نمک حلال اور نمک حرام کے الفاظ آپ اکثر سنتے رہتے ہیں۔
جس سے ہماری خوراک میں نمک کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔یعنی نمک کے بغیر کھانے
کا تصور بھی بے مزہ ہو جاتا ہے۔انسانی خوراک کی طرح جانوروں کی خوراک میں
بھی نمک کا استعمال ناگزیر اور لازمی ہے۔اگرچہ اس کی مقدار آٹے میں نمک کے
برابر ہی ہوتی ہے۔یہ نہ صرف خوراک کے ذائقے کو بہتر بناتا ہے بلکہ خوراک کو
ہضم کرنے کے علاوہ ہمارے اور جانوروں کے اجسام میں صحت سے متعلقہ کئی ضروری
افعال انجام دیتا ہے۔جن کا جائزہ زیر ِ نظر مضمون میں لیا جا رہا ہے۔
اہمیت:
نمک میں دو کیمیائی عناصر سوڈیم اور کلورین پائے جاتے ہیں۔یعنی یہ ان دو
عناصر کا کیمیائی مرکب ہے۔ اس کا سائنسی نام سوڈیم کلورائیڈ ہے۔یہ ہمارے
جسم کے کئی افعال میں حصہ لیتا ہے۔یہ دونوں عناصر پوٹاشیم کے ساتھ مک کر
جسم میں تیزاب و اساس کا توازن مناسب سطح پر برقرار رکھتے ہیں۔صحت مند
جانور میں مائعات کی پی ایچ ۳ء۷ تا ۵ء۷ کے درمیان برقرار رہنا ضروری
ہے۔ورنہ ہاضمہ اور دیگر افعال بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ا س سطح پر توازن
برقرار رکھنے کے لئے نمک کی مناسب مقدار کی موجودگی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں
سوڈیم اعصابی پیغامات کی ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
عام نمک میں پائے جانے والے دونوں عناصر جانوروں کی صحت کا لازمی جزو
ہیں۔یہ عناصر مائعات کا دباؤ برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ غذائی عناصر کی
خلیات تک ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نمک خون میں موجود مائع کا
اہم حصہ ہے۔ اس میں ۱۷ء۰ فیصد اور کلورین پائے جاتے ہیں۔
کمی کی علامات اور مقدار:
جانوروں میں نمک کی کمی کی علامات میں سب سے پہلے نمک کی طلب اور مختلف
اشیاء کو چاٹنے کی عادت ہے۔ اس کے ساتھ بھوک میں ہو جاتی ہے جس کا اظہار
باڑے میں کام کرنے والے افراد کے ہاتھ چاٹنے اور کپڑوں وغیرہ کو منہ مارنے
سے ہوتا ہے۔ بھوک میں کمی کا نتیجہ جسمانی وزن اور پیداوار میں نمایاں کمی
کی صورت میں نکلتا ہے۔کلورائیڈ کی کمی کی علامات میں سستی، خوراک میں کمی،
قبض، دل کی دھڑکن میں ضعف، اور جسم میں پانی کی کمی شامل تھیں۔
سائنسی تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ اگر جانوروں کو خوردنی نمک سے محروم کر
دیا جائے تو دودھ کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔امریکہ میں کی
گئی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن گائیوں کو خوراک میں نمک مہیا نہیں کیا گیا
ان کی دودھ کی پیداوار پہلے سال ۱۴۰۰۰ پاوٗنڈ سے کم ہو کر ۷۱۵۰ پاؤنڈ رہ
گئی جبکہ د وسرے سال میں اس سے بھی نصف رہ گئی۔گوشت والے جانوروں کے وزن
میں بھی نمک نہ دینے سے نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ ایک تجربے میں ۵۷۵ کلو
وزن والے جانوروں کو نمک نہ دینے سے آٹھ ہفتے میں ۹۹ کلو کی کمی ریکارڈ کی
گئی یعنی ایک ماھ میں تقریباً پچاس کلو کمی واقع ہوئی۔اور دودھ کی پیداوار
۷ء۲۷ کلو روزانہ سے کم ہو کر ۲ء۱۹ کلو رہ گئی۔ان کو کلورائیڈ ضرورت سے کم
دیا گیا تھا جس کی مقدار ۲۷ء۰ فیصد کی بجائے ۱۰ء۰ فیصد تھی۔ ہمارے ہاں اکثر
مویشی پال حضرات جانوروں کے لئے نمک کی افادیت سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے
جانوروں کو نمک مہیا نہیں کرتے۔
نمک کی زیاد تی کے ا ثرات: نمک کی زیادتی کی صورت میں گردے نمک کے اخراج
میں اپنا کردار کرتے ہیں ۔ نمک کی زیادتی صرف اسی صورت میں نقصان دہ ہو
سکتی ہے کہ یا تو جانوروں کو پانی کم مہیا کیا جا رہا ہو، پانی زیادہ نمکین
ہو یا جانور کے گردے کام نہ کر رہے ہوں۔ورنہ عام طور پر جانور اپنی ضرورت
کے مطابق نمک کی مقدار خود متعین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور فالتو نمک
پیشاب کے ذریعے خارج ہو جاتا ہے۔اس لئے نمک کی زیادتی کے امکانات بہت کم
ہوتے ہیں۔لمبے عرصہ تک نمک کی زیادتی گردوں کی خرابی کا باعث بنتی ہے جبکہ
انسانوں میں اس سے خون کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔نمک کی زیادتی سے جسم میں
پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے۔
سفارشات: امریکی ادارے این آر سی (نیشنل ریسرچ کونسل) کی ۱۹۸۹ میں جاری
کردہ سفارشات کے مطابق دودھ والی گائیوں کو خوراک میں سوڈیم کی مقدار ۱۸ء۰
فیصد ہونی چاہئے جو خوراک میں خشک مادے کا ۴۶ء۰ فیصدخوردنی نمک کے برابر
بنتی ہے۔نمک کی اس مقدار سے ۳۰ء۰ فیصد کلورائیڈ بھی جانور کو مہیا ہوتا
ہے۔۲۰۰۱ میں جاری کردہ سفارشات کے مطابق جو کہ ۱۵ تجربات میں شامل ۱۴۴۰
گائیوں کے اعدادو شمار پر مبنی ہیں یہ معلوم ہوا کہ اس سے زیادہ نمک دینے
سے پیداوار میں اضافہ ہوا۔سب سے بہتر پیداوار خوراک میں ۷۰ء۰ سے ۸۰ء۰ فیصد
نمک شامل کرنے سے حاصل ہوئی۔
ہمارے ہاں گرمیوں میں نمک کی ضرورت اس سے بھی زائد ہو سکتی ہے۔کیونکہ گرمی
میں پسینے میں نمک خارج ہوتا ہے اور جانور کوٹھنڈک پہنچانے کا باعث بنتا
ہے۔ہمارے ملک میں چونکہ نمک عام اور نہایت سستا دستیاب ہے اس لئے ہم بہت کم
اضافی خرچ سے نہ صرف جانوروں کی صحت برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کر
سکتے ہیں بلکہ جانوروں کی متوازن خوراک کے ذریعے بہتر پیداواری نتائج حاصل
کر سکتے ہیں۔ بعض ممالک میں چارے کی فصل میں نمک کو بطور کھاد بھی استعمال
کر کے اچھے پیداواری نتائج حاصل کئے گئے ہیں۔ اس طرح جانورشوق سے زیادہ
چارہ کھا کر زیادہ وزن حاصل کر سکتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ یہ
عمل ایسے علاقوں میں مفید ہے جہاں زمیں میں نمک کمی ہو اور پینے کا پانی
بھی نمکین نہ ہو۔ لہٰذا ہمارے مویشی پال بھائیوں کو جانوروں کے لئے نمک
مہیا کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کرنے چاہئے۔ امید ہے کہ ہمارے ڈیری فارمرز
اور مویشی پال بھئی ان گذارشات سے استفادہ کریں گے اور وطن عزیز کی ترقی
میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔آئیے ہم اپنے جانوروں کوحسب ضرورت نمک
فراہم کر کے دیکھیں کہ جانور اسے کس طرح نمک حلال کرتے ہیں۔ |