پاکستان اور بھارت کی خوش قسمتی ہے کہ انگریز بہادر نے ان
پر حکومت کی اور کچھ ایسے نا قابلِ فراموش کارنامے انجام دئے کہ ان ملکوں
کی نسلیں تک نہیں بھلا پائیں گی ، لیکن افسوس کہ جس قوم اور اس کے رہنماؤں
میں شعور نہ ہو وہ کسی کے بھی احسان مند نہیں ہوتے ، بھارت تو شاید مستقبل
قریب میں رفتہ رفتہ ترقی کرتا ہوا ایک دن اس مقام تک پہنچ ہی جائے گا جہاں
کوئی اسے احسان فراموش کا طعنہ نہ دے لیکن پاکستان کا حال اگر ایسا ہی رہا
تو کوئی اس کا نام لینا تک بھی گوارہ نہیں کرے گا۔
اس ملک میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں جو بھی آیا جس سیٹ پر براجمان ہوا
پہلے تو اْس نے اِس سیٹ تک پہنچنے کے لئے جتنے بھی پاپڑ بیلے جتنا بھی پیسہ
لگایا اپنا اولین فرض یہ سمجھا کہ پہلے اپنے پیسے پورے کرو بلکہ سود سمیت
پورے کرو ، پیسہ وصولی کے لئے ملک وقوم بھوکے ننگے ہوں ، مریں جیئیں ، سولی
پر لٹکیں یا جہنم میں جائیں میں اپنے پیسے وصول کروں گا اور اگر اس قوم کی
لاشوں پر چلنا پڑا تو بھی گریز نہیں کروں گا۔ جب اس قسم کی سوچ اور ذہن
رکھنے والے رہنما ملک پر حکومت کریں گے تو قوم کے ساتھ ساتھ ملک اور ملکی
املاک کا بھی بیڑا غرق ہو گا۔
خیبر سے سندھ تک بلکہ جہاں جہاں ان گوری چمڑی والوں کے پاؤں پڑے انہوں نے
کچھ بنایا تخلیق ہی کیا بگاڑا یا تخریب کاری نہیں کی ان کا ملک نہ ہوتے
ہوئے بھی انہوں نے بہت کم وقت میں جو کچھ بھی بن پڑا اس ملک کے لئے کیا ،
ان کے لاتعداد کارناموں میں ایک عظیم الشان کارنامہ ریلوے بھی تھا اس زمانے
میں جہاں تک ممکن ہوا انہوں نے پٹریوں کے جال بچھا دئے ، کچھ عرصہ حکومت
کرنے کے بعد وہ تو اس ملک سے نکل گئے لیکن جب اس ملک کا کاروبار ان لوگوں
کے ہاتھ میں آیا جنہیں یہ ملک بنا بنایا مل گیا تو ان لالچی اور خود غرضوں
نے اپنے تخریبی ذہن سے ہر بنی بنائی چیز کو تہس نہس کر ڈالا ، ملک قوم اور
تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کسی بھی ریلوے یا ٹرانسپورٹ منسٹر نے ریلوے کے لئے
کچھ نہیں کیا زنگ آلود پٹریوں تک کو بیچ کر کھا گئے جب ان محبِ وطن رہنماؤں
سے انٹر ویو لئے جاتے ہیں تو ان کی شکلیں دیکھنے لائق ہوتی ہیں۔ویسے بھی
جھوٹ بولنے والے کی شکل پر لعنت برس رہی ہوتی ہے۔
اب ایک نظر ادھر۔ " ٹرین سسٹم میں مزید سرمایہ کاری "۔ریلوے سٹیشنز کو مزید
جدید طرز میں ڈھالا جائے گا۔ ٹرین سے سفر کرنے والے لوگوں کے لئے جرمنی میں
ریلوے سٹیشنز کی مرمت ، ایلی ویٹرز اور معلومات کے نظام سے لیس کیا جائے گا
، ہم جرمن ٹرین سسٹم کے ساتھ مشترکہ طور پر سرمایہ کاری کریں گے تاکہ عوام
کو موبائل اور انٹر نیٹ میں دورانِ سفر تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے ، یہ
بیان گزشتہ دنوں جرمن وزیرِ ٹرانسپورٹ مسٹر الیگزینڈر برینڈت نے ایک اخبار
کو دیا۔ دوہزار بارہ اور دوہزار تیرہ میں وفاقی حکومت نے عام بجٹ کے علاوہ
نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے لئے ایک ارب یورو کی رقم
فراہم کی تھی اس میں سے ایک سو میلین یورو کے ساتھ ملک بھر میں دو سو
سینتالیس سٹیشنز کو جدید طرز میں ڈھالا گیا جن میں قابلِ ذکر رول سیڑھیاں ،
نئے پلیٹ فارمز ،مسافروں کی آسانی کے لئے ایلی ویٹرز ، موسم سے بچاؤ کے لئے
نئی چھتیں انسٹال کیں۔ جرمنی میں سٹیشنز کی مجموعی تعداد پانچ ہزار چار سو
ہے ، چھوٹے اور درمیانے سٹیشنز کی بہتری ، معیار اور لوگوں کی آسانی کے لئے
ہمارا پروگرام اور نیٹ ورک ایک وزٹ کارڈ کی طرح شفاف اور عیاں ہونا لازمی
ہے جس سے مسافروں کو بہتر معلومات آسانی سے حاصل ہوں یہ کہنا مناسب ہو گا
کہ کم روکاوٹیں زیادہ سروس ، نئی کنسٹر کشن یا ری کنسٹر کشن میں کافی وقت
درکار ہوتا ہے۔ کئی بار مختلف مسائل بھی آڑے آئے جیسے کہ ایکسی ڈینٹ اور
موسم کی خرابی وغیرہ لیکن ہمارے پروگرامز رفتہ رفتہ پایہ تکمیل تک پہنچے
آئندہ بھی ہماری کوشش ہو گی کہ مسافروں کی آسانی کے لئے کم سے کم وقت میں
زیادہ سے زیادہ آسانیوں کا سامان کریں۔
پاکستان ریلوے چونکہ اب صرف زنگ آلود پٹریوں کی وے ہے ریل تو ہے نہیں اوپر
سے منسٹر صاحب کا فخریہ بیان " پہلے تو ریل چلتی نہیں تھی اب چل رہی ہے "
شاید غلطی ہو گئی " پہلے تو ریل چلتی تھی اب تو دِکھتی بھی نہیں"سرکار آپ
کے ذمہ ریل کو ریل کی پٹری پر رواں دواں رکھنا ہے نہ کہ مشرف یا فوج کے
معاملات میں دخل اندازی کرنا۔لہذا جب تک آپ کی چہیتی کرسی سلامت ہے تھوڑی
سی سلامتی کی نظر اس ریل پر بھی ڈالیں تاکہ اس یتیم اور اجڑے سسٹم کو نام
تو ملے۔ کیوں ایک دوسرے پر طعنہ بازی کرتے ہیں ،یہ آپ کا ملک ہے اس کو ترقی
کی راہ پر ڈالنا آپ کا قومی فریضہ ہے کب تک سچائی اور حقائق سے آنکھیں
چرائیں گے جب آپ کی حکومت ختم ہو جائے گی تب کسی رپورٹر نے سوال کیا تو قوم
جانتی ہے کہ آپ کا جواب کیا ہو گا۔
ہمیں موقع ہی نہیں دیا گیا کہ ملک و قوم کے لئے کچھ کرتے " تو حضور۔ اب آپ
کے پاس موقع ہے سیٹ بھی ہے حکومت بھی ہے اور کسی مائی کے لعل میں جرات بھی
نہیں کہ آپ کو روکے۔ کیجئے نہ ملک وقوم کے لئے کچھ " گزشتہ چالیس پچاس سال
سے ہر منسٹر جھوٹ پہ جھوٹ بول کر اپنے فرض سے منہ موڑتا رہا ہے اور ہمیشہ
پچھلی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا رہا۔آپ لوگوں کو بس بہانے چاہئیں یا پھر
معذرت کے ساتھ۔" دْم اور بوتل والی مثال۔کہ سو سال بھی رہے تو ٹیڑھی کی
ٹیڑھی ہی رہتی ہے "۔ |