قوم کی آنکھوں میں سانحہ کھوڑی
گارڈن پر بہانے کو آنسوں بھی نہیں رہے.....
ملک پر عالمی مالیاتی اداروں کا دباؤ غریبوں کی تعداد کا 8 کڑور ہوجانے کا
خدشہ
خواب خرگوش میں مبتلا ہم پاکستانیوں اور قومی خزانے سے اپنی اپنی عیاشیوں
میں ڈوبے موجودہ حکمرانوں کے لئے بھی یہ ایک خبر ہی دلوں کی حرکت بند کرنے
اور انہیں دہلا نے کے لئے کافی ہے کہ اگر اَب بھی ہمارے حکمرانوں نے اِس کے
بعد بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یہ لڈن پپو
(گڈو بھیا) بنے رہے تو یقیناً تنزلی اِن کا مقدر ہوگی اور یوں اپنی اِسی بے
حسی اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر ملک میں
پیٹرول اور بجلی مزید مہنگے کرتے رہے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ وہ دن بھی
کوئی دور نہیں کہ جب پاکستان میں غریبوں کی تعداد 8 کروڑ یا اِس سے بھی
تجاوز کر جائے گی اور اقتصادی ماہرین کا ایسی کسی بھی صورت حال کے حوالے سے
یہ کہنا ہے کہ موجودہ صورت ِ حال میں زیادہ مناسب لگتا ہے کہ جب کبھی بھی
پاکستان میں غریبوں کی تعداد 8 کروڑ تک پہنچی تو پاکستان کے تمام بڑے شہروں
میں خانہ جنگی کا خطرہ بھی بڑھ جائے گا جبکہ ابھی پاکستان میں غربت کی
شرح40 فیصد تک پہنچنے کے بعد بھی پاکستان میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی
گزارنے والوں کی تعداد ایک اندازے کے مطابق6 کروڑ 80 لاکھ سے بھی تجاوز کر
گئی ہے۔ جس کے بارے میں اِن کا یہ بھی خیال ہے کہ ملک میں غربت بہت تیزی سے
بڑھ رہی ہے اِسے ہر صورت میں کنٹرول کیا جانا بہت ضروری ہوگیا ہے اور اگر
اِس کی اِسی طرح سے بتدریج بڑھنے کی رفتار جاری رہی تو وہ دن بھی بہت جلد
آجائے گا کہ جب پاکستان میں غریبوں کی تعداد 8 کروڑ تک پہنچ جائے گی اور
پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں خانہ جنگی کی سی صورت حال پیدا ہوجائے گی
اور اگر ایسا ہوگیا تو خدانخواستہ پاکستان بھی صومالیہ اور اتھوپیا کا نقشہ
نہ پیش کرنے لگے۔
مگر یہاں ضرورت تو اِس امر کی ہے کہ اِس وقت تک پہنچنے سے قبل ہی ہمارے
حکمرانوں کو پاکستان کو صومالیہ اور اتھوپیا بننے سے بچانے کے لئے ملک سے
غربت کو کم اور ختم کرنے کے لئے ٹھوس اور دیرپا بنیادوں پر اقدامات کرنے
ہونگے۔ تاکہ ملک میں غربیوں کی تعداد مزید نہ بڑھنے پائے اور اِس کے لئے یہ
بھی بہت ضروری ہے کہ ہمارے حکمران عالمی مالیاتی اداروں کے چیلوں سے اپنی
پالیسیاں مرتب کرانے کے عمل سے راہِ فرار اختیار کریں اور اپنی پالیسیاں
خود بنائیں تو ممکن ہے کہ ملک میں غربیوں کی تعداد کم کرنے میں خاصی مدد
بھی مل سکے مگر میرے خیال سے ہمارے حکمران ایسا کبھی نہیں چاہیں گے کہ
عالمی مالیاتی اداروں کے علاوہ یہ خود بھی اپنی پالیسیاں بنائیں۔ کیونکہ
اگر اِن میں اتنی ہی صلاحیت ہوتی تو یہ بہت پہلے ہی عالمی مالیاتی اداروں
سے چھٹکارہ حاصل نہ کرلیتے.... اِن میں وہ صلاحیت اور ہمت ہی نہیں ہے کہ یہ
عالمی مالیاتی اداروں سے یہ بھی کہہ سکیں کہ ہم اپنی ساری اقتصادی پالیسیاں
خود بھی بناسکتے ہیں اور اب ہم اپنی تمام پالیسیاں خود بنائیں گے۔
مگر ہائے رے ! افسوس کہ اِس بار تو اپنا اقتدار سنبھالتے ہی عوام کو روٹی،
کپڑا اور مکان دینے کا دلفریب نعرہ لگانے والی حکومت نے تو حد ہی کردی ہے
اِس دفعہ تو اِس حکومت نے اپنے رویوں سے ملک کی غریب عوام سے روٹی، کپڑا
اور مکان چھین کر انہیں بے گور و کفن لاشے دینے کا اچھا بندوبست کر رکھا ہے
کہ پوری پاکستانی قوم حیران اور پریشان ہوکررہ گئی ہے کہ عوام کو روٹی،
کپڑا اور مکان کا دعوی ٰ کرنے والوں کو یہ کیا ہوگیا ہے کہ یہ اپنے نعرے سے
ہی پھر گئے ہیں یہ لمحہ فکریہ ہے ہر اُس محب وطن پاکستانی کے لئے جو
پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت رکھتا ہے مگر اِن حکمرانوں کے لئے نہیں
جو کسی سانحہ کی صورت میں جیسا حادثہ گزشتہ دنوں کھوڑی گارڈن میں راشن کی
تقسیم کے وقت پیش آیا تھا اور جو ہر بار اِس جیسے سانحہ پر اخبارات اور
الیکڑانک میڈیا پر اپنے صرف رسمی طور پر تعزیتی بیان دے کر یا حکومت کی
جانب سے مرنے والوں کو ایک، ایک لاکھ روپے اور زخمیوں کے لئے پچاس، پچاس
ہزار روپے فی الفور ادائیگی جیسے اعلانات کے بعد غائب ہوجاتے ہیں اور یا
پھر یہ حکمران کچھ زیادہ ہی تیر مارتے ہیں تو کسی بھی حادثے کی صورت میں
اِس کی تحقیقات کے لئے کوئی تین، پانچ یا نو رکنی کمیٹی تشکیل دے کر اِس
کمیٹی کے رپورٹ کی روشنی میں کسی بھی حادثے میں ملوث عناصر کو سخت سے سخت
ترین سزا دینے کا عوام سے وعدہ کر کے خاموش ہوجاتے ہیں۔
یہ تحقیقاتی کمیٹی انہیں کیا رپورٹ بناکر پیش کرتی ہے وہ کمیٹی پر مشتمل
ممبران جانتے ہیں یا صرف حکمران ہی کو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی المناک
حادثہ کیسے رونما ہوا اور اِس کے پسِ پردہ وہ کیا عوامل تھے کہ جن کی وجہ
سے حادثہ پیش آیا۔ مگر ہمارے یہاں یہ بھی ایک مصمم حقیقت ہے کہ گزشتہ
62سالوں سے آج تک ایسی کسی بھی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی کسی بھی
کمیٹی کی رپورٹ کو نہ تو عوام کے سامنے ہی لایا گیا اور نہ ہی اِس رپورٹ کی
روشنی میں اُن لوگوں تک حکومت کی رسائی ہوسکی جو کسی بھی المناک حادثے کے
ذمہ دار تھے اور نہ ہی کسی کو اب تک سرے عام سزا ہی مل سکی ہے اور آج ایک
بار پھر سانحہ کھوڑی گارڈن پر بھی موجودہ حکومت نے ایسا ہی کیا ہے کہ ایک
تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو آئندہ چند دنوں میں حکومت کو اپنی رپورٹ
بنا کر پیش کرے گی کہ وہ کیا وجوہات اور کمزریاں تھیں کہ جن کی وجہ سے
سانحہ کھوڑی گارڈن پیش آیا۔ جس میں دو معصوم بچیوں سمیت 17غریب خواتین ہلاک
ہوئیں۔
مگر درحقیقت آج یہ خبر ہر محب وطن پاکستانی کے لئے بھی یقیناً اُس کے ذاتی
طور پر کسی بڑے المیے سے کم نہیں ہے جس کے مطابق کراچی کے ایک انتہائی
گنجان علاقے جوڑیا بازار میں رسالہ تھانے کی حدود میں واقع کھوڑی گارڈن
چاول والی گلی میں گزشتہ دنوں ایک مخیر تاجر چوہدری افتخار جن کے بارے میں
یہ کہا جاتا ہے کہ یہ گزشتہ 40سال سے 10000 خاندانوں کو ماہِ رمضان المبارک
کے آخری عشرے میں اور عید الفطر سے چند روز قبل غریبوں اور مستحق افراد میں
مفت راشن تقسیم کیا کرتے ہیں اور یوں حسب روایت اِس سال بھی انہوں نے اپنی
دو منزلہ عمارت کے فرسٹ فلور پر ایک کمرے میں راشن لینے والی مستحق خواتین
میں مفت راشن کی تقسیم کا اہتمام کیا تھا مگر بدقسمتی سے اِس عمل کے جاری
رہنے کے دوران ہی رش میں اچانک غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور اِسی رش کے
دوران بجلی بند ہونے کے باعث گرمی اور حبس کی وجہ سے اچانک بھگدڑ مچ جانے
اور دم گھٹنے سے دو معصوم بچیوں سمیت 16خواتین اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو
بیٹھیں اور یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اِس بھگدڑ کے دوران 25 سے زائد افراد
زخمی بھی ہوئے۔
اِس المناک حادثے کے رونما ہوتے ہی یہ پورا علاقہ قیامت ِصغری ٰ کا منظر
پیش کرنے لگا تھا اور قریبی اسپتالوں میں ہلاک ہونے والی خواتین کے لواحقین
کے دھاڑے مار مار کر رونے سے وہاں پر موجود ہر آنکھ اشکبار تھی اور اِس
دوران کئی ایسے دل خراش مناظر بھی دیکھنے میں آئے کہ کوئی سخت سے سخت دل
انسان بھی بغیر روئے نہ رہ سکا اور وہاں پر موجود ہر فرد کی زبان پر
حکمرانوں کے لئے بددعائیں تھیں جن کی ناقص حکمتِ عملیوں اور غیر مناسب
رویوں اور منصوبہ بندیوں کے باعث ملک میں دولت کی غلط تقسیم کی وجہ سے ملک
میں غربت کی شرح میں روز افزوں اضافہ ایسا ہی ہو رہا ہے کہ جیسے امر بیل
بڑھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک میں غریب تو غریب تر اور امیر، امیر تر
ہوتے جارہے ہیں۔
اِس المناک سانحہ کھوڑی گارڈن کے رونما ہونے سے قبل کسی کو کیا معلوم تھا
کہ آج اِن کے ساتھ کیا واقع پیش آنے والا ہے آج اِن کی زندگی کی سانس کی
ڈوری اِن سے اِس طرح سے کٹ جائے گی اور جو پھر کبھی نہ جڑ سکے گی ۔اُن ماؤں
کے بچوں کو کیا معلوم تھا کہ اِن کی غربت کی چکی میں پسی بیچاری غریب اور
مفلوک الحال ماں محض اپنے پیدا کئے گئے بچوں کی عید کی خوشیاں دوبالا کرنے
کے لئے راشن کے حصول کے لئے جائے گی اور عید سے ٹھیک ایک ہفتے قبل انہیں
اپنی شفقت اور اپنی آغوش سے یوں محروم کرجائے گی کہ آئندہ انہیں اپنی ماں
کی نہ تو شفقت ہی مل سکے گی اور نہ وہ آغوش جس میں سر رکھ کر یہ اپنے تمام
غم اور پریشانیاں بھول جایا کرتے تھے وہ ملے گی اور نہ اب انہیں کبھی عید
کی خوشیاں ہی مل سکیں گی اور نہ یہ اب کبھی عید کی خوشیوں سے محظوظ ہی
ہوسکیں گے اب اِن بچوں جن کی مائیں سانحہ کھوڑی گارڈن میں اللہ کو پیاری
ہوگئی ہیں اِن کی آنکھیں اور دل عید کے روز بھی ہمیشہ غمزدہ رہیں گے۔
آج سانحہ کھوڑی گارڈن پر نہ صرف اُن مرنے والی خواتین کے لواحقین ہی غمزدہ
ہیں بلکہ اِس المناک حادثے میں ہر محب وطن پاکستانی بھی اُن خاندانوں کے غم
میں برابر کا شریک ہے کہ جن شوہروں کی بیویاں اور بچوں کی مائیں اِس حادثے
کا شکار ہوئیں اور آج تو کسمپرسی میں مبتلا قوم کے پاس اِس قیامت خیز سانحہ
پر آنکھوں سے آنسوں بہانے کے لئے بھی آنکھوں میں آنسوں نہیں ہیں۔ وہ بھی
غربت اور تنگدستی کی وجہ سے رو ....رو کر خشک ہوگئے ہیں۔
اِس پر حکومت کی ستم ظریفی یہ کہ پولیس نے سانحہ کھوڑی گارڈن میں مفت راشن
تقسیم کرنے والے مخیر تاجر چوہدری افتخار کو حراست میں لے لیا تھا جس پر
وہاں موجود خواتین نے پولیس سے احتجاج کرتے ہوئے اِن کی فوری رہائی
کامطالبہ کیا اور کہا کہ چوہدری افتخار بے گناہ ہیں انہیں کیوں پکڑا گیا ہے
ایسے لوگ معاشرے میں کم ہیں اگر پولیس انہیں بھی گرفتار کرلے گی تو معاشرے
میں غریبوں کو کون سہارا دے گا اور غریبوں کا کیا ہوگا۔ حکومت سستا آٹا دے
بھی رہی ہے تو 100روپے کا ایک تھیلا جبکہ چوہدری افتخار ہزاروں غریبوں کو
مفت راشن تقسیم کرتے ہیں۔ اگر پولیس لوگوں کی مدد کرنے والے افراد کو پکڑتی
رہی تو لوگ غریبوں کی مدد کرنا چھوڑ دیں گے انہیں فوراً رہا کیا جائے اور
اِس پر پولیس نے اپنا یہ مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ خواتین کی جلد
بازی کی وجہ سے پیش آیا یہ اتفاقی حادثہ تھا اِس کے بعد غریبوں کے خیر خواہ
اور ہر دلعزیز مخیر تاجر چوہدری افتخار کو شخصی ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
ویسے تو اِس سال ماہِ رمضان المبارک میں عوامی تنقیدوں اور طعنوں سے بچنے
کے خاطر موجودہ حکومت نے خود پر جبر کرتے ہوئے ملک بھر میں وفاق سمیت چاروں
صوبائی حکومتوں کی ضلعی انتطامیہ کے ذریعے غریبوں کو سستے آٹے کی فراہمی کا
جیسے تیسے جو بندوبست کیا ہے وہ بھی کوئی اتنا خاص نہیں ہے اِن دنوں آٹے کے
حصول کے چکر میں پولیس تشدد اور آپس کی لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے متعدد افراد
کی ہلاکتوں کے بعد سے تو حکومت کی یہ سستے آٹے کی اسکیم اپنے ناقص انتظامات
کے باعث اِن دنوں ہر سطح پر سخت ہدف تنقید بنی ہوئی ہے کیوں کہ حکومت ملک
کی غریب عوام کو گوانتاموبے جیل کے قیدیوں کی طرح دھوپ میں لمبی لمبی
قطاروں میں لگا کر اِن کی عزتِ نفس جس بُری طرح سے مجروح کر کے اِن میں
سستے آٹے کا 100 روپے فی تھیلا تقسیم کا ڈرامہ رچا رہی ہے اَس سے حکومت
غریبوں پر کوئی احسان نہیں کر رہی ہے۔
اور جسے حاصل کرنے کے لئے ملک بھر میں غریبوں کی لمبی لمبی قطاریں سحری کے
فوری بعد ہی لگنا شروع ہو جاتیں ہیں اور یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ
اکثر اوقات انہیں حکومت کی جانب سے شروع کی گئی اسکیم کے تحت10 کلو کے آٹے
کا تھیلا 100روپے میں مہیا کرنے والا( آٹے کے تھیلوں سے لدا )ٹرک نئے وقت
کے مطابق اپنے پوائنٹس پر دن کے 2 بجے یا کبھی تو اِس سے بھی دیر میں
پہنچتا ہے اِس دوران اِس گرمی کے موسم میں قطاروں میں لگے روزہ دار مرد،
خواتین اور بوڑھے بچوں کی برداشت کی حد بھی ختم ہوچکی ہوتی ہے اور جب یہ
ٹرک اپنے مقررہ مقام پر پہنچتا ہے تو اِس دوران سستا آٹا وصول کرنے والوں
کے درمیان جلد بازی کے باعث ایسی بھگدڑ مچتی ہے کہ وہاں پر موجود عوام کے
رش کو کنٹرول کرنے والے پولیس کے اہلکاروں کو لاٹھی چارج بھی کرنی پڑجاتی
ہے۔ اخباری خبریں اِس بات کی شاہد ہیں کہ حکومت کی جانب سے جاری سستا آٹا
خریدنے والوں پر بھی پولیس کی وحشیانہ لاٹھی چارج سے بھی اب تک کئی افراد
ہلاک ہوچکے ہیں جو نہ صرف قابلِ افسوس ہی نہیں بلکہ شرم کا بھی باعث ہے کہ
ایک غریب 100 روپے کا سستا آٹا خریدنے کے لئے بھی قطار میں لگا ہے اور اوپر
سے پولیس کی لاٹھی، ڈنڈے، لاتیں، گھوسے اور گالیاں بھی کھارہا ہے۔ جس سے
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس طرح سے حکومت نے غریبوں کو ریلیف دینے کے بہانے
الٹا اِس نے غریبوں پر اپنے ظلم و ستم کی نئی راہ نکال اختیار کرلی ہے۔
تاکہ ملک سے غریب ختم ہوں اور حکومت کو اپنے وسائل ملک کی ترقی میں صرف
کرنے کا زیادہ موقع ہاتھ آسکے۔ اتنا تو اب عوام بھی سمجھنے لگے ہیں۔ |