ہندوستان میں ایک طبقہ کو کچھ بھی کہنے، کرنے، لکھنے اور
بولنے کی مکمل آزادی ہے خواہ اس سے کسی کو تکلیف پہنچے، کسی کی دل آزاری ہو،
کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے اور یا کسی طبقہ کا اس کے اس بیان سے
ناطقہ بند ہوجائے کوئی فرقہ نہیں پڑتا۔ اس طبقہ کے سامنے ہندوستان کا آئین
بونا ہمیشہ ثابت ہوا ہے۔یہ طبقہ کو ئی اور نہیں سنگھ پریوار کا گروہ ہے جس
میں بی جے پی سمیت درجنوں تنظیمیں شامل ہیں۔ جن لوگوں کو جیل میں ہونا
چاہئے کہ وہ آج دندناتے پھر رہے ہیں۔کیوں کہ ہندوستان کے99 فیصد افسران کے
دلوں میں ان لوگوں کے لئے نرم گوشہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا بال بھی
باکا نہیں ہوپاتا۔ ان کے گناہوں کو بھی ہندو سماج کو بیدار کرنے کے زمرے
میں رکھا جاتا ہے۔ یہاں کی ریاستی حکومتیں جس طرح چاہتی ہیں مسلمانوں کے
خلاف قانون وضع کرلیتی ہیں ۔ انسانوں کے قاتل آرام سے چھوٹ جاتے ہیں کیوں
کہ ان کا تعلق سنگھ پریوار سے ہوتا ہے لیکن جانوروں کو مبینہ طور پر ذبح
کرنے کے جرم میں مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے لئے سات سال کی سزا ہے۔دن کے
اجالے میں26 اگست 2006 کو اے بی وی پی کے غنڈوں نے پروفیسر سبھروال کو قتل
کردیا تھالیکن وہ سب کے سب بری ہوگئے کیوں کہ ریاستی حکومت نے ان غندوں کو
بچانے کی انتھک کوشش کی۔ ایک بار پھربھارتیہ جنتا پارٹی نے لوک سبھا
انتخابات میں رام مندر، یکساں سول کوڈ اور دفعہ 370 کے معاملے کو اٹھایا ہے
اور مسلمانوں کو لبھانے کے لئے مدرسہ ماڈرنائزیشن کا لالی پاپ بھی دیا ہے۔
منواودی نظریہ سام ، دام، ڈنڈ، بھید کے طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ان کے سپہ
سالار پورے ملک میں زہر گھول رہے ہیں وہیں اس فرقہ پرست پارٹی کا صدر ملک
میں گرجا اور مسجد کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔نریندر مودی کا نور نظر اور
پالیسی کو عملی جامہ پہنانے والا امت شاہ کو تمام حدوں سے گزرنے کی چھوٹ دے
دی گئی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے پر الیکشن کمیشن بھی بے بس نظر
آرہا ہے۔اگرچہ کمیشن نے امت شاہ کے خلاف کچھ پابندی لگائی ہے لیکن ان کی
زبان کو لگام نہیں دیا اور پابندی اٹھا بھی لی۔ اگر اعظم خاں پر مذہبی
جذبات بھڑکاووٹ حاصل کرنے کا الزام لگایا جاسکتا ہے صرف نرنیدر مودی یا امت
شاہ ہی نہیں مکمل بھارتیہ جنتا پارٹی پر مذہبی منافرت اور رام مندر جیسے
حساس موضوع کو اٹھانے کے جرم میں پارٹی پر پابندی لگانی چاہئے تھی۔یہ
الیکشن کا موسم ہے اور ساری طاقت نوکرشاہوں کے پاس ہوتی ہے اور نوکر شاہ
سنگھ پریوار کے زرخرید غلام ہوتے ہیں۔اس لئے کسی انصاف کی کسی گنجائش ہی
کہاں بچتی ہے۔
جب بھی انتخاب کا وقت آتا ہے بھارتیہ جنتا پارٹی کو رام مندر کی یاد ستانے
لگتی ہے۔ آئے بھی کیوں نہیں اس لئے کہ یہ منافع بخش کاروبارجو رہا ہے اس
موضوع کے سہارے وہ مرکز سمیت کئی ریاستوں میں برسراقتدار آچکی ہے۔ جب بھی
کوئی پارٹی اقتدار کا مزہ ایک بار چکھ لیتی ہے تو وہ حصول اقتدار کے لئے
کسی بھی حد تک بھی جانے کو تیار رہتی ہے اس کے سامنے نہ تو کوئی وعدے کی
حیثیت ہوتی ہے اور نہ ہی کسی قول و قرار کی اہمیت اور نہ اخلاقی اقدار کا
پاس۔ ہندوستان میں جمہوریت قائم ہوئے ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے
لیکن جمہوریت میں پاسداری، اقدار اور جمہوری روح کو سیاسی پارٹیوں نے کبھی
بھی اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ان کے سامنے صرف حصول اقتدار ہی سب سے
اہم رہا خواہ اس کے لئے انسانوں کی لاشوں سے گزرنا پڑے یا کسی فرقہ کا عرصہ
حیات تنگ کیا جائے یا اسے عملاً دوسرے درجہ کا شہری بناکر رکھ دیا جائے۔
یہاں کی سیاسی پارٹیوں کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بی جے پی نے حسب سابق
اس بار بھی لوک سبھا انتخابات کے مدنظر پھر وہی متنازعہ معاملات اٹھانے کا
فیصلہ کیا ہے جن کی انہیں اقتدار کے چھ سال کے دوران کبھی بھی یاد نہیں آئی
تھی ۔
بی جے پی نے متنازعہ رام مندر کا موضوع اٹھاکر ایک بار پھر ہندو ووٹ کو
اپنی طرف کھینچے کی کوشش کی ہے۔ 2004میں جب بی جے پی اقتدار سے بے دخل ہوئی
تھی تو اس وقت بی جے پی نے محسوس کیا تھا کہ وہ تشدداور فرقہ وارنہ خطوط پر
ملک کو تقسیم کرکے ہی اقتدار کی سیڑھی چڑھ سکتی ہے اسی لئے اس نے ہمیشہ
تشدد کی حمایت کی ہے اور اپنے بازوؤں کو تشدد کے لئے کسی نہ کسی سطح پر
تشدد ہمیشہ اکساتی رہی ہے۔ لیکن جب اقتدار میں ہوتی ہے تو بی جے پی کا لہجہ
بدل جاتا ہے اور خود سیکولر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے او ر اقتدار کا نشہ
اس قدر چڑھ جاتا ہے کہ وہ رام مندر کو بھول جاتی ہے ۔ 19گست 2003کو میں اس
وقت کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ایل کے اڈوانی نے پہلی بار واضح طور
پر کہا تھا کہ مرکز کی حکمراں بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے لئے اپنی
حکومت کی قربانی نہیں دے گی۔ وشو ہندو پریشد نے حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے
کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی بل کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموارے
کرے۔ مسٹر اڈوانی نے یہ بات صحافیوں سے حیدرآباد جاتے ہوئے کہی تھی۔ انہوں
نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ جب تک این ڈی اے اور یہاں تک کے اپوزیشن
پارٹیوں میں رام مندر کے مسئلے پر اتفاق رائے قائم نہیں ہوجاتی اس وقت بل
نہیں لایا جاسکتا۔ دوسرابیان مسٹر اڈوانی نے اس وقت دیا جب وہ اقتدار میں
نہیں تھے ۔19جون2008 کو انہوں نے اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کی وکالت
کی ۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب تیلگو زبان کی شری رام مندر نام کی
ہندی میں ڈب کی گئی ورژن کو دیکھی تھی۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ شری رام
کے وقار کے لئے پورے ہندوستان میں رام مندر کی تعمیر ہونی چاہئیے۔27 اکتوبر
2004کو مسٹر اڈوانی اسی سلسلے میں ایک اور بیان دیا تھا جس میں انہوں نے
کہا تھا کہ پارٹی ا ب بھی اجودھیا میں رام مندر بنانے کے عہد کا پابند ہے۔
یہ بیان انہوں نے اس وقت دیا جب بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل ہوئے مشکل سے
چھ مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور انہوں نے یہ بیان پارٹی کے صدر کا عہدہ
سنبھالنے کے بعد دیا تھا۔
مسلمانوں کو صرف یہی نہیں دیکھنا ہے کہ کون سا امیدوار سیکولر ہے بلکہ یہ
بھی دیکھنا ہے کہ وہ سیکولر جماعت جو مسلمانوں کے ہمنوا ہونے کا دعوی کرتی
ہے کہیں وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا آلہ کار تو نہیں۔اس موقع بہت ساری جماعت
میں میدان میں ہیں جس کو کسی شاہی امام کی حمایت حاصل ہوگی تو کسی کو کسی
اور کی لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس کا وجود بی جے پی کو فائدہ
پہونچانے کے لئے تونہیں ہے۔بی جے پی نے وہی پرانے طریقے اپنانے کا فیصلہ
کیا ہے ایسے حلقہ میں جہاں مسلم ووٹ فیصلہ کن ہوں گے وہاں کثرت سے مسلم
امیدوار کو کھڑا کیا جائے گا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ گجرات قتل عام
کا ذمہ دار نریندر مودی نے انتخاب جیتنے کے لئے گزشتہ گجرات اسمبلی
انتخابات میں میں کم از کم پچاس (50) مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا
تھا اور ان کے سارے اخراجات برداشت کئے تھے اور مسلمان اس سے غافل رہے تھے۔
یوپی میں بھی یہی ہونے والا ہے۔ ایک پارٹی جس کے بڑے بڑے اشتہارات نظر آرہے
ہیں اور وہ مسلمانوں کی پارٹی بھی ہے ‘کو کھڑا کرنے میں بی جے پی کا بہت
بڑا رول رہا ہے۔بی جے پی اس کے توسط میں انتخابات میں سارے سیٹوں پر مسلم
امیدواروں کو کھڑا کرانے کی کوشش کی ہے جس سے کہ بی جے پی کو اپنی عزت
بچانے کا موقع مل جائے۔بی جے پی اس بار جہاں ملکی ذرائع ابلاغ، سوشل میڈیا
اور دیگر ذرائع پر قبضہ کررکھا ہے وہیں انہوں نے سابق بیوروکریٹ کے سہارے
اپنی کشتی پار لگانے کی کوشش کی ہے اور یکے بعد لوک سبھا انتخابات کے موقع
پر سابق نوکر شاہوں کی کتاب کا ریلیز ہونا جس میں صرف ایک پارٹی کو نشانہ
بنایاگیا ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ بی جے پی کی تیاری کس قدر منصوبہ بند ہے۔
اس بار بھی سب سے زیادہ زور مسلم ووٹوں کی تقسیم پر ہی ہے۔اب تک ہونے والے
لوک سبھا انتخابات کے کئی مرحلوں کی پولنگ سے جو خبریں چھن کر آرہی ہیں وہ
اس بات کی طرف سے اشارہ کرتی ہیں کہ سیکولر ووٹوں کی تقسیم بڑے پیمانے پر
ہورہی ہے اور مسلمانوں کو شک و شبہ میں مبتلا کرنے کے لئے کئی حربے استعمال
کئے جارہے ہیں۔ اس الیکشن کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کانگریس نے پوری
طرح ہتھیار ڈال دیا ہے۔ اس طرح کے حالات کا کانگریس کو کئی سال پہلے سے تھا
خصوصاگزشتہ پانچ اسمبلی انتخابات کے موقع پر شکست فاش سے وہ سبق سیکھ سکتی
تھی لیکن اس نے اس پر کبھی غور نہیں کیا بلکہ یہ سوچ لیا ہے کہ 2014کانگریس
کے لئے نہیں ہے۔ اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ تیسرے محاذ کی حکومت بنادی جائے
اور وہ حکومت مختلف بوجھ سے دو تین برسوں میں خود بخود گرجائے گی اور اس کے
بعد ہونے والے الیکشن میں کانگریس اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آجائے گی۔
ان لوک سبھا انتخابات میں کس پارٹی کو ووٹ دینا اور کس کو نہیں ، یہ فیصلہ
کرنے سے پہلے یہ اچھی طرح ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ملک میں سماج وادی
پارٹی، بی ایس پی کی یا کسی دیگر کی مدد سے کانگریس برسراقتدار آئے گی یا
بی جے پی ،ملک کے ہندوؤں کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن مسلمانوں کو اس سے بہت
فرق پڑتا ہے کہ کون سی پارٹی برسراقتدار آرہی ہے۔ ان کی ذرا سی بھول پانچ
برس ہی نہیں ایک لمبا عرصہ تک ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔ مسلمانوں کو یہ
بھی سوچنا چاہئے کہ برادران وطن کے کام کے لئے ادنی سے اعلی سطح تک کے
افسران موجود ہیں لیکن مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں سوچنے کے لئے
کوئی نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں ملک کے مسلمانوں کی نظر انتخاب انہیں
امیدواروں پر جانی چاہئے جن کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ہو۔ جو
مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہوں ۔سارے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے خاص طور پر
ان مسلمانوں کی جن میں علماء، صلحاء، مشائخ، دانشور، لیکچرر، پروفیسر،
اساتذہ اور مختلف شعہبائے حیات سے وابستہ ہر وہ افراد جو گلی محلے سے لے
کربلاک، ضلع، ریاست اور ملک میں اپنا کچھ بھی اثرو رسوخ رکھتے ہوں ، ان پر
فرض عین ہے کہ وہ اس میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لئے تیار
ہوجائیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں ہے کہ آپ کسی پارٹی کی مخالفت یا
حق میں خم ٹھوک کر میدان میں انتخابات میں کود پڑیں بلکہ وہ حضرات اس بات
کی کوشش کریں کہ مسلمانوں کا ووٹ تقسیم نہ ہو۔ کیوں کہ مسلمانوں کے ووٹ
تقسیم کرنے کی سازش تیار کی جاچکی ہے، مہرے ، پیادے اور کارندے تیار ہوچکے
ہیں جو آپ کو خوشنما خواب دکھاکر آپ کے ووٹ کو بانٹنے کی تگ و دو میں لگ
گئے ہیں۔ ایسے خوبصورت اور مذہبی لباس میں آر ایس ایس کے نمائندے آپ کے
سامنے پیش ہورہے ہیں جو بات تو کریں گے اتحاد و اتفاق کی، مسلمانوں کی ترقی
اور فلاح بہبود کی، مسلمانوں کی یک لخت حالت بدلنے کی لیکن سچ وہ آپ کی
بھلائی نہیں آ پ کے ووٹ کو پارہ پارہ کرکے بھارتیہ جنتا پارٹی کے کام کو
آسان بنانے کے لئے میدان میں ہیں۔ اس بارملک میں جس طرح کا سیاسی کھیل بی
جے پی کھلم کھلا کھیل رہی ہے اس کا احساس عام لوگوں کو تو کیا میدان میں
سیاست بہت سے آزمودہ کھلاڑیوں کو بھی نہیں ہے۔ وہ صرف نام نہاد کامیابی کے
غبارے پر سوار ہیں اور زعم ہے کہ اس کی حمایت کے بغیر کسی پارٹی کی حکومت
نہیں بنے گی۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں اعظم گڑھ کا واقعہ سامنے ہے
جہاں بی جے پی آج تک وہاں کامیابی نہیں ملی تھی وہ صرف ووٹوں کی تقسیم کے
سہارے اعظم گڑھ کو فتح کرنے میں کامیاب رہی۔ اسی پارٹی اور اس کے میڈیا
کارندے نے اعظم گڑھ کو ’’آتنگ گڑھ‘‘ کہہ کر بدنام کیا تھا۔ نئی اور پرانی
سیاسی پارٹیوں کی چال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کو خود طے کرنا ہے
کہ انہیں خوف و دہشت ، ذلت، بدنامی اور مجبوری کی زندگی پسند ہے یا عزت کی۔
اگر عزت کی زندگی پسند ہے تو انہیں اس کا مظاہرہ کرنا ہوگا ورنہ اس کا
خمیازہ اگلے پانچ سال تک بھگتنا پڑے گا۔ہر پانچ سال کے بعد مسلمانوں کوحساب
چکانے کا موقع ملتا ہے اگر یہ بھی چند کے عوض ذاتی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ
گیا تو پھر شکایت کرنے کے لئے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ ملک کے
مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اپنے ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچائیں۔ اسی کے
ساتھ تمام ذی ہوش مسلمانوں (جن میں علماء اور مسٹر دونوں شامل ہیں) کی ذمہ
داری ہے وہ اپنے چھوٹے موٹے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں کے
مجموعی مفادات کے بارے میں سوچیں اور ان ہی امیدوار کی حمایت کریں جو
مسلمانوں کے لئے کام کرنے کے لئے تیار ہوں اور اپنی نمائندگی کسی طرح بھی
کم نہ ہونے دیں۔ یاد رکھئے ایک دن کی نادانی آپ کو سیکڑوں سال پیچھے چھوڑدے
گی۔ہر مسلمان ووٹ کو اپنے اوپر فرض عین قرار دیں اور فسطائی طاقتوں کو
اقتدار پر قابض نہ ہونے دیں۔ |