حکومت کا صاف انکار چینی کی 40
روپے کلو فروخت ممکن نہیں ...... . مگر کیوں؟
عوام دوست سپریم کورٹ.....اور عوام دشمن حکومت.......آمنے سامنے
غذائی قلت کے اعتبار سے پاکستان دنیا میں 11ویں نمبر پر آگیا جو حکمرانوں
اور عوام کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے
آج اگر پاکستانی حکمرانوں اور عوام دونوں کے لئے واقعی سوچنے، سمجھنے اور
غور کرنے کی کوئی بات ہے تو وہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے
خوراک ”ورلڈ فوڈ پروگرام“ نے برملا اِس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
دنیا میں پہلی بار خوراک کی کمی کے شکار لوگوں کی تعداد ایک ارب سے بھی
زائد ہوگئی ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا یہ بھی کہنا ہے کہ غذائی قلت کے
شکار ممالک میں بدقسمتی سے پاکستان جو ایک زرعی ملک ہے یہ دنیا کے غذائی
قلت کے شکار ممالک کے اعتبار سے 11ویں نمبر پر آگیا ہے جبکہ یہاں ایک اور
حیران کن بات تو یہ بھی ہے کہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے پاکستان سے کئی
گنا بڑا اِس کا پڑوسی ملک بھارت 25 ویں اور بنگلہ دیش 20ویں نمبر پر ہیں۔
اپنے اِن دونوں پڑوسی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کا غذائی قلت کے اعتبار
سے یوں 11ویں نمبر پر آجانا یقیناً اہلِ پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ سے کم
نہیں ہے۔
میرے نزدیک پاکستان کا غذائی قلت کے لحاظ سے دنیاکے 11ممالک میں شمار اِس
کے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندیوں اور فرسودہ حکمتِ عملیوں کی وجہ سے ہوا
ہے۔ جنہوں نے اپنے دورِ حکومتوں میں اپنی جیبیں تو بھریں اور اپنے ملکی اور
غیر ملکی بینکوں میں اکاؤنٹس تو کھلوائے۔ مگر انہوں نے ملکی زرعی پیداواری
صلاحیتوں کو بڑھانے اور اِسے 21ویں صدی کے جدید سائنسی آلات اور مشینری سے
لیس کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ آج جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اِس ملک
میں جو زرعی ملک کے حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے ۔ آج اپنی
ضرورتوں کو بھی پورا کرنے سے قاصر ہوچکا ہے اور اگر یہی حال رہا اور ہمارے
حکمرانوں نے اب بھی سنجیدگی سے ملک میں غذائی ضرورت کی پیداواری صلاحیتوں
کو بڑھانے کے لئے ٹھوس اور دیرپا اقدامات نہ کئے تو کوئی وجہ نہیں کہ اِس
ملک میں قحط بھی پڑ سکتا ہے۔
بہرکیف! غذائی قلت کا مسئلہ تو اپنی جگہ مگر اِن دنوں ملک کی عوام کو اِس
حوالے سے جن دو چیزوں چینی اور آٹے کے مسائل درپیش ہیں اِس حوالے سے گزشتہ
دنوں ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی اِس ایک خبر جس کے مطابق سپریم کورٹ
نے 40 روپے کلو چینی فروخت کرنے کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد
روکنے کی شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز کی استدعا مسترد کردی ہے اور چیف جسٹس
آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے چینی 40 روپے فی کلو گرام فروخت
کرنے کی ہدایت کی ہے اور شوگر ملز مالکان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ
نے اربوں روپے کمائے ہیں اگر اِس حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر
عملدرآمد نہ ہوا تو توہین عدالت کی کاروائی کے لئے تیار رہیں اور اِس کے
ساتھ ہی اِس خبر کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا کہ 17کروڑ عوام کو 500 افراد
کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ قطاروں میں لگ کر مر جائیں اور
انہوں نے اِس موقع پر شوگر ملز مالکان کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ
لوگوں کے گلے کاٹ کر قیمتیں بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس افتخار
محمد چوہدری کے اِس فیصلے سے ملک کی غریب اور مفلوک الحال عوام میں خوشی کی
ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی تھی اور اِسے سکھ کا سانس نصیب ہوگیا تھا کہ چلو
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے قانون کی چھڑی سے اِس انتہائی ظالم اور
عوام دشمن اقدامات کرنے والی حکومت اور چینی کے تاجروں سے چینی کی قیمت کم
کرانے کا حکم تو صادر فرمایا ۔
مگر اگلے ہی روز ملک کے غریب اور کسمپرسی میں مبتلا عوام کے ارمانوں اور
جذبوں پر اُس وقت اُوس پڑگئی کہ جب سپریم کورٹ سے ملز مالکان اور ڈیلرز کی
استدعا مسترد کئے جانے کے بعد حکومت حرکت میں آگئی اور یہ بھی کتنا عجیب
وغریب اتفاق ہوا کہ پاکستان کی اِس ہی 17کروڑ عوام کے ووٹوں سے مسندِ
اقتدار پر اپنے عوام دشمن پنجے گاڑنے والی اور اپنے جھوٹے عوامی خدمت کی
دعویدار اِس حکومت نے چینی اور آٹے کے حصول کے لئے پریشان حال عوام کے سر
پر ہاتھ رکھنے اور اِن کی داد رسی کرنے کے بجائے یہ حکومت الٹا شوگر ملز
مالکان اور ڈیلرز سے اپنا کندھے سے کندھا ملائے کھڑی نظر آئی ۔
اِس لئے کہ جب عوام دوست سپریم کورٹ نے ملز مالکان اور ڈیلرز کی استدعا
مسترد کردی تھی تو اِس کے اگلے ہی روز ایک خبر کے مطابق چینی کے بحران کے
حوالے سے اِس پر غور کرنے کے لئے اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
کی زیر صدارت وزرائے اعلیٰ کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں خبر کے مطابق
شوکت ترین کی سربراہی میں قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں
حکومت کو ملک بھر میں چینی کی یکساں قیمت پر فروخت اور آئندہ سال کے لئے
گنے کی کاشت میں اضافے کے لئے کسانوں اور کاشتکاروں کو خصوصی مراعات دینے
کی بھی ترجیحی بنیادوں پر سفارشات اور تجاویز بھی پیش کی گئیں۔ جب کہ اپنی
نوعیت کے اِس غیر معمولی اجلاس میں جو خالصتاً ملک میں چینی کے بحران پر
غور کے لئے بلایا گیا تھا اِس میں پنجاب، سندہ اور سرحد کے وزرائے اعلیٰ
اور وفاقی وزراء نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔
مگر یہاں پر ایک افسوس ناک امر تو یہ بھی ہے کہ ملک میں چینی کے بحران کے
خاتمے کے حوالے سے یہ اجلاس جتنی دیر بھی جاری رہا اِس اجلاس میں متفقہ طور
پر بس یہ ہی فیصلہ کیا گیا کہ چینی کے بحران کے حل کے لئے حکومت سپریم کورٹ
سے رجوع کرے گی اور وفاق اور صوبائی حکومتیں 40 روپے فی کلو گرام چینی کی
فروخت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں گی (جو اِن سطور کے
رقم کرنے تک دائر بھی کردی گئی ہے) جس میں سپریم کورٹ کو بتایا گیا ہے کہ
40 روپے کلو گرام چینی کی فروخت میں حکومت کو کیا مشکلات درپیش ہیں اور اِس
حکومتی اپیل جو ملک میں چینی 40 روپے فی کلو فروخت نہ کرنے کے حوالے سے
حکومت کی جانب سے عوام دشمن مؤقف پر دائر کی گئی ہے اِس میں یہ بھی واضح
طور پر بتانے اور جتانے کی سعی کی گئی ہے کہ حکومت کے لئے یہ کسی بھی صورت
میں ممکن نہیں کہ وہ 40 روپے کلو چینی عوام کو فراہم کرسکے۔
جبکہ ایک حوصلہ افزا خبر یہ بھی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد
چینی 40 روپے فی کلو مقرر کرنے کے لئے سندہ ہائی کورٹ میں بھی ایک درخواست
گزار نے یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہ اگر صوبے میں چینی کے نرخ 40 روپے فی
کلو مقرر نہ کئے گئے تو عید کے بعد چینی 60 سے 70 روپے کلو فروخت کی جائے
گی۔ اِس درخواست میں درخواست گزار مولوی اقبال حیدر نے یہ بھی تحریر کیا ہے
کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا اطلاق پورے ملک پر ہونا چاہئے اور چاروں
صوبوں میں چینی یکساں نرخ پر ملنی چاہئے۔
اِس صورتِ حال میں کہ جب ایک طرف تو عوامی خدمت کے دعویدار حکومت یہ واضح
طور پر کہہ رہی ہے کہ ہم شوگر پر مزید سبسڈی نہیں دے سکتے اور ملک میں چینی
40 روپے کلو گرام کی فروخت کی حکومت ہرگز حمایت نہیں کرے گی تو اُدھر ہی
عوام دوست سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بھی اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ
شوگر ملز مالکان کو چینی کی فروخت 40 روپے کلو گرام ہی مقرر کرنی ہوگی ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت اور شوگر ملز مالکان اور ڈیلرز ہیں تو
دوسری طرف عوام دوست سپریم کورٹ اور ملک کی 17کروڑ غریب اور مفلوک الحال
عوام ہے۔ اِس کھینچا تانی کی جنگ میں کون جیتتا ہے وہ عوام جس کے ساتھ عوام
دوست سپریم کورٹ ہے یا وہ حکومت جس کے ساتھ عیار اور مکار شوگر ملز مالکان
اور ڈیلرز ہیں اِن کو شکت ہوتی ہے یا جیت یہ فیصلہ تو آئندہ چند ایک دنوں
میں ہو ہی جائے گا کیوں اب تو حکومت نے بھی عوام دشمنی پر مبنی اپنے واضح
مؤقف کے ساتھ سپریم کورٹ میں اپنی اپیل دائر کردی ہے۔
ویسے اِس ساری صورتِ حال میں اَب ملک کی 17کروڑ عوام کو بھی یہ اندازہ
لگانے میں کوئی دقعت پیش نہیں آرہی ہے کہ وہی 500 افراد جن کا تذکرہ چیف
جسٹس آف پاکستان نے شوگر ملز مالکان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیا تھا
شائد وہی 500 افراد حکومت میں بھی شامل ہیں اور جن کی شوگر ملیں بھی چل رہی
ہیں اور جو اَب کسی بھی حال میں یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں 65 سے55 روپے فی
کلو فروخت ہونے والی چینی کی قیمت سپریم کورٹ کے صرف ایک حکم سے یکدم سے 40
روپے فی کلو پر آکر ٹھر جائے۔ یہ بھی دیکھئے کہ یا توعوامی خدشات کے مطابق
عید کے بعد چینی کی قیمت دگنی ہوجائے گی.....؟یا پھر کم ہی ہو جائے گی.....؟ |