یارو !خوشخبری یہ ہے کہ میں نے بھی مسلم لیگ نون کی حکومت
سے لفافہ پکڑ لیا ہے۔یہ لفافہ خصوصی طور پہ نواز شریف صاحب مد ظلہ العالی
دامت برکاتھم العالیہ نے خاص اپنے ہاتھوں سے مجھے عطا کرنے کے لئے وزیر
اطلاعات پرویز رشید کے حوالے کیا۔وزیر اطلاعات نے مجھے اپنے دفتر میں خصوصی
طور پہ دعوت دی۔ میری تحریر کی تعریف کی اور اس کے ساتھ یہ خصوصی طور پہ
بھیجا گیا لفافہ میرے حوالے کیا۔اس لفافے کی وصولی کے بعد میں کم از کم آج
تو نون لیگ کی حکومت کا ہمدرد بھی ہوں اور حامی بھی۔ نمک حلالی کا تقاضہ ہے
کہ آج میں ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاؤں اور ثابت کروں کہ ان
سے اچھا منتظم اوربہتر حکمران کبھی ملک کو نصیب نہیں ہوا۔انہوں نے ملک کے
سارے جھگڑے چکا دئیے ہیں اور ملک میں ہر طرف لفافے کی وصولی کے بعد امن ہی
امن ہے یا مجھے نظر آتا ہے۔ارے بھائی سنبھال کے۔آپ نے تفصیل اس اجمال کی
پڑھی ہی نہیں اور گالیاں دینے کو پر تول رہے ہیں۔لفافے میں اتنا کچھ ہے کہ
سوشل میڈیا پہ پڑنے والی گالیاں مجھے ہر گز بد مزا نہیں کر سکتیں کہ بھوکے
سوائے گالیاں دینے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔
سو آپ گالیاں شروع کریں میں نوازحکومت کی تعریف کرنے لگا ہوں۔نواز شریف اگر
کسی طرح بم کو لات مارنے کی عادت پہ قابو پالیں اور اپنی کابینہ میں معقول
لوگوں کی تعداد تھوڑی بڑھا لیں تو میرے خیال میں وہ بہت بہتر حکمران ثابت
ہو سکتے ہیں۔نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے بعد زمام اقتدار تھامی تو ان کی
صورت دیکھنے والی تھی۔مسکراہٹ ان کے چہرے سے یوں روٹھی ہوئی تھی جیسے
گرمیوں میں بجلی ہم عوام سے روٹھتی ہے۔کسی ستم ظریف نے تو عین چوراہے پہ
موصوف سے اس کا سبب بھی پوچھ لیا۔ سناہے سوال سن کے نواز شریف نے بس
سرہلایا اور حیرت سے سوالی کی طرف دیکھا کہ پیپلز پارٹی کو پانچ سال حکمران
رکھنے کے بعد مجھے ملک کا اقتدار دیتے ہو اور پھر مجھ سے مسکرانے کا تقاضا
بھی حیرت ہے۔اس میں شک نہیں کہ نواز شریف حکومت کے پہلے سو دن انتہائی
مایوس کن تھے۔یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے زبردستی کسی کو قربانی کا بکرا
بنا دیا گیا ہو۔اس کے بعد لیکن بہرحال معاملات بہتر ہوئے۔حزب اختلاف سے
باہمی مشاورت کا جو سلسلہ سابق صدر زرداری نے شروع کیا تھا اسے جاری رکھا
گیا۔ خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کے لئے سپورٹ کیا
گیا۔آزاد کشمیر میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے عدم استحکام کی کوششوں کی
حوصلہ شکنی کی گئی۔ کراچی میں پیپلز پارٹی کے تعاون سے امن کی کوششوں کا
آغاز کیا گیا۔اس کے علاوہ ملک کے ایک بڑے طبقے کی مخالفت کے باوجود طالبان
سے امن مذاکرات کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔گو کہ ابھی تک ان مذاکرات کو صرف
مذاق رات ہی جتنی اہمیت حاصل ہے لیکن رجائیت پسند ابھی تک اس عمل سے مایوس
نہیں ہوئے۔
معاشی میدان میں بھی اس حکومت کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی۔ڈالر جو
پیپلز پارٹی کے دور میں لگتا تھا کہ آسمان کی وسعتوں کو چیرتا ہوا گذر جائے
گا۔اسے نہ صرف بریک لگائی گئی بلکہ آج ڈالر کہیں چھیانوے روپے کے آس پاس
ہے۔یہ الگ بات کہ یار لوگ اسے سعودی عرب کی مہربانی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں
اور ساتھ ہی قوم کو یہ ڈراوا بھی کہ نون لیگ کی حکومت نے سعودی عرب اور شام
میں اپنی فوج بھیجنے کی حامی بھر لی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ خورشید شاہ اور
بلاول بھی ان طعنہ زنوں میں شامل ہیں لیکن قربان جائیے زرداری یوسف رضا
گیلانی اور پرویز اشرف کے جنہوں نے منہ سے اس بارے ایک لفظ نہیں نکالا۔محرم
راز کم ہی بولتے ہیں ۔اس راز کو بالآخر سعودی سفیر نے آشکار کیا کہ جناب یہ
تو ڈیڑھ ارب ڈالر ہے ہم اس سے قبل دو ارب پیپلز پارٹی کی حکومت کی بھی نذر
کر چکے۔اس کے بعد کچھ طوفان تھما ہے۔
مجھے اس سب سے کوئی غرض نہیں۔ڈالر مہنگا ہو یا سستا۔مجھے تو آٹے سے غرض ہے
اور دال سے سبزی سے اور گوشت سے۔چکن اور چاول سے،بسوں کے کرائے سے،سی این
جی سے اور پٹرول سے اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے۔امن و امان سے۔امن و امان کی
حالت نسبتاََ بہتر ہوئی ہے۔ دھماکے کچھ کم ہوئے ہیں تو اس کا کریڈٹ بہر حال
اسی حکومت کو جاتا ہے۔حکومت کا دوسرا کارنامہ سی این جی کی فراہمی ہے۔ اس
سے معیشت کا پہیہ چلنے میں آسانی ہو گی۔حکومت نے جس طرح آٹے کے بحران کو حل
کیا ہے یہ بھی قابل ستائش ہے۔اگر حکومت کسی طور ان گرمیوں میں لوگوں کو
بجلی کی فراہمی یقینی بنا سکے تو اسے اگلا الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔دراصل مجھے شاہ کے قصیدے کی عادت نہیں اس لئے قلم رک رک جاتا ہے ورنہ
کچھ اور اقدامات بھی ہیں جن پہ اس حکومت کی تحسین کی جا سکتی ہے۔اور پھر یہ
عمل تو ہوتا ہی تقابل پہ ہے۔ نون کی حکومت پیپلز پارٹی کی حکومت۔قوم پرستوں
کی حکومت اور تحریک انصاف کی حکومت۔سب کچھ عوام کے سامنے ہے۔گیلپ کا سروے
کچھ بھی کہے اس سے فرق نہیں پڑتا۔فرق عوام کے دل ڈالا کرتے ہیں۔ اب کہ بچت
اسی کی ہے جو سب سے فٹ ہوگا۔
آج کے لئے خواب میں دئیے گئے لفافے کے عوض اتنا بہت ہے لیکن یہ بات طے ہے
کہ ہماری نہ کسی حکمران سے دوستی ہے نہ دشمنی۔سب ایک جیسے ہیں۔جو پاکستان
کے لئے کچھ بہتر کرے گا اور اس کے عوام کے لئے ہمارا قلم اسے پھولوں کے ہار
پہناتا رہے گا ۔اﷲ کرے اب کی بار نواز شریف خوجوں کے شر سے بچ جائیں اور
کسی بھی بم کو لات مارنے سے پرہیز کریں ۔عوام کی خدمت کریں پاکستان کا نام
قوموں کی برادری میں سر بلند کریں تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم عام عوام
پارٹی کی مقبولیت کی دعا کریں۔ |