعا اﷲ تعالی قبول فرماتے ہیں،
مگر قبولیت کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں، کبھی بعینہ وہی چیز عطا کردی جاتی ہے
جو اس نے مانگی تھی، کبھی اس سے بہتر چیز عطا کردیتے ہیں، کبھی اس کی برکت
سے کسی مصیبت کو ٹال دیتے ہیں، اور کبھی بندے کے لئے اس کی دعا کو آخرت کا
ذخیرہ بنادیتے ہیں، اس لئے اگر کسی وقت آدمی کی منہ مانگی مراد پوری نہ ہو
تو دِل توڑ کر نہ بیٹھ جائے، بلکہ یہ یقین رکھے کہ اس کی دعا تو ضرور قبول
ہوئی ہے، مگر جو چیز وہ مانگ رہا ہے، وہ شاید علمِ الہی میں اس کے لئے
موزوں نہیں، یا اﷲ تعالی نے اس سے بہتر چیز عطا کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے،
حدیث میں آتا ہے کہ:ﷲ تعالی مومن کو قیامت کے دن بلائیں گے، اور اسے اپنی
بارگاہ میں باریابی کا اِذن دیں گے، پھر ارشاد ہوگا کہ: میں نے تجھے مانگنے
کا حکم دیا تھا اور قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا، کیا تم مجھ سے دعا کیا کرتے
تھے؟ بندہ عرض کرے گا: یا اﷲ! میں دعا تو کیا کرتا تھا۔ ارشاد ہوگا کہ: تم
نے جتنی دعائیں کی تھیں میں نے سب قبول کیں۔ دیکھو! تم نے فلاں وقت فلاں
مصیبت میں دعا کی تھی، اور میں نے وہ مصیبت تم سے ٹال دی تھی، بندہ اقرار
کرے گا کہ واقعی یہی ہوا تھا۔ ارشاد ہوگا: وہ تو میں نے تم کو دنیا ہی میں
دے دی تھی، اور دیکھو! تم نے فلاں وقت، فلاں مصیبت میں مجھے پکارا تھا،
لیکن بظاہر وہ مصیبت نہیں ٹلی تھی، بندہ عرض کرے گا کہ: جی ہاں! اے رب! یہی
ہوا تھا، ارشاد ہوگا: وہ میں نے تیرے لئے جنت میں ذخیرہ بنا رکھی ہے۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:مومن بندہ اﷲ تعالی سے جتنی دعائیں
کرتا ہے، اﷲ تعالی ایک ایک کی وضاحت فرمائیں گے کہ یا تو اس کا بدلہ دنیا
ہی میں جلدی عطا کردیا گیا، یا اسے آخرت میں ذخیرہ بنادیا گیا، دعاوں کے
بدلے میں جو کچھ مومن کو آخرت میں دیا جائے گا، اسے دیکھ کر وہ تمنا کرے گا
کہ کاشدنیا میں اس کی کوئی بھی دعا قبول نہ ہوئی ہوتی۔ (مستدرک)
ایک اور حدیث میں ہے کہ:اﷲ تعالی رحیم و کریم ہے، جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ
پھیلاتا ہے تو اسے حیا آتی ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹادے۔(ترمذی، ابنِ ماجہ)
قبولیت دعا کے اوقات:
بہرحال دعا تو ہر شخص کی قبول ہوتی ہے، اور ہر وقت قبول ہوتی ہے (خواہ
قبولیت کی نوعیت کچھ ہی ہو، تاہم بعض اوقات ایسے ہیں جن میں دعا کی قبولیت
کی زیادہ امید کی جاسکتی ہے، ان میں سے چند اوقات ذکر کرتا ہوں:
سجدے کی حالت میں، حدیث میں ہے کہ: آدمی کو حق تعالی شانہ کا سب سے زیادہ
قرب سجدے کی حالت میں ہوتا ہے، اس لئے خوب کثرت اور دِل جمعی سے دعا کیا
کرو۔ (صحیح مسلم)
مگر حنفیہ کے نزدیک فرض نمازوں کے سجدے میں وہی تسبیحات پڑھنی چاہئیں جو
حدیث میں آتی ہیں، یعنی سبحان ربی الاعلی کریم آقا کی تعریف و ثنا بھی دعا
اور درخواست ہی کی مد میں شمار ہوتی ہے، اور نفل نمازوں کے سجدے میں جتنی
دیر چاہے دعائیں کرتا رہے۔
: فرض نماز کے بعد، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ: کس وقت کی
دعا زیادہ سنی جاتی ہے؟ فرمایا: رات کے آخری حصے کی اور فرض نمازوں کے بعد
کی۔ (ترمذی)
سحر کے وقت، حدیث میں ہے کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی ہے تو زمین والوں کی
طرف حق تعالی کی نظرِ عنایت متوجہ ہوتی ہے اور اعلان ہوتا ہے کہ: کیا ہے
کوئی مانگنے والا کہ میں اس کو عطا کروں؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی
دعا قبول کریں؟ ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اس کی بخشش کروں؟ یہ سلسلہ
صبحِ صادق تک جاری رہتا ہے۔ (صحیح مسلم)
: موذن کی اذان کے وقت۔
: بارانِ رحمت کے نزول کے وقت۔
: اذان اور اقامت کے درمیان۔
: سفر کی حالت میں۔
: بیماری کی حالت میں۔
: زوال کے وقت۔
: دن رات میں ایک غیرمعین گھڑی۔
یہ اوقات احادیث میں مروی ہیں۔
حدیث میں ارشاد ہے کہ: اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے متعلقین اور اپنے مال کے
حق میں بددعا نہ کیا کرو، دن رات میں ایک گھڑی ایسی آتی ہے کہ جس میں جو
دعا کی جائے، قبول ہوجاتی ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا بھی اسی گھڑی میں
ہو اور وہ قبول ہوجائے (تو پھر پچھتاتے پھروگے)صحیح مسلم )
کیفیت دعا؛
رحمتِ خداوندی کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے، اور ہر شخص جب چاہے اس کریم
آقا کی بارگاہ میں بغیر کسی روک ٹوک کے اِلتجا کرسکتا ہے، اس لئے دعا تو ہر
وقت ہی موثر ہوتی ہے، بس شرط یہ ہے کہ کوئی مانگنے والا ہو اور ڈھنگ سے
مانگے۔ دعا کی قبولیت میں سب سے زیادہ موثر چیز آدمی کی عاجزی اور لجاجت کی
کیفیت ہے، کم از کم ایسی لجاجت سے تو مانگو جیسے ایک بھیک منگا سوال کیا
کرتا ہے۔
حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: اﷲ تعالی غافل دِل کی دعا قبول نہیں فرماتے۔
اور قرآن مجید میں ہے: کون ہے جو قبول کرتا ہے بے قرار کی دعا، جبکہ اس کو
پکارے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا کی قبولیت کے لئے اصل چیز پکارنے والے
کی بے قراری کی کیفیت ہے۔ قبولیتِ دعا کے لئے ایک اہم شرط لقمہ حلال ہے
حدیث میں ارشاد ہے کہ: ایک شخص گرد و غبار سے اٹا ہوا، پراگندہ بال، دور
دراز سے سفر کرکے حج کے لئے آتا ہے، اور وہ بڑی لجاجت سے یا رب یا رب
پکارتا ہے، لیکن اس کا کھانا حرام کا، پینا حرام کا، لباس حرام کا، اس کی
دعا کیسے قبول ہو؟(صحیح مسلم)
قبولیتِ دعا کے لئے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی جلدبازی سے کام نہ لے، بعض
دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی کسی حاجت کے لئے دعائیں مانگتا ہے، مگر جب
بظاہر وہ مراد بر نہیں آتی تو مایوس ہوکر نہ صرف دعا کو چھوڑ دیتا ہے بلکہ
نعوذ باﷲ خدا تعالی سے بدظن ہوجاتا ہے، حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ: بندے کی
دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ جلدبازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا: جلدبازی سے
کیا مطلب؟ فرمایا: یوں کہنے لگے کہ میں نے بہت دعائیں کیں مگر قبول ہی نہیں
ہوتیں۔اﷲتعالی ھمارے اندار صحیح معنوں میں الحاح وزاری پیدافرمائیں |