کم و بیش تین ماہ تک حجاز مقدس میں ہیروئن
سمگلنگ کے الزام میں زیر حراست رہنے والی فیملی کو عید کے روز عید سے بھی
بڑی خوشی ملی اور سعودی حکومت نے پوری قوم کی دعاﺅں اور اللہ کی رحمت کے
باعث، حکومت، میاں نواز شریف حتیٰ کہ مشرف کی التجاﺅں کو شرف قبولیت بخشتے
ہوئے معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو نہ صرف رہا کرنے کا اعلان کر دیا
بلکہ انہیں شاہی مہمانوں کا درجہ بھی دیا اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد انہیں
پوری عزت و احترام سے وطن واپس روانہ کیا جائے گا۔ تین ماہ پیشتر مذکورہ
خاندان کے افراد جب عمرہ کے لئے حجاز مقدس پہنچے تو انکی جوتیوں (جو ان کے
ٹریول ایجنٹ نے پورے گروپ کو بطور تحفہ دی تھیں کہ وہاں ان جوتیوں سے وہ
گروپ شناخت کیا جائے گا) کے اندر ہیروئن کا انکشاف ہوا اور وہ خاندان ائیر
پورٹ پر پکڑ لیا گیا جس پر میڈیا کی وساطت سے متاثرہ خاندان کی دہائی ارباب
اقتدار اور سعودی سفیر تک پہنچائی گئی۔ سعودی عرب میں چونکہ منشیات کی
سمگلنگ بہت بڑا جرم ہے اور اس کی سزا موت مقرر ہے نیز سعودی ایجنسیز کے
سامنے یہ سوال بھی ہوگا کہ آئندہ یہی طریقہ کار اختیار نہ کیا جانے لگے کہ
عمرہ کی ادائیگی کے لئے جانے والے معصوم لوگوں کے سامان میں ہیروئن اور
دیگر منشیات چھپا کر بھیج دی جائیں کہ اگر نکل گئے تو وارے نیارے اور اگر
پکڑے گئے تو سعودی حکومت بے گناہوں کو چھوڑ تو دیتی ہی ہے .... اس لئے پوری
تحقیق اور تفتیش کرنے کے بعد سعودی حکومت نے زیر حراست افراد کی رہائی کا
فیصلہ قدرے تاخیر سے کیا ہوگا۔ میرے خیال میں حکومت کو کوئی ایسا نظام وضع
کرنا پڑے گا کہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوسکے کیونکہ اگر بار
بار ایسا عمل کیا گیا تو پھر ہیروئن سمیت پکڑے جانے والے اگر معصوم اور بے
گناہ بھی ہوئے تو ان کا بچنا اور رہائی پانا ممکن نہیں رہے گا۔
مذکورہ خاندان کا زیر حراست تین ماہ کا ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ کس
اذیت میں گزرا ہوگا اس کا اندازہ ہم ہرگز نہیں لگا سکتے۔ جو لوگ وہاں زیر
حراست تھے وہ تو اذیت میں تھے ہی لیکن جس طرح مشکل حالات سے ان کے پاکستان
میں موجود خاندان اور ان کے معصوم اور چھوٹے بچوں کو گزرنا پڑا وہ بھی اپنی
جگہ ایک تلخ اور کڑی حقیقت ہے۔ کیا اصل مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے
بغیر ان بے گناہ لوگوں کو قرار مل سکے گا؟ ہرگز نہیں! جب تک اصل مجرم پکڑے
نہیں جاتے، انہیں سعودی حکومت کے حوالے نہیں کردیا جاتا اور وہاں ان کے سر
قلم نہیں کر دئے جاتے، میں نہیں سمجھتا کہ الزام علیہ خاندان کو انصاف
فراہم ہوسکتا ہے۔ پوری قوم اور حکومت کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری محسوس
کرنی چاہئے اور جو لوگ اس گھناﺅنے کام میں ملوث ہیں ان کو بے نقاب کر کے
انہیں سعودی حکومت کے حوالے کرنا چاہئے، یہاں تک ہی نہیں بلکہ ان بے غیرتوں
کی گردن زنی براہ راست پاکستان میں نشر بھی کرنی چاہئے تاکہ ایک طرف تو
مظلوم خاندان کو اطمینان مل سکے اور دوسری طرف ایسا کام کرنے والوں کو سبق
حاصل ہوسکے۔ پاکستان میں نافذ قوانین کے مطابق سعودی حکومت سے ایسے مجرمان
کی تحویل کے لئے کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے لیکن جہاں ہماری حکومتیں
لاتعداد بے گناہ اور محب وطن لوگوں کو بغیر کسی جرم کے امریکہ کے حوالے
کرچکی ہے وہاں اگر کچھ گناہ گار اور مجرموں کو بے گناہ افراد کی رہائی کے
عوض حکومت سعودیہ کے حوالے کردے تو یہ ایک صائب عمل ہوگا اور بلا شبہ پوری
قوم اس کی حمایت اور تائید کرے گی۔ اس سلسلہ میں سپریم کورٹ سندھ ہائیکورٹ
کا حکم امتناعی خارج بھی کرسکتی ہے اور حکومت فوری طور پر قانون سازی بھی
کرسکتی ہے چاہے وہ اسمبلی کے ذریعہ ہو یا آرڈیننس کے ذریعہ، آخر این آر او
جیسے بدنام زمانہ آرڈی ننس بھی تو جاری کئے جاتے ہیں تو اس نیک کام کے لئے
ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
حکومت کو فوری طور پر ان تمام ملزمان کو گرفتار کرنا چاہئے جو اس کام میں
ملوث ہیں۔ یقینی طور پر اس میں اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگ، ایف آئی اے کے
اہلکاران، ائیر پورٹ سکیورٹی فورس اور ائیر لائن کے عملے کے لوگ بھی شامل
ہوں گے۔ ہمیں تو اندرون ملک سفر کرنے کے لئے چھ چھ بار سکینروں اور چیکنگ
کے کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، بلکہ یہاں تک کہ کچھ عرصہ قبل راقم جب
کراچی گیا تو واپسی پر اپنے بھتیجے کے لئے ایک کھلونا پستول لے لیا جو لگیج
میں پیک کیا گیا تھا لیکن سکیورٹی والوں نے وہ بھی نکال کر بحق سرکار ضبط
کرلیا کہ اس کی اجازت نہیں اور کچھ روز قبل تو راقم کے سامنے انہوں نے ایک
مسافر کو لاﺅنج میں سگریٹ لائٹر تک لیجانے کی اجازت نہ دی تو یہ کیسے
ہوسکتا ہے کہ ایک پورا گروپ اپنے جوتوں میں ہیروئن (انجانے اور نادانستگی
میں) لیکر جارہا ہو اور ائیر پورٹ پر چیکنگ کرنے والوں کو کانوں کان خبر نہ
ہوئی ہو! اور ویسے بھی سب لوگ جانتے ہیں کہ سعودی عرب میں منشیات کے حوالے
سے بڑی سخت قسم کی چیکنگ ہوتی ہے اور اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔
راقم کو یاد ہے جب وہ اپنے والد گرامی (اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے)
کے ساتھ 1991-92ء میں عمرہ کرنے حجاز مقدس حاضر ہوا تو جدہ ائیر پورٹ پر کس
طریقہ سے چیکنگ کی گئی، سارے کپڑے بیگ سے نکال دئے گئے اور بیگ کے نیچے جو
گتہ اور چمڑا تھا وہ بھی اکھاڑ دیا گیا، جوتوں تک کے تلے پھاڑ کر چیک کیا
گیا، اس وقت تو راقم کو بہت غصہ آیا کہ ہم یہاں عمرہ کرنے آئے ہیں، گناہوں
کی معافیاں مانگنے اور انہیں بخشوانے آئے ہیں لیکن یہ لوگ بالخصوص
پاکستانیوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں، یہاں تک کہ راقم نے اپنا احتجاج چیکنگ
کرنے والوں تک پہنچایا بھی لیکن جب وہاں پہنچ کر پاکستانیوں (جس میں زیادہ
تعداد افغانیوں کی ہوتی ہے جو پاکستانی پاسپورٹ پر وہاں جاتے ہیں لیکن نام
پاکستان اور پاکستانیوں کا ہی بدنام ہوتا ہے) کی کارگزاریوں اور حرکات کا
علم ہوا تو سعودی ائیر پورٹس پر پاکستانیوں (سبز پاسپورٹ کے حامل لوگوں) کی
سخت چیکنگ بارے تعجب ختم ہوگیا۔ منشیات سمگلنگ کو روکنے کے لئے اور پاکستان
کے عزت و وقار کی بحالی کے لئے موجودہ ہیروئن سمگلنگ کیس میں ملوث پورے نیٹ
ورک کی فوری گرفتاری از حد ضروری ہے کیونکہ حج سیزن بھی آن پہنچا ہے اور
اگر اسی طرح منشیات سمگلنگ کی کوششیں جاری رہیں تو جہاں معصوم پاکستانیوں
کو کڑی چیکنگ، بے عزتی اور بے توقیری سے گزرنا پڑتا ہے وہیں ملک کی عزت بھی
خاک میں مل جاتی ہے۔ پوری قوم معصوم پاکستانیوں کی رہائی پر اللہ تعالیٰ کی
شکر گزار ہے اور سعودی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتی ہے کہ اتنے نامساعد
حالات میں جب ملک کے عوام ایک شدید اضطراب کی حالت میں ہیں، جب مہنگائی اور
اس کے نتیجہ میں ہونے والی خودکشیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں، جب ہر شخص افرا
تفری کا شکار ہے، جہاں ایک طرف عوام خود کش دھماکوں اور تخریب کاری کا شکار
ہیں اور دوسری طرف وزراء کے لئے اربوں کی بلٹ پروف گاڑیاں خریدی جا رہی ہیں،
جہاں ایک طرف سکولوں میں نا سمجھ بچے بچیوں کو جنسی تعلیم دے کر بے راہ روی
کی تربیت دینے کی کوشش ہورہی ہے تو دوسری طرف خواتین وزراء اور ارکان
پارلیمنٹ بر سر عام شرافت اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتی نظر آتی ہیں، ان
حالات میں بلاشبہ معصوم اور بے گناہ افراد کی رہائی پوری قوم کے لئے عید کا
خصوصی تحفہ ہے۔ پوری قوم کو مبارک .... سعودی سفیر اور سعودی حکومت کا
شکریہ.... ! |