میاں الطاف شوکت - پنجاب لائبریرین شپ کے بابا جی

پاکستان لائبریرین شپ کی ترقی او ر فروغ میں بزرگ لائبریرینز کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اپنے پیشے کو عبادت تصور کیا اور اسے ایک تناور درخت بنا نے میں انتھک محنت کی۔ان احباب کی خدمات کو سراہنا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہمارا قومی و اخلاقی فرض ہی نہیں بلکہ یہ ہماری اسلامی روایات و تشخص کا ایک حصہ ہے۔میاں الطاف شوکت پاکستان لائبریرین شپ کی ان محترم شخصیات میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی کتب خانوں کی تنظیم ، تر تیب، ترقی اور فروغ کے علاوہ کتب خانوی تعلیم کو عام کر نے میں گزاری۔میاں صاحب نہ صرف ایک اچھے منتظم تھے بلکہ ایک اچھے استاد، کہنہ مشق لائبریرین نیز اردو زبان میں لائبریری سائنس جیسے فنی موضوع کے ابتدائی مصنفین میں سے تھے۔ آپ نے اس موضوع پر اس وقت قلم اٹھا یا جب کہ اس موضوع پر لکھنے والے چند ہی تھے۔

میاں صاحب نے ۲۲ جولائی ۱۹۱۳ء کو پنجاب کے مردم خیز ضلع جالندھر کے قصبہ شاہکوٹ میں ایک پڑھے لکھے اور دین دار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ننگل انبیاء ہائی اسکول سے میٹرک ، ریندھیر کالج کپور تھلہ سے ایف اے ، اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے گریجویشن اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ میاں صاحب میں خدمت خلق اور سماجی کام کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ طالب علمی کے زمانے میں آپ نے طلبہ سرگرمیوں میں بھی حصہ لیا۔ آپ تقسیم سے قبل طلبہ تنظیم ’’انٹر کالجیٹ مسلم برادر ہڈ‘‘ (بعد ازاں مسلم اسٹوڈنٹ فیڈریشن) کے بانی اراکین میں سے تھے اور اس کی قیادت بھی کی۔ اسی تنظیم کے تحت آپ کو شاعر مشرق علامہ اقبال کی زندگی ہی میں ۹ جنوری ۱۹۳۸ء کو پہلا ’’یوم اقبال ‘‘ منعقد کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس تاریخی تقریب کے موقع پر پڑھے گئے منتخب مقالات کو ’’مقالات یوم اقبال‘‘ کے عنوان سے آپ نے کتابی صورت میں شا ئع کیا۔آپ کو شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت تحریک پاکستان کے سلسلے میں طلبہ کے ساتھ پھر پور حصہ لینے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔میاں صاحب کو ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو ’’قرارداد پاکستان‘‘ پیش کیے جانے والے تاریخی جلسہ عام میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہے۔آپ نے تحریک پاکستان کے دوران ہندو پراپیگنڈہ کے خلاف مسجد شاہ چراغ لاہور میں ’’تعمیر ملت لائبریری‘‘ قائم کی۔

آپ نے ملازمت کا آغاز اسلامیہ کالج برئے خواتین ، لاہور سے بطور لائبریرین کے کیا بعد ازاں ہیلی کالج آف کامرس لاہور کے لائبریرین ہوئے اور اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد آپ نے فلاحی سرگرمیاں جاری رکھی لائبریری پروفیشن کی ترقی میں عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ آپ نے لاہور ہی میں سمن آباد کے قریب گیارہ کنا ل اراضی حاصل کرکے احباب کے تعاون سے ’’عالی مسجد‘‘، ’’جامعہ فضلیہ‘‘ اور فضلیہ پبلک ڈسپنسری کی بنیاد رکھی جس سے اس علاقے کے مکینوں کو صحت مند ماحول میسر آیا۔ عالی مسجد سے ملحق ملتان روڈ پر لائبریری کے لیے ایک وسیع ہال خالصتاً جیب خاص سے تعمیر کروایا اور اس میں ایک لائبریری قائم کی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے عقیدت مندوں ، دوستوں اور شاگردوں نے اس لائبریری کو آپ ہی کے نام سے منسوب کیا اور اب یہ لائبریری ’’میاں الطاف شوکت میموریل پبلک لائبریری ‘‘ کہلاتی ہے۔ لائبریری سائنس کا سر ٹیفیکیٹ کورس اب اسی لائبریری میں منعقد ہو رہا ہے۔ یہ کورس بھی میاں صاحب کے علمی کارناموں میں سے ایک کارنامہ ہے۔

میاں صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے ۔ آپ حد درجہ نیک، دیانت دار، عجز و انکساری کا پیکر، سادہ طبیعت، ہمدرد اور اخلاص کا مجموعہ تھے۔ آپ کی شخصیت شہر اور دیہات کی ملی جلی فضا لیے ہوئے تھی۔میاں صاحب سے میر ا باقاعدہ تعلق ۱۹۷۷ء میں قائم ہوا ، اس سے قبل میں ۷۲ء۔۱۹۷۱ء میں جامعہ کراچی میں لائبریری سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے میاں صاحب کی تحریرکردہ کتاب سے استفادہ کر چکا تھا، آپ کی یہ کتاب اردو زبان میں لائبریری سائنس پر ابتدائی مواد فراہم کرتی ہے۔ ۵ جولائی ۱۹۷۷ء کا تحریر کردہ میاں صاحب کا خط آپ سے براہ راست تعلق کی بنیاد بنا ، یہ تعلق آپ کے انتقال تک قائم رہا۔ اپنے اس خط میں میاں صاحب نے راقم کو پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے تحت ہونے والے لائبریری سائنس کے سرٹیفیکیٹ کورس کا ممتحن مقرر کرنے کی نوید دی۔ آپ نے تحریر فرمایا، ’’ آپ سے تعارف نہیں لیکن اب ہورہا ہے۔ ۱۹۶۲ء سے انڈر گریجویٹس کے لیے ایک لائبریری ٹریننگ کلاس جاری ہے سولہ سال میں انیس سیشن ہوئے میں شروع سے اس کلا س کا انچارج چلا آرہا ہوں ۔ اتفاق کی بات ہے کہ پہلا پرچہ آج تک کراچی سے سیٹ ہوتا رہا ہے چنانچہ ڈاکٹر انیس خورشید، عادل عثمانی صاحب، سبزواری صاحب، ایس وی حسین مرحوم ،نسیم فاطمہ وغیرہ ممتحن رہے ہیں۔مختصر اًیہ کہ ایسو سی ایشن نے اس سلسلہ میں آپ سے خدمات لینی ہیں آپ کو پرچہ نمبر ایک کا ممتحن مقرر کیا گیا ہے امید ہے آپ اسے منظور فرمائیں گے‘‘۔میاں صاحب کے اس خط کے بعد میں ان کی نگرانی میں ہونے والے سرٹیفیکیٹ کورس کا ممتحن بن گیا ساتھ ہی میاں صاحب سے ناطہ بھی قائم ہو گیا۔

میاں صاحب سے ملاقات کا شرف پہلی بار ۱۹۹۰ء میں حاصل ہوا۔ لاہور میں یو ں تو کئی دوست تھے لیکن امریکن سینٹر کے محمدا صغر صاحب سے قریبی دوستی تھی انہوں نے یہ فریضہ سر انجام دیا وہ اپنی موٹر بائیک پر مجھے میاں صاحب کے گھر لے گئے ، مغرب ہوگئی تھی، رات کی تاریکی اور تنگ و تاریک گلی میں مکان تلاش کرنا اصغرصاحب ہی کا کام تھا ، تنہا میرے لیے میاں صاحب کا گھر تلاش کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہوتا۔دروازہ پر دستک دی ، اصغر صاحب نے اپنے نام کے ساتھ میرا نام بھی بتا یا ، بہت تپاک کے ساتھ ملے ۔ خلوص و محبت واضح تھا، خاطر تو اضع کی، مختلف پیشہ ورانہ موضوعات پر گفتگو ہوئی ، کراچی کے ہم پیشہ احباب کی خیریت دریافت کی ، دوبارہ آنے پر اصرار بھی کیا ، ساتھ ہی اپنی طبیعت کی ناسازی کے بارے میں بھی بتا یا جو آپ کی ظاہری کیفیت سے عیاں ہورہی تھی۔ یہ میاں صاحب سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا محسوس ہوا کہ جیسے برسوں سے ایک دوسرے سے واقف ہوں ، خلوص و محبت سرتا پا انکساری، اپنائیت اور پیشہ سے سچی ہمدردی و لگن کی جھلک نما یاں تھی۔

میاں صاحب سے دوسری ملاقات پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کی ۱۵ ویں کانفرنس منعقدہ دسمبر ۱۹۹۴ء کے موقع پر ہوئی۔ کراچی سے دیگر احباب کے علاوہ اسکول آف لائبریرین شپ ، پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے کئی اساتذہ نے بھی شرکت کی تھی۔ میاں صاحب صاحب نے بطور خاص کراچی کے لائبریری اسکول کے اساتذہ کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا ، یہ تقریب پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے سرٹیفیکیٹ کورس کے ساتھیوں کی جانب سے ایک مقامی ہوٹل میں منعقد ہوئی ۔ میاں صاحب کے علاوہ مقصود علی کاظمی،ایم ایچ شباب مرحوم ، سر فراز حسین چشتی، محمد اسلم مرحوم ، محمد تاج، منیر احمدنعیم عابد علی گل اوردیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری کے نصرت علی اثیرنے بھی شرکت کی۔ لائبریری کے سروے کے دوران مختلف شعبہ جات اور لائبریری آٹو میشن کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔اس موقع پر میاں صاحب بھی ہمارے ساتھ موجود رہے۔تقریب میں میاں صاحب نے لائبریری سائنس سر ٹیفیکیٹ کورس کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ قیام پاکستان کے بعد دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری نے اپنی خدمات کا آغاز ٹرسٹ کے چیٔر مین جسٹس ایس اے رحمان مرحوم کی درخواست پر میاں صاحب کی زیر نگرانی ہی میں شروع کیا، میاں صاحب طویل عرصہ تک لائبریری میں خدمات انجام دیتے رہے۔

میاں صاحب کا تعلق پنجاب کے شہر لاہور سے تھا ،لائبریرین شپ تعلق رکھنے والے احباب انہیں ’’بابا جی ‘‘ کے نام سے پکارا کرتے تھے، بابا جی اب ہمارے درمیان نہیں لیکن پاکستان میں انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری تعلیم کے فروغ و ترقی میں باباجی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔پنجاب میں انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری تعلیم میاں صاحب ہی کی مرہون منت ہے۔ آپ نے پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن سابقہ مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کے زیر اہتمام لائبریری تعلیم کو نامساعد حالات میں نہ صرف جاری رکھا بلکہ اس کا دائرہ لاہور سے بڑھا کر راولپنڈی اور بہا ولپور تک وسیع کر دیا۔

پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن نے ۱۹۶۲ء میں مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کو لاہور میں اور ایسٹ پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن کو ڈھاکہ میں لائبریری ٹریننگ اسکول قائم کرنے کی سفارش کی چنانچہ مغربی پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن (جس کا موجودہ نام پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن ہے) نے ۱۹۶۳ء میں لاہور میں لائبریری سائنس کی ٹریننگ کلا س کا اجراء کیا۔ میاں صاحب شروع ہی سے اس کلاس کے منتظم اعلیٰ چلے آرہے تھے۔میاں صاحب کی کوششوں سے ۱۹۸۳ء میں ایسو سی ایشن کی خدمات کا دائرہ لاہور سے بڑھا کر راولپندی تک وسیع ہوا ، ٹریننگ کلاس کا ایک مرکز راولپنڈی میں بھی قائم کیا گیا۔۱۹۸۳ ۔۱۹۸۸ء تک ٹریننگ کلاس کے راولپنڈی سے نو سیشن مکمل ہوئے اور کل ۲۶۰ طلبہ نے ٹریننگ حاصل کی ۔ ۱۹۸۸ء کے بعد بہاولپور میں بھی ایک مرکز قائم کیا اس طرح اس ایسو سی ایشن نے ۲۵ سالوں میں ۱۸۱۲طلبہ کو انڈر گریجویٹ سطح پر لائبریری سائنس کی تربیت سے آراستہ کیا، جو پنجاب
کے مختلف کتب خانو ں میں پیرا لائبریری اسٹاف کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

۱۹۸۶ء میں حکومت پاکستان کی وزارتِ تعلیم کے شعبہ لائبریریز ملک میں انڈر گریجو یٹ لائبریری سائنس کی تعلیم و تر بیت کے فروغ اور اس کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے کراچی میں پاکستان ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کے تحت جاری سرٹیفیکیٹ کورس اور لاہور میں پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کے سرٹیفیکیٹ کورس کو باقاعدہ منظور کرتے ہوئے احکامات جاری کیے حکومتی سطح پر ملک میں انڈر گریجویٹ لائبریری تعلیم کی باقاعدہ سر پرستی و قدر شناسی کی یہ پہلی مثال تھی جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

سرٹیفیکیٹ کورس میں یکسانیت پیدا کرنے کے سلسلہ میں، میں نے میاں صاحب کو تحریر کیا کہ اگر کراچی اور لاہور میں جاری سرٹیفیکیٹ کورسز کا نصاب یکساں ہو جائے اور اس میں ہم آھنگی پیدا ہوجائے تو یہ زیادہ تر قی کا باعث ہو گا۔میاں صاحب نے میری اس تجویز کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے ایک
عمد ہ تجویز قرار دیا ، آپ نے اپنے خط (۳ مارچ ۱۹۷۹ء )میں تحریر فر مایا ’’ ببلو گرافیکل ورکنگ گروپ کی کلاس کے متعلق پڑھا۔ کیا یہ وہی کلاس ہے جس کے کرتا دھرتا اے َ آر۔ غنی اور ایس وی حسین تھے۔ میں دو دفعہ اس کلاس کا ممتحن بنا تھا۔ ہماری اور آپ کی کلاس کانصاب ایک ہونا چاہیے ۔ یہ بہت عمدہ خیال ہے میں کوشش کروں گا کہ یہ خیال عملی جامہ پہن لے‘‘۔ بعد ازاں ایسا ہوا۔ جس کا تمام تر سہرا میاں صاحب ہی کو جاتا ہے۔میاں صاحب سرٹیفیکیٹ کورس کے ابتدا ہی سے ڈائریکٹر تھے اور تمام امور از خود سر انجام دیا کرتے تھے۔ جس میں ممتحن سے خط و کتابت ، پرچہ ارسال کرنا، یاددہانی کرانا، پرچہ پریس پہنچانا، پروف ریڈنگ کرنا وغیرہ شامل تھا۔ ممتحن کی حیثیت سے میری پوری کوشش ہوا کرتی کہ بروقت پرچہ تیار کر کے بھیج دوں، میں کئی سال ممتحن رہا ۔

پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن پاکستان میں لا ئبریرین شپ کے پیشے میں قائم ہو نے والی اولین ایسو سی ایشن ہے جس کا قیام ۱۹۴۸ء میں’’ مغربی پا کستان لا ئبریری ایسو سی ایشن ‘‘کے نا م سے عمل میں آیا۔ فضل الٰہی مر حوم اس ایسو سی ایشن کے قیام میں پیش پیش تھے۔ تقسیم ہند سے قبل بر طانوی ہندوستان میں پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن لاہورمیں قائم ہو ئی تھی ۔ لاہور ہی اس انجمن کی سر گرمیوں کا محور تھا۔ قیام پا کستان کے بعد لاہور میں موجود لا ئبریری پروفیشن سے تعلق رکھنے والوں نے کسی بھی پروفیشنل تنظیم کی موجودگی کو محسو س کیا ۔ فضل الٰہی مرحو م لاہور میں (M.A.O.) کالج سے وابستہ تھے ۔ آپ نے کوشش کی کہ پنجاب لا ئبریر ی ایسو سی ایشن کو از سر نو منظم کیا جائے ۔اس وقت پنجاب لا ئبریر ی ایسو سی ایشن کے صرف دو اراکین میاں الطاف شوکت لا ئبریرین ہیلے کالج اورمحمد صدیق لا ئبریرین گورنمنٹ کالج ساہیوال ایسو سی ایشن کے رکن کی حیثیت سے موجود تھے ۔دونوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پنجاب لا ئبریری ایسو سی ایشن کو از سر نو منظم کیا جائے۔ فضل الٰہی نے ۱۹۴۸ء کے اوائل میں ایسو سی ایشن کے اراکین کی ایک میٹنگ منعقد کی جس میں اسلامیہ کالج کے لائبریرین سید نصیر احمد نے بھی شرکت کی۔ یہ میٹنگ اسلامیہ کا لج لا ئبریری میں منعقد ہوئی۔ اس سال ابتدائی نوعیت کا کام ہوا اور انتخابات کے لیے راہ ہموار کی گئی۔ انتخابات اپریل ۱۹۴۹ء میں منعقد ہو ئے جس کے نتیجے میں خواجہ نور الٰہی لا ئبریرین پنجاب پبلک لا ئبریری صدر ، میاں الطاف شوکت سیکریٹری، محمد صدیق اسسٹنٹ سیکریٹری اور محمد اسلم خازن منتخب ہوئے۔مجلس منتظمہ کے اراکین پنجاب کی مختلف ڈسٹرکٹ سے لیے گئے۔ تمام صوبوں میں یکسانیت پیدا کر نے کے لیے جنرل باڈی اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور ہو ئی جس میں اس ایسو سی ایشن کا نام ’’،،مغربی پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن‘‘ اور اس کا صدر مقام لا ہورقرار پایا۔ ون یونٹ کے اختتام( جولائی ۱۹۷۰ء) میں اس انجمن کو پنجاب لائبریری ایسو سی ایشن کا نام دیا گیاجو آج تک قائم ہے۔ مقصود کاظمی کے مطابق تادم مر گ میاں الطاف شوکت اس ایسو سی ایشن کے جنرل سیکریٹری رہے۔ڈاکٹرجلال حیدر نے مغربی پاکستان لا ئبریری ایسو سی ایشن کوبرطانوی ہندوستان
کی پنجاب لا ئبریر ی ایسو سی ایشن کا جانشین قرار دیتے ہو ئے لکھا ہے کہ اس کا پہلا اجلاس ۲۸ دسمبر ۱۹۶۱ء کو دیال سنگھ ٹرسٹ لا ئبریری میں ہوا۔

۱۹۶۰ء میں جب میاں صاحب ہیلے کالج آف کامرس کے لائبریرین تھے تو آپ نے کیٹلاگ سازی پر انگریزی زبان میں ایک مختصر سی کتا ب تحریر کی جو ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی، یہ اپنے موضوع پر ابتدائی معلومات فراہم کرتی ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب ابتداء ہی سے لائبریری پروفیشن کی عملی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ہیلے کالج کے بعد میاں صاحب دارالسلام لائبریری سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد آپ لائبریری سائنس کے سرٹیفیکیٹ کورس سے کل وقتی منسلک ہوگئے اور اپنے انتقال تک یہ خدمت سر انجام دیتے رہے۔میاں صاحب کی دوسری کتاب بعنوان ’’نظام کتب خانہ ‘‘ ۱۹۷۰ء کی دہائی کی ایک مقبول کتاب تھی اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۸ء میں شائع ہوا۔ کتاب کے بارے میں بیورو آف ایجوکیشن حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عبدالرؤف نے اپنے پیش لفظ میں لکھا کہ ’’ محترم الطاف شوکت نے اس اہم موضوع پر ایک ایسی قابل قدر تصنیف پیش کرنے کا شرف حاصل کیا ہے جس میں ان کی فنی بصیرت اور طویل تنظیمی تجربہ کی صحیح عکاسی ہوتی ہے، نظام کتب خانہ ہر اعتبار سے قابل ستائش تخلیق ہے‘‘۔ ڈاکٹر انیس خورشید نے اپنے ایک مضمون ’’کتابیں کتا ب کاروں کی : ایک کتابیاتی مضمون‘‘ میں میاں صاحب کی کتا ب پر اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’ ۱۹۷۰ء میں شیخ غلام علی اینڈ سنز نے بھی ایک کتاب شائع کی یہ کتاب ملک کے کہنہ مشق لائبریرین الطاف شوکت کی تصنیف ’نظام کتب خانہ‘ ہے ۔ یہ کتاب اوسط درجہ کے کتب خانوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ اپنے بہت سے اضافوں کے ساتھ ابتدائی سطح پر لائبریری سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے یہ ایک مفید کتا ب ثابت ہوگی‘‘۔ میاں صاحب کی ایک کتاب ۱۹۸۴ء میں ’’ابتدائی نظام کتب خانہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جو آپ نے اپنے دستخط کے ساتھ ۱۵ اپریل ۱۹۸۴ء کو مجھے ارسال کی، یہ کتاب چھوٹے کتب خانوں کے لیے تر تیب دی گئی تھی۔

آپ خود بھی مصنف تھے اور دیگر لکھنے والوں کی قدر اور حو صلہ افزائی کھلے دل سے کیا کرتے۔ میں نے ۱۹۷۹ء میں اپنی کتاب ’ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ‘‘ آپ کو ارسال کی ، اپنے خط (۱۶ فروری ۱۹۷۹ئء) میں میاں صاحب نے لکھا کہ ’’آپ کی مفید کتاب کا میں نے خود کلا س میں ذکر کیا تھا، میں تو یہی چاہتا ہوں ، طلبہ و طالبات ہر پرچے سے متعلق تین چار کتا بیں ضرور پڑھیں۔ میں نے کاظمی صاحب کو تاکید کی تھی کہ آپ کی کتاب کا تعارف کرائیں اوراسے پڑھوائیں ، انہوں نے ایسا کیا بھی‘‘۔ ۱۹۸۰ء میں میں نے اپنی ایک کتاب ’’ابتدائی لائبریری سائنس ‘‘ میاں صاحب کی خدمات میں پیش کی آپ نے اپنے خط (۱۰ اکتو بر ۱۹۸۰ء)میں لکھا کہ ’’ آپ کی کتاب موصول ہوگئی تھی، بہت بہت شکریہ، آپ نے لگن اور محنت سے کتاب تیار کی ہے ہم نے اپنے نصاب میں شامل کر لیا ہے‘‘۔

میاں صاحب ایک سچے اور کھرے انسان تھے ، درست کو درست اور غلط کو غلط کہنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ لائبریری مواد کا مطالعہ باریک بینی سے کیا کرتے اور اس پر اپنی رائے کا اظہار بر ملا کردیا کرتے۔ آپ نے اپنے خط (۱۹ دسمبر ۱۹۸۱ء) میں تحریر فرمایا’’ سبزواری صاحب آجکل مکہّ ہی میں ہیں ، یا کراچی آئے ہوئے ہیں؟ مجھے ان کا ایڈریس درکار ہے۔ ان کی درجہ بندی کی کتاب کا پہلا حصہ دیکھ کر جتنی خوشی ہوئی تھی دوسرا حصہ دیکھ کر اتنی ہی مایوسی ہوئی ہے۔ انہوں نے ادب اور اسلام کے نمبر یکسر تبدیل کردئے ہیں، ہمارے کتب خانوں میں ڈیوی کے نمبر رائج ہیں، نئے نمبروں کی ٍadjustment
کیسے ہوگی، میں انہیں خط لکھنا چاہتا ہوں ، ہمارے بھائی کس طرف چل نکلے‘‘۔ الطاف شوکت۔

میاں صاحب میں ہمدردی کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھاان کے قرب و جوار کے ساتھی اس سے بخوبی واقف تھے ہر ایک سے محبت اور ہمدردی سے پیش آتے خیریت معلوم کرتے کسی بھی مشکل یا پریشانی میں کام آنے کی پوری کوشش کرتے۔ یہ جذبہ سینکڑوں میل دور رہنے والوں کے لیے بھی یکساں
تھا اس کا اظہار آپ کی تحریروں سے واضح ہوتا ہے۔

جیسا کہ میں ابتد ا میں تحریر کرچکا ہوں کہ میں الطاف شوکت صاحب کے کورس میں کئی سال
ممتحن رہا ہوں ، میری کوشش ہوا کرتی تھی کہ پرچہ وقت پر تیار کرکے بھجوا دوں پھر بھی مصروفیات کے باعث تاخیر ہو جایا کرتی، ایک بار ایسا ہی ہوا میں با وجود کوشش کے پرچہ شاید وقت پر نہیں بھیج سکا، میاں صاحب کے خط (۳ مئی ۱۹۸۱ء) میں پرچہ دیر سے پہنچنے اور کورس کے امور سر انجام دینے کی تصویر خوبصورت طریقے سے واضح ہوتی ہے۔ آپ نے لکھا ’’ عزیز صمدانی ! السلام علیکم۔ ۲۸ تک بھی آپ کا پرچہ نہ ملا تو اسلم صاحب نے مشورہ دیا کہ تار بھیج دیا جائے مگر سوچا وقت گزر چکا تھا، ۲۹ بھی گزرگئی ، تو محترم عادل عثمانی صاحب کی یاد تازہ ہوگئی، ایک دفعہ وہ ممتحن تھے، تو ایسا ہی ہوا تھا، ۲۹ گزر گئی ، اب صرف ۳۰ اپریل کی تاریخ باقی رہ گئی ، چنانچہ ۲۹ کی رات ۱۱ بجے بیٹھ کر میں نے پرچہ تیارکر لیا اور ۹ بجے پریس میں بھجوا دیا۔ وہ آخری تاریخ تھی، بارہ بجے خود پہنچ کر پروف پڑھے اور ساڑھے چار بجے باقی پرچوں کے ہمراہ آپ کا پرچہ بھی وقت پر چھپ گیا ۔ یکم کو جمعہ تھا اور ۲ مئی کو سب سے پہلا آپ کا پرچہ تھا، کل پرچہ ہوگیا، گھر واپس پہنچا تو آپ کی رجسٹری ہوصول ہو چکی تھی، عثمانی صاحب کی رجسٹری پرچہ کے ایک دن بعد موصول ہوئی تھی۔ امید ہے پرچے بھی آپ کو ساتھ ہی موصول ہو جائیں گے‘‘الطاف شوکت۔

میاں صاحب یکم فروری ۱۹۹۸ء بروز اتوارکو خالق حقیقی سے جا ملے، وہ اب ہمارے درمیان میں نہیں لیکن ان کی یاد یں آج ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا اخلاق ان کی تخلیقات اور لائبریری ساسئنس ٹریننگ کلاس ایسے فیوض جاریہ ہیں جن سے موجودہ اور آئندہ نسل فیض حاصل کرتی رہے گی۔ لائبریری ٹریننگ کلاس کی سر پرستی اب میاں صاحب کے رفیق کار سید مقصود علی کاظمی صاحب کو حاصل ہے۔ وہ اس خدمت کو اسی جذبہ اور لگن سے سر انجام دے رہے ہیں جیسے میاں صاحب برسہا برس تک دیتے رہے ۔میاں صاحب کے فرزندجناب مشتاق آزاد بھی اس کورس میں معاون ہیں۔

اگست ۲۰۰۷ء کے ابتدائی دنوں کی کوئی تاریخ تھی ٹیلی فون پر معلوم ہوا کہ کوئی مشتاق صاحب بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے بعد از سلام عرض کیا آپ کون صاحب ہیں کہنے لگے میرا نام مشتاق آزاد ہے لاہور سے آیا ہوں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ آپ ضرور ملاقات کریں ، مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کو نہیں پہچانا، گویا ہوئے کہ میں الطاف شوکت کا بیٹا ہوں ، ان کا یہ کہہ دیناہی میرے لیے کافی تھا ، میں نے کہا کہ بس اسقد ر تعارف کافی ہے آپ پہلی فرصت میں تشریف لائیں، اپنے گھر کا پتہ اچھی طرح لکھوا یا ، میں انتظار کرتا رہا ، لیکن وہ نہ آئے شاید وقت نہ مل سکا ہو،کئی دن گزرنے کے بعد ۲۹ اگست کو آپ نے مجھے پھر فون کیا کہ میں آپ کے گھر آنا چاہتا ہوں ، راستے میں ہوں ناظم آباد سے واپس اپنے بیٹے کے گھر ملیر کینٹ جارہا ہوں ، میں نے اپنے گھر کا پتہ بتا یا ، تھوڑے ہی دیر بعد وہ اپنی بیگم کے ہمراہ تشریف لے آئے،وہی الطاف شوکت جیسا ڈیل ڈول، چہرہ پر سفید داڑھی، گفتگو کا انداز بھی کچھ کچھ ملتا جلتا۔مجھے ایسا لگا کہ میاں صاحب قدرِ جوان ہوکر آگئے ہیں۔ ان سے تعلق کی ایک فلم نظروں کے سامنے چلنے لگی، باتیں مشتاق صاحب سے کررہا تھا ، ذہن میں میاں صاحب تھے۔ بہت خوشی ہوئی ،میاں صاحب کی یاد تازہ ہوگئی، مشتاق صاحب بھی خوش نظر آرہے تھے، میں نے اپنے پاس محفوظ میاں صاحب کے متعدد خطوط انہیں دکھائے جو انہوں نے بہت ہی محبت سے دیکھے اور پڑھے۔ان کی بیگم میری بیگم سے محوِ گفتگو رہیں، مشتاق صاحب نے بتا یا کہ ان کا بیٹا پاکستان آرمی میں میجر ہے اور آجکل کراچی میں اس کی پوسٹنگ ہے وہ اس کے پاس ہی آئے ہوئے ہیں اور اکثر آتے رہتے ہیں۔

میاں الطاف شوکت نے لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کا جو چراغ ۱۹۶۲ء میں لائبریری ٹریننگ اسکول کی صورت میں روشن کیا تھا،آج ۴۵ برس گزرجانے کے بعد بھی اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہے۔ علمی خدمت کی ایسی مثالیں کم کم ملتی ہیں۔جس کام میں خلوص، سچائی، خدمت خلق کا حقیقی اور بے لوث جذبہ ہو وہ زندہ رہتا ہے، پھلتا پھولتا ہے، عظمت کی مثال بن جاتا ہے۔ معروف شاعر جمیل
نقوی مرحوم کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
چھوڑ جاتی ہے ، جو صدیوں نہیں مٹنے پاتے
ذہن کی سطح پر کچھ ایسے نشان زنجیریں
(مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا‘‘ ۲۰۰۹ء میں شامل)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438152 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More