سیاست دان واقعی بالغ ہوگئے

آج کل موسم کے ساتھ ساتھ سیاست بھی خوب گرم ہے۔ پچھلے دنوں وزیردفاع خواجہ آصف اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے پرویزمشرف کو مخاطب کرتے ہوئے دل کی خوب بھڑاس نکالی تھی۔ دیکھا جائے تو ان دونوں کو مشرف پر ’’تبرا‘‘ کرنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ یہ دونوں اس آمر کے براہ راست متاثرین میں شامل ہیں۔ نواز حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد مشرف نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا، جیل میں ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے جنہیں لکھتے ہوئے قلم کو بھی شرم کے مارے پسینہ آجائے۔ مشرف کے حق اور مخالفت میں اور بھی بہت سے لوگ بیان بازی کرتے رہتے ہیں جس کا عموماً کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا ،مگر معلوم نہیں کیوں آرمی چیف کی جانب سے خواجگان کے بیان کا جواب دینا ضروری سمجھا گیا۔ جنرل راحیل شریف کے بیان اور اس پر تبصروں کی بھرمار سے کچھ ایسا ماحول بن گیا یا پھر منصوبہ بندی کے تحت بنادیا گیا کہ لوگوں کو فوجی بوٹوں کی چاپ تک سنائی دینے لگیں۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ ایک اور فوجی حکومت بس آنے ہی کو ہے۔

ماضی میں اپوزیشن جماعتیں حکومت اور فوج میں کشیدگی پر بغلیں بجایا کرتی تھیں بلکہ یہ جماعتیں خود بھی دونوں اداروں میں ٹکراؤ کے لیے ’’کانا پھوسیاں‘‘ کرتی رہتی تھیں۔ نوازشریف اور بے نظیر بھٹو دو، دو بار اقتدار سے بے دخل ہوئے، دونوں بار اپوزیشن پر فوج سے سازباز کرنے کاالزام لگایا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ الزام کوئی اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ سیاست دان رات کے اندھیرے میں جی ایچ کیو کے پھیرے لگایا کرتے تھے اور شاید اب بھی لگاتے ہوں ،مگر اب معاملہ کچھ بدل گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے پچھلے دور حکومت میں کئی بار ایسے مواقع آئے جب ایسا لگتا تھا کہ فوج کی جیپ اسٹارٹ ہونے والی ہے لیکن ہر بار نوازشریف نے جمہوریت کے تحفظ کے لیے آگے بڑھ کر پی پی حکومت کا ساتھ دیا۔ اب زرداری صاحب اس کا بدلہ چکارہے ہیں۔ لیگی حکومت ان دنوں شدید دباؤ میں ہے، ایسے میں اچانک آصف زرداری کا وزیراعظم ہاؤس آکر نوازشریف سے ملاقات کرنا دراصل فوج کے لیے پیغام تھا۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے اعلامیے میں بھی واضح کیا گیا ہے کہ ’’دونوں راہنماؤں نے کسی بھی غیرآئینی اقدام کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے پر اتفاق کیا ہے‘‘ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں یہ کس کی طرف اشارہ ہے۔

پیپلزپارٹی نے ’’خلاف توقع‘‘ یہ ایک اچھا کام کیا ہے۔ جمہوری معاشروں میں سیاسی جماعتیں اس طرح کا رویہ اپناتی ہیں۔ دیگر جماعتوں کو بھی اس معاملے میں کھل کر سامنے آنا چاہیے۔ خاص طور پر عمران خان تو ویسے بھی میاں صاحب کے مقروض ہیں۔ نوازشریف خود چل کر خان صاحب کے گھر گئے تھے۔ اب انہیں وزیراعظم ہاؤس جاکر قوم کو اتحاد کا پیغام دینا چاہیے۔ تحریک انصاف کا اس لیے بھی اس معاملے پر کھل کر سامنے آنا ضروری ہے کیونکہ اس میں بہت سے ایسے لوگ اہم عہدوں پر براجمان ہیں جو کل تک مشرف کے دائیں بائیں ہوا کرتے تھے۔

مشرف جب تک اقتدار میں رہا ملک کے لیے مسئلہ بنا رہا اور ظالم اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی ملک وقوم کے لیے دردسر بنا ہوا ہے۔ فوج اور حکومت کے درمیان تناؤ کی جڑ بھی یہی شخص ہے۔ اصل میں یہ سارا چکر سول اور ملٹری کے شو آف پاور کا ہے۔ سول حکمران مشرف کو سزا دلواکر اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف فوج اس کو اپنی توہین سمجھ رہی ہے۔ مشرف کی وجہ سے پاک فوج کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس شخص نے اس ادارے کی ساکھ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور اب بھی اس شخص کی وجہ سے فوج کی طرف لفظوں کے تیر پھینکے جارہے ہیں۔ مشرف فوج کے لیے امتحان بن چکا ہے۔ ایک طرف پوری قوم ہے جو اس آمر کو انجام تک پہنچتے دیکھنا چاہتی ہے اور دوسری طرف مشرف نے فوج کو بطور فریق کھڑا کردیا ہے۔ فوجی ہسپتال میں پناہ لے کر اس نے فوج کے ساتھ کوئی بھلائی نہیں کی، اوپر سے یہ ظالم اپنے بیانات کے ذریعے یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ فوج اس کے ساتھ ہے۔
امید تو یہی ہے کہ یہ صرف مشرف کی بھرم بازیاں ہیں،پھر بھی اگر آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی ایسا بیان جاری کردیا جاتا جس میں واضح طور پر افواج پاکستان کی غیرجانبداری کا ذکر ہوتا تو اس سے قوم کا اپنے اس عظیم ادارے پر اعتماد بڑھ جاتا اور مشرف کی سازشیں اپنی موت آپ مرجاتیں۔ بدقسمتی سے فوج کی جانب سے وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے افواہوں کا بازار گرم ہے، حکومت کے ساتھ ٹکراؤ کی کہانیاں پھیل رہی ہیں جس سے قوم میں مایوسی جنم لے رہی ہے۔ اگر واقعتا فوج اور حکومت میں کوئی مسئلہ ہے تو اسے میڈیا کے ہاتھوں میں کھلونا بنانے کی بجائے اعلیٰ سطح پر بیٹھ کر حل کرلینا چاہیے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے لیے کچھ حدود وقیود کا تعین ضرور کرنا چاہیے، اپنے جذبات کا اظہار ضرور کرنا چاہیے مگر ایسی باتوں سے گریز ضروری ہے جس سے کسی دوسرے ادارے کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔ خاص طور پر فوج جیسے ادارے کے بارے میں کوئی بیان دیتے ہوئے ایک سو ایک بار سوچنا چاہیے، کوئی ایسی بات جس سے فوج کا مورال ڈاؤن ہو یا دشمن کو ہنسنے کا موقع ملے، کسی صورت زبان سے نہیں نکالنی چاہیے۔ سیاست دانوں کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ آمروں کو راستہ ہمیشہ انہوں نے ہی دیا ہے۔ اگر سول حکمران کرپشن، اقرباپروری اور عوامی مسائل کے حل سے لاپروائی نہ برتتے تو کسی جرنیل کو ان کا تختہ الٹنے کی جرأت نہ ہوتی۔ اب بھی محض ملاقاتوں اور بیانات سے فوجی حکمرانی کا راستہ نہیں روکا جاسکتا۔ جمہوری حکمرانوں کو ترکی کے وزیراعظم اردوان سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے۔ ترک فوج جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تڑپ رہی ہے مگر اردوان کا عوام سے مضبوط رابطہ اور خدمت خلق نے فوج کو بیرکوں تک محدود رکھا ہوا ہے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت تقریباً ساری بڑی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ ہیں ،اگر یہ پارٹیاں اپنے زیراقتدار علاقوں میں آئیڈیل حکومت قائم کردیں تو قوم خود ہی غیرآئینی اقدامات سے نمٹ لے گی۔

munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111000 views i am a working journalist ,.. View More