قوموں کی حالت کبھی خود نہیں بدلتی

پچھلے مہینے کی ۱۲؍تاریخ کو میرا اکسیڈنٹ ہو گیا جس کی وجہ سے میں بسترِ علالت میں جا بسا۔ آج ایک مہینے بعد جب کہ ابھی تک میرے پاؤں پر پلاسٹر کا بھاری بھرکم دباؤ موجود ہے ،اس دوران سوائے اﷲ کو یاد کرنے کے اور میڈیا کے چینلز دیکھنے کے مجھے کوئی کام نہیں ہے ۔کافی پروگرامز دیکھے ، عوام کی کسمپرسی بھی چینلز پر وقتاً فوقتاً دیکھا تو مجھے قلم نے اِسی حالت میں پھر سے لکھنے پر مجبور کر دیا۔
قوموں کی تاریخ ہمیں یہی سبق سکھاتی ہے کہ آج تک کسی فرد یا قوم کی حالت خود بخود نہیں بدلی جب تک اس قوم نے اپنی حالت بدلنے کی آرزو کے ساتھ ساتھ اس کے لیئے مناسب جستجو بھی نہ کی ہو۔ گذشتہ کئی برسوں سے ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے کرپشن اور رشوت ستانی، دہشت گردی، بھتہ خوری کی وجہ سے تعمر و ترقی کے میدان میں بھی وہ حدف حاصل نہیں ہو سکے ہیں جن کو دیگر جمہوریت پسند قوموں نے حاصل کئے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ابھی بھی ہم میڈ اِن چائنا ، میڈ اِن جاپان یا پھر میڈ اِن یو ایس اے کے مصنوعات کا استعمال کرنے میں ہی اکتفا کرتے ہیں۔ تھری جی اور فور جی ٹیکنالوجی کئی ممالک میں کامیابی سے رواں دواں ہے اور ہمارا ملک ابھی نیلامی کی طرف ہی گامزن ہوئی ہے اور اس میں بھی کسی بیرونی سرمایہ کار کمپنی نے اپنا Interestنہیں دکھایا۔ اور کیوں ہوا اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا، ظاہر ہے کہ دہشت گردی ، اور اس سے جُڑی دوسری برائیوں کی وجہ سے کوئی بھی اپنا سرمایہ ہمارے یہاں لگانے کو تیار نہیں۔بظاہر تو ہمارے یہاں خام مال کی کچھ خاص کمی نہیں ہے اور نا ہی قوتِ افراد کی ہی کمی ہے بلکہ اگر کمی ہے تو وہ ہے ان قوتوں یا ان اسباب کو استعمال میں لانے کی ۔ اور اس راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ جو نظر آتی ہے وہ ہے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ذمہ دار اشخاص کا کرپشن کی بیماری میں مبتلا ہونا۔ ان کی کرپشن کی وجہ سے ہی ہم ترقی کی شاہراہوں سے کوسوں دور رہ گئے ہیں۔ ہر دور میں یہ لفظ ’’کرپشن‘‘ چیخ چیخ کر اپنے ہونے کا دعویٰ کرتا رہا ہے اور آج بھی یہ آوازیں اس قوم کی صحت مند ترقی کی جانب جانے سے روکتی ہے۔

عوام حکمرانوں پر اُس وقت تک بھروسہ کر تے ہیں جب تک وہ کم از کم ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں مگر ہمارے ملک میں سوائے سیاست برائے سیاست کے کچھ اور نہیں ہو رہا ، عوام اپنی بنیادی ضروریات سے بہت دور ہو چکے ہیں اور حکمران انہیں یہ بنیادی چیزیں بھی دینے سے قاصر ہیں۔ پانی ہی کو لے لیں، کراچی میں حب ڈیم سے پانی کی سپلائی اس چبھتی ہوئی گرمی میں بند کر دی گئی ہے کیونکہ افسران کی نااہلی کی وجہ سے یہ واحد ڈیم جو آدھے کراچی اور بلوچستان کو پانی فراہم کرتا تھا اب سوکھنے کے دَر پر ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کو پانی جیسی انمول نعمت سے بھی محروم ہونا پڑ رہا ہے۔ پانی انسانی زندگی میں ہر اوّل دستے کا کام انجام دیا کرتا ہے مگر آج کراچی کے شہری آبادی کا بیشتر حصہ پانی سے محروم دکھائی دیتا ہے۔عوام کا تو یہ حال ہے کہ ’’ کس سے فریاد کریں اور کس سے منصفی چاہیں‘‘۔ کہتے ہیں کہ مسلمان ایک بادشاہ گر قومی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ یہاں کہ حکمران بھی الحمد ﷲ! مسلمان قوم ہی میں سے ہیں لیکن اب تک ان کی بادشاہ گری نے ملک پر عوام کو راج کرنے نہیں دیا۔ ہر میدان میں پستی کی سمت جاتی ہوئی اس قوم کو سہارا دینے کے لیئے ابھی تک کوئی محمد بن قاسم نہیں آیا۔ انتخابات کے موقع پر جس طرح عوام کی پذیرائی کی جاتی ہے کاش! کہ انتخابات کے بعد ان کی اُسی طرح پذیرائی نہ سہی انہیں ان کے بنیادی لوازمات مہیا کر دیا جائے تو یہ عوام نہ صرف حکمرانوں سے خوش رہیں گے بلکہ انہیں دعائیں بھی دیں گے۔ کاش! کہ وہ دن آجائے جب اس ملک میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، کرپشن،لوڈ شیڈنگ اور دیگر مسائل سے نجات مل جائے اوراس کی جگہ انہیں بنیادی چیزیں پانی، تعلیم، نوکری، بجلی،جیسی دیگر شہری سہولیات مل جائے تو یہ عوام اپنے حکمرانوں کے شانہ بشانہ چلیں مگر نہیں ، عوام کو یہ چیزیں تو کیا اور بے شمار بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے عوام احساسِ محرومی بڑھ رہی ہے۔اب دیکھئے کہ اس احساسِ محرومی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

کل ہی وزیراعظم اور سابق صدر زرداری کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی، جس میں بُرے وقت میں ایک دوسرے کا ہاتھ نہ چھوڑنے پر اتفاق بھی کیا گیا۔ لازمی امر ہے کہ اس طرح کی ملاقاتوں سے ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو سکے گا اگر یہ ملاقات ملکی استحکام کے لئے کیا گیا ہے اور اگر اس کے پسِ پردہ کوئی اور بات ہے تو یہ ہماری قوم کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔ دوسری طرف میڈیا رپورٹ اور اخبارات کے مطابق طالبان سے جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے حکمران تو پریشان ہونگے ہی عوام بھی خوف و ہراس میں مبتلا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے سلسلے میں انتخابات کے دوران لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لئے بہت دعوے کیئے گئے کوئی کہتا کہ چھ مہینے میں ختم کر دیں گے، کوئی کہتا ایک سال میں بھی ختم کر دیں گے، مگر اب کہا جا رہا ہے کہ وقت لگے گا۔ یہی تو وعدہ خلافی ہے عوام سے۔ آج اس ملک کی عوام جگہ جگہ احتجاج کی صورت خود ہی ماتم کرتی نظر آتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب نواز لیگ والے یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ زرداری سے دوستی نہیں ہو سکتی مگر آج وہ باتیں ہوا ہو چکی ہیں اور دشمنی دوستی میں بدل گئی ہے۔ بہت اچھی بات ہے۔ مگر دونوں کا مشترکہ ایجنڈا عوام کے سامنے آنا چاہیئے تاکہ بات واضح ہو سکے۔ان حالات میں عوام اپنے آپ کو خوشحال اور محفوظ تصور نہیں کرتے۔ جہاں ہر وقت قتل و غارت گری جاری ہو۔ لوگ مر رہے ہوں۔ لوگ کہیں بھی محفوظ نہ ہوں۔ خدارا عوامی ایشوز پر کام کیا جائے تاکہ ہماری عوام خوشحال ہو سکے۔
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

ویسے بھی حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں۔عوام بھی پس و پیش میں ہیں کہ آگے کیا ہوگا، اور قوم کے ہر فرد کی نظر ایک بار پھر اخلاقی پستی، معاشی پسماندگی، سیاسی بد نظمی اور معاشرتی مسائل کو حل کرنے والے امیدوار کی جانب لگی ہوئی ہیں، اور جرأت مند، مخلص، صاحبِ فکر و نظر اور اعتماد کی دولت سے مزین قیادت کے منتظر ہیں۔ عام عوام کی اضطرابی صورتحال دیکھ کر یاد داشت مجبور کرتی ہے کہ بزرگوں سے سنا ایک قصہ پیش کیا جائے، گزرے وقتوں میں ایک بادشاہ اپنے ظلم و ستم کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا، غریبوں پر قہر ڈھانے کے نت نئے ہتھکنڈے ڈھونڈ کر آزمانے میں وہ بے حد ماہر تھا جس سے اسے تسکین ملتی تھی، بادشاہ کو ایک بات پر حیرت محسوس ہوتی کہ لوگ اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ اس کا ظلم و جبر سہنے کے باوجود کوئی اس کے پاس فریاد لے کر نہیں آتا، ایک روز اس نے اپنے مصاحب و وزراء سے اپنے اس دلی ملال کا تذکرہ کیا۔ بادشاہ فیس میں اضافہ کرتا رہا اور اس کے خزانے میں بھی اضافہ ہوتا رہا مگر کوئی بھی بادشاہ کے پاس شکایت لے کر نہیں آیا۔لوگوں کی بے حسی دیکھ کر بادشاہ نے پل کی دونوں جانب چند لوگ مقرر کیئے جو آنے جانے والوں کو جوتے مارنے لگے۔اب وہ پُر امید تھا کہ کوئی نہ کوئی ضرور اس فعل کی شکایت لے کر آئے گا مگر کوئی نہیں آیا۔ آج ہماری قوم پر بھی یہی صورتحال صادق آتی ہے۔ حکومت مہنگائی، کرپشن، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری، دہشت گردی میں آئے دن کا اضافہ کرکے جن کی قوتِ برداشت کو جانچ رہی ہے اور عوام ہیں کہ کوئی حرفِ شکایت منہ پر نہیں لاتے۔ خدا خیر کرے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.