بھارت میں دنیا کے دوسرے سب مہنگے الیکشن ہونے جار ہے
ہیں، جن پر پانچ ارب ڈالر کے اخراجات متوقع ہیں، دنیا کی سب سے مہنگی
امریکی صدارتی مہم ہے، جس پر صرف رقم سات ارب ڈالرز شمار کی جاتی ہے۔ کہا
جارہا ہے کہ اس انتخابی مہم سے بھارت کی گرتی ہوئی معیشت کو ایک عارضی
سہارا مل سکتا ہے۔ بھارتی سیاستدانوں انتخابات کے پیشہ پانی کی طرح بہا رہے
ہیں، اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کا کہنا ہے کہ ملک کا کوئی اخبار، ٹی وی چینل،
ریڈیو اسٹیشن، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، سڑک ، گلی کوچے، محلہ ، شہر، دیہات اور
قصبہ ایسا نہیں جہاں بی جے پی اور تریندر سنگھ مودی کا ’گانا‘ نہ گایا
جارہا ہو۔اخبار نے رپورٹ میں مودی کے قریبی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ
بی جے پی نے تین ماہ کے لئے ملک بھر میں 15 ہزار ہورڈنگز کرائے پر بک کرائے
ہوئے ہیں جبکہ ایک ہورڈنگز کا ایک ماہ کا کرایہ دو سے تین لاکھ ہے جبکہ
نریمن پوائنٹ ممبئی جیسی اہم ترین لوکیشنز پران ہورڈنگز کا کرایہ بیس لاکھ
روپے ماہانہ ہے۔ مجموعی طور پر ہورڈنگز کی اشتہاری مہم پر ڈھائی کروڑ روپے
خرچ ہوئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق ملک کے 50 اہم ترین اخبارات میں چالیس دنوں تک
اشتہارات پہلے سے بک ہیں۔ الیکشن تک ہر روز کم ازکم پانچ اشتہارات شائع
ہوتے رہیں گے۔ اخباری بجٹ پانچ سو کروڑ روپے کا ہے جبکہ میگزینز میں
اشتہاری مہم پرخرچ ہونے والے 150 کروڑ روپے اس کے علاوہ ہیں۔ٹی وی کمپین پر
80 ہزار فی 30 سیکنڈ کی شرح سے اشتہارات بک کئے گئے ہیں۔ ٹی وی کا مجموعی
بجٹ آٹھ سو سے ایک ہزار کروڑ روپے تک ہے۔ ریڈیو اور انٹرنیٹ کی اشتہاری مہم
کے لئے 35 کروڑ روپے کا بجٹ مختص ہے۔ بھارت کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں
کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم
پر لاکھوں اور کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیئے ہیں۔ کچھ سیاستدان تو دنیا
کی مہنگی ترین گاڑیوں میں سوار ہو کر اپنے ووٹرز کی حمایت کے لئے گاؤں گاؤں
اور شہر شہر جا رہے ہیں۔ جبکہ ایک شخص ایسا بھی ہے جو اپنی جان جوکھوں میں
ڈال کر بالکل منفرد طریقے سے انتخابی مہم چلا رہا ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن
اس بات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے کہ اخبارات اور میڈیا میں جو خبریں پیشے دے
کر چھپوائی جاتی ہیں۔ان پر کتنی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ بھاری انتخابات میں
اخبارات میں رقم کی ادائیگی کے ساتھ خبریں شائع کرانے کا رجحان بڑھا ہے۔ اس
بارے میں علاقائی رپورٹرز کو بھی رقم ادا کی جارہی ہیں۔ اور امیدوار اپنے
مطلب کی خبریں لگوا رہے ہیں۔ بھارتی الیکشن کمیشن کے سر براہ ایس وائی
قریشی نے ایڈیٹرز گلڈ کو کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اخبارات پر نظر رکھے ہوئے
ہے، اور پیڈ خبروں کے اخراجات کو بھی مونیٹرکیا جارہا ہے۔ ایک امیدوار کے
لئے انتخابی اخراجات کی حد ستر لاکھ روپے رکھی گئی ہے، اس کے لئے اسے ایک
رجسٹر رکھنا ہوگا، جس ان تما م اخراجات کا اندراج کرنا ہوگا، کاغذات
نامزدگی وصولی کے موقع پر اس رجسٹر کی جانچ پڑتال ہوگی، اور اس کا موزانہ
مانیٹرنگ کمیٹی کے رجسٹر سے کیا جائے گا، جو اس کا علیحدہ ریکارڈ رکھ رہی
ہے، کوئی امیدوار بیس ہزار روپے سے زائد کی ادائیگی، چیک یا بنک ڈرافٹ کے
بغیر نہیں کرسکتا۔
بھارتی انتخابی مہم میں نوٹوں سے بھر ے لفافے کے ساتھ ساتھ ملٹی ملین ڈالر
اشتھاراتی مہمات بھی شامل ہیں۔ سنیٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کے مطابق بھارت میں
انتخابی مہم خرچ کا اندازہ 300 ارب روپے ($ 4.9 ارب ) میں اندازہ لگایا گیا
ہے .گزشتہ سال ملک بھر میں ریلیوں اور ایڈورٹائزنگ شروع کرنے والے متوقع
وزیر اعظم ، نریندر مودی نے ایک سال پہلے ہی سے ایڈورٹائزنگ اور ریلیوں میں
روپے پیشے کی ریل پیل سے اپنی انتخانی مہم کا آغاز کیا تھا، کہا جارہا ہے
کہ اس بار ہونے والے اخراجات 2009 میں ہونے والے انتخابی خرچ سے تین گنا
زیادہ ہوں گے۔ اس انتخابی مہم کے اخراجات 1980s کے بعد سے طویل معاشی بحران
کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن اور دوسرے آزاد
ذرائع اس کھوج میں ہیں کہ یہ رقم کہاں سے آ رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ
امیدوار کی مہم اور بھارت میں پارٹی فنڈنگ کے ذرائع مبہم ہیں اور اخراجات
کی زیادہ سے زیادہ حد کے ذریعہ کا پتہ لگانے کے لئے مشکل کا سامنا ہے
،گزشتہ بھارتی انتخابات پر خرچ نے ملک میں ایڈورٹائزینگ بزنس، میڈیا گروپ ،
موٹر سائیکل مینوفیکچررز اور Brewers کے کاروبار کو وسعت دی تھی۔ صارفین پر
مبنی فرموں ، اور اشتھاری آمدنی سے بہت سے میڈیا گروپوں اور مشتھرین کے
کاروبار نے فائدہ اٹھایا تھا۔بھارت کی اشتہار بازی کی صنعت کی سب سے بڑی
ایجنسی ، میڈیسن میڈیا کے ایک اندازے کے مطابق ، انتخابات کے موسم کے دوران
ایڈورٹائزینگ میں 800 ملین ڈالر کی رقم آنے کی امید ہے .بھارت میں امیدوار
ووٹ خرید نے کے لئے نت نئے انداز اپنا رہے ہیں۔ اس میں ایک طریقہ اخبارات
میں چھپی ہوئی نقد رقم کے لفافے ہیں۔ بہت سے حلقے یہ بھی الزام لگا رہے ہیں
کہ اس مہم میں خرچ کی جانے والی زیادہ تر رقم فروغ پذیر سیاہ معیشت کا حصہ
ہیں۔ قواعد امیدواروں کو اپنی مہم پر ستر لاکھ روپے خرچ کرنے کی اجازت دیتے
ہیں . لیکن پارلیمنٹ کی نشست کی اصل لاگت 70 لاکھ سے کہیں زیادہ تصور کی
جاتی ہے۔ جس میں ، ریلیوں ، ایندھن اور میڈیا کی مہم پر خرچ کے اخراجات
شامل ہیں۔ بھارتی سیاست دانوں کی جانب سے ووٹروں کو باقاعدگی سے ان کی
حمایت کو محفوظ کرنے کے لئے نقد ادائیگی یا شراب کی رشوت دی جارہی ہے۔
حالیہ ریاستی انتخابات میں امیدوار موبائل فون کے کریڈٹ اور صبح کے اخبارات
میں نقد رقم کے لفافے کے ذریعے ووٹروں کو پیسے بھیج رہے ہیں۔ گزشتہ انتخابی
مہم میں ہیلی کاپٹر ، دودھ ٹرک اور یہاں تک کہ جنازہ وین کے ذریعے بھی رقوم
بانٹی گئی تھی۔ ووٹ خریدنے کے ثبوت کے باوجود ، بھارت کے انتخابات کو بڑی
حد تک آزاد اور شفاف قرار دیا جاتا ہے۔ بھاری اخراجات اور نتائج کو متاثر
کرنے کے لئے غیر قانونی فنڈز کے استعمال اور " پیسے کی طاقت " کے بارے میں
بھارتی چیف الیکشن کمشنر فکر مند نظر آتے ہیں۔ لیکن اب تک وہ اس بارے میں
کوئی لائحہ عمل نہیں بنا سکے جس سے اس کا سدباب ہوسکے۔ بی جے پی ان اخراجات
کو اپنے حامیوں کی دریا دلی قرار دیتی ہے۔ مودی نے فنڈ ریزنگ کے ذریعے ایک
نئی جہت دی ہے۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی ، یا بی جے پی ، بی جے
پی کمزور ہے اور ماضی میں پیسہ خرچ سے گریز کیا ہے ۔مودی کی بی جے پی کی
زیر قیادت اتحادی رائے کے انتخابات میں حکمران کانگریس پارٹی ایک مضبوط
قیادت ہے ، لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک مکمل اکثریت حاصل کرنے کا امکان
نہیں ہے .مودی کی فنڈ ریزنگ کے لئے لندن میں سٹی بینک کے ایک سابق سرمایہ
کاری بینکر سمیت سات رکنی ٹیم نے مہم کا آغاز کا تھا۔ اس ٹیم نے بھارت میں
ایک آن لائن فنڈ جمع کرنے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔ اب ہانگ کانگ اور
سنگاپور میں رہنے والے امیر بھارتیوں کی طرف سے عطیات کو نشانہ بنایا جارہا
ہے ۔ بھارت کا شمار دنیا کے غریب ممالک میں کیا جاتا ہے لیکن اس حقیقت کے
باوجود امیدواروں نے اپنی اپنی انتخابی مہم پر لاکھوں اور کروڑوں روپے پانی
کی طرح بہا دیئے ہیں۔ کچھ سیاستدان تو دنیا کی مہنگی ترین گاڑیوں میں سوار
ہو کر اپنے ووٹرز کی حمایت کے لئے گاؤں گاؤں اور شہر شہر جا رہے ہیں۔ جبکہ
ایک شخص ایسا بھی ہے جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بالکل منفرد طریقے سے
انتخابی مہم چلا رہا ہے۔انڈین اسپائیڈر مین اس شخص کا نام ہے گورو شرما۔
اسے ممبئی باسی ’انڈین اسپائیڈر مین‘ بھی کہتے ہیں۔ ’آئی بی این لائیو‘ کے
مطابق گورو آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑ رہے ہیں اور انہوں نے اپنی
مہم کو منفرد بنانے کے لئے گھر گھر جانے کے بجائے عمارت در عمارت چڑھ چڑھ
کر لوگوں کو پمفلٹس پہنچانے کا طریقہ اپنایا ہے۔۔باقی سارے امیدوار ووٹرز
کو رجھانے کے لئے ان کے دروازے تک پہنچ رہے ہیں تو گوروشرما دیواریں
پھاندتے، چھتیں پھلانگتے اور دوڑتے بھاگتے ووٹرز تک پہنچ رہے ہیں۔بی ایم
ڈبلیو، آڈی، جیگوار، مرسیڈیز، ہمر، شیورلیٹ وغیرہ دنیا کی انتہائی مہنگی
کاریں ہیں۔ ایک’ عام امیر‘ بھی ان میں سفر کرنے کو مہنگا خیال کرتا ہے لیکن
بھارت میں غریبی کی مقررہ لکیر سے بھی نیچے رہنے والے عام آدمی کے نمائندے
ہونے کا دعویٰ کرنے والے انگنت افراد ایسے ہیں جو ناصرف ایسی کئی کئی
گاڑیوں کے مالک ہیں بلکہ وہ انہی مہنگی ترین گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنی
انتخابی مہم چلارہے ہیں۔’این ڈی ٹی وی‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امرتسر سے بی
جے پی کے امیدوار ارون جیٹلی پیشے سے وکیل ہیں جبکہ مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو،
ہنڈا ایکورڈ اور پورشے جیسی کاریں ان کی ملکیت میں ہیں لیکن حلف نامے میں
انہوں نے خود کو صرف ایک ’ہنڈا‘ کار کا مالک دکھایا ہے۔بی جے پی کا ہی ایک
اور امیدوار منوج تیواری جو دہلی کے ایک علاقے سے انتخابات لڑرہا ہے اس کے
پاس آڈی کیو سیون، مرسیڈیز بینز، فورچیونر اور ہنڈا سٹی جی ایکس آئی کے
بیٹرے کا مالک ہے۔اداکاری سے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والی ہیما مالنی
مرسیڈیز، ٹویوٹا، رینج روور اور ماروتی کی مالک ہیں۔ اسی طرح ناگپور کی رکن
پارلیمنٹ کانگریس کی جیوتی میردھاریاست راجستھان کی سب سے امیر خاتون ہیں،
ان کے پاس بھی مرسیڈیز گاڑیوں کا ایک بیٹرہ موجود ہے۔ہریانہ جن ہت پارٹی کے
سربراہ کلدیپ بشنوئے پانچ مہنگی ترین گاڑیوں کے مالک ہیں۔ سابق کرکٹر محمد
اظہر الدین کے پاس بھی ایک دو نہیں کئی مہنگی ترین گاڑیاں موجود ہیں۔ان کے
علاوہ بھی سینکڑوں امیدوار ایسے ہیں جو انتہائی مہنگی گاڑیوں کے مالک ہیں۔
ان کی قیمتیں عام آدمی کے کئی کئی سال کے بجٹ سے بھی بڑھ کر ہیں۔ ایسی
گاڑیوں میں بیٹھنے کا خواب بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں، استعمال کرنا
تو دور کی بات ہے۔ انتخابات میں پانچ ہزار کروڑ کی اشتہاری مہم کا بھی چرچا
ہے۔چار انتخابی مراحل طے ہو جانے کے ساتھ ساتھ بھارت میں انتخابی مہم زور و
شور سے جاری ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی مہم باقی سب پر برتری لے جانے
میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس مہم پر بی جے پی نے مجموعی طور پر پانچ ہزار کروڑ
روپے خرچ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔فضائی صنعت کے ماہرین کے مطابق، اس رپورٹ کی
تیاری تک سب سے زیادہ سفر بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی نے کئے۔ ان کے
بعد نمبر آتا ہے کانگریسی رہنما اور وائس پریذیڈنٹ راہول گاندھی کا۔طیارے
اور ہیلی کاپٹر کرائے پر دینے والی کمپنیاں عام دنوں میں چار نشستوں اور
ایک انجن والے ہیلی کاپٹر کا فی گھنٹہ کرایہ 70 ہزار سے 75 ہزار تک وصول
کرتی ہیں، جبکہ بزنس جیٹ طیاروں کے نرخ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ روپے فی
گھنٹہ ہیں۔ لیکن، الیکشن کے دوران ڈیمانڈ میں اضافے کے ساتھ ہی نرخوں میں
بھی اضافہ ہوگیا ہے۔بزنس ائیرکرافٹ آپریٹرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری آر کے
بالی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران، ہوائی صنعت کا خسارہ 2 فی
صدتک پہنچ گیا تھا۔ لیکن، انتخابی مہم میں طیاروں اور ہیلی کاپٹرز کے بڑھتے
ہوئے استعمال نے نہ صرف خسارہ پورا کردیا ہے بلکہ صنعت ایک مرتبہ پھر مثبت
زون میں داخل ہوگئی ہے۔ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن آف انڈیا کے جاری
کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت تقریباً 130 نان شیڈولڈ
ائیرکرافٹ آپریٹر ہیں، جن میں سے 40 آپریٹرز کا بزنس بڑے پیمانے پر پھیلا
ہوا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس چار سے پانچ پرائیویٹ جیٹ ہیں جو اندرون
ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ملک بھی سفر پر رہتے ہیں۔ مجموعی طور پر طیاروں اور
ہیلی کاپٹروں کی تعداد 520بنتی ہے۔نسبتاً کم کرائے پر سفر کی روایت ڈالنے
والی ایک نجی ائیرلائن کے کیپٹن جی آر گوپی ناتھ کا کہنا ہے کہ اتنی زیادہ
سہولیات کے باوجود مودی اور راہول گاندھی دونوں دوسو سے زائد حلقوں کا ہی
دورہ کرسکیں گے۔ بھارتی لوک سبھا کے انتخابات 9 مرحلوں میں مکمل ہوں گے۔
پولنگ کا آخری مرحلہ 12 مئی کو ہو گا جبکہ نتائج کا اعلان 16 مئی کو ہو گا۔
حالیہ انتخاب میں 81 کروڑ 40 لاکھ بھارتی شہری انتخابات میں اپنا حقِ رائے
دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں اور یہ تعداد 2009 کے الیکشن سے دس کروڑ زیادہ
ہے۔ ووٹنگ کے عمل کے لیے الیکٹرانک مشینوں کی مدد لی جا رہی ہے اور پہلی
مرتبہ رائے دہندگان کو کسی بھی امیدوار کو نہ چننے کی 'آپشن' بھی دی گئی
ہے۔ ایسے ووٹر 'ان امیداروں میں سے کوئی نہیں' والا بٹن دبا کر اپنی رائے
دے سکیں گے۔ گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس بار آسام میں علیحدگی پسند تنظیم
الفا کے کسی بھی گروہ نے نہ تو لوگوں سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل
کی ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کے خلاف کوئی بیان دیا ہے۔ آسام میں کانگریس کو
خاصا مضبوط سمجھا جاتا ہے لیکن بہت سے لوگوں کو کانگریس نے اپنے منشور میں
وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آتی ہے تو ملک میں عوامی فلاح کی
سکیمیں شروع کرے گی جن میں ہر کسی کے لیے صحتِ عامہ کی سہولیات اور بزرگ
اور معذور افراد کے لیے پینشن بھی شامل ہے۔ بی جے پی نے اب تک انتخابات کے
لیے اپنا منشور تک جاری نہیں کیا ہے لیکن وزیراعظم کے عہدے کے لیے جماعت کے
امیدوار نریندر مودی کے بہتر بنیادی ڈھانچے، مضبوط قیادت، روزگار کے مواقع
اور بہتر گورننس سے متعلق وعدے کیے گئے ہیں۔ اس مرتبہ بھارتی الیکشن میں
ایک نئی جماعت عام آدمی پارٹی بھی شریک ہے جس نے دہلی کی ریاستی اسمبلی کے
انتخابات میں نتائج سے سب کو حیران کر دیا تھا۔ بھارت کی پارلیمان کا
ایوانِ زیریں یا لوک سبھا 543 نشستوں پر مشتمل ہے اور کسی بھی جماعت یا
اتحاد کو حکومت بنانے کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہوں گی ۔ اخراجات
میں اضافے کا یک سبب یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ بھارتی تاریخ کے طویل
ترین یعنی 9 مراحل پر مشتمل الیکشن ہونگے۔بھارتی الیکشن کمیشن کے اندازوں
کے مطابق انتخابی اخراجات کی مد میں 35 ارب روپے خرچ ہوں گے جبکہ توقع ہے
کہ سیاسی پارٹیاں اور انتخابی امیدوار 3کھرب 5 ارب روپے الیکشن مہم پر خرچ
کرینگے۔ اس حساب سے یہ بھارتی انتخابات دنیا کے مہنگے ترین انتخابات ہونگے
جن میں گزشتہ انتخابات میں خرچ ہونیوالی رقم سے 3 گنا زائد رقم خرچ ہو گی ۔
ان انتخابات میں بھی اصلی حریف انڈین نیشنل کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی
ہیں۔ موجودہ بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ آئندہ وزارت عظمیٰ کا الیکشن نہ
لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اسی طرح کانگریس کے انتخابی مہم کی قیادت راجیو
گاندھی کے بیٹے اور اندرا گاندھی کے پوتے راہول گاندھی کر رہے ہیں ،ادھر بی
جے پی نے گجرات میں ہونیوالے مسلم کش فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام سے
شہرت پانیوالے نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کر رکھا
ہے،بھارت کی ریاستی حکومتوں پر نظر دورائی جائے تو اس وقت 28 ریاستوں اور 2
وفاق کے زیر انتظام علاقوں پانڈے چری اور دہلی میں سے 11 ریاستوں میں انڈین
نیشنل کانگریس کی حکومت ہے اور یہاں کانگریس سے تعلق رکھنے والے وزرا اعلیٰ
برسراقتدار ہیں۔ ان ریاستوں میں آسام، ہریانہ، ہماچل پردیش، کرناٹکہ،
کیرالا، مہاراشٹر، منی پور، مٹیگھالے، میزورام اور اتلا کھنڈ شامل ہیں جبکہ
بھارت کی 5 ریاستوں چھتیس گڑھ، گووا، گجرات، مدھیا پردیش اور راجستھان میں
بھارتیہ جنتا پارٹی کی صوبائی حکومتیں ہیں۔ بھارت کے سب کے بڑے صوبے اتر
پردیش جس میں لوک سبھا کی سب سے زیاہ سیٹیں ہیں وہاں سماج وادی پارٹی کی
حکومت ہے، بھارت کی موجودہ یعنی 15 ویں لوک سبھا پر نظر ڈالی جائے تو اس
میں انڈین نیشنل کانگریس کی 200، بھارتی جنتا پارٹی کی 112، بھوجن سماج
پارٹی کی 21، سماج وادی پارٹی کی 21، جنتا دل کی 19، آل انڈیا ترنمول
کانگریس کی 18، ڈی ایم کے کی 18، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی 16، بھجوجنتا
دل کی 14، شیو سیناکی 10، آل انڈیا انا ڈی ایم کے کی 9، نیشنلسٹ کانگریس
پارٹی کی 8، آزاد امیدواروں کی تعداد10، تلکو دیشم پارٹی کی 6، راشٹریہ لوک
دل کی5، سی پی آئی کی 4، شرمنی اکالی دل کی 4، جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کی
3، راشٹریہ جنتا دل کی 3، آل انڈیا فارورڈ بلاک کی 2، انڈین یونین مسلم لیگ
کی 2، جھار کھنڈمکتی مورچہ کی 2، جھار کھنڈ بکھاس مورچہ2، ریوولوشنری
سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی) کی 2 نشستیں ہیں۔بھارتی انتخابات میں جو ریاستیں
اہم کردار ادا کرتی ہیں ان میں آندھرا پردیش، بہار، گجرات، کرناٹکہ،
مدھیاپردیش، مہارا شٹر، تامل ناڈو، اتر پردیش اور مغربی بنگال شامل
ہیں۔چونکہ لوک سبھا کی سب سے زیادہ نشستیں اتر پردیش میں ہیں جن کی تعداد
86 ہے جبکہ اندھرا پردیش میں 25، بہار میں 55 مدھیہ پردیش میں 29،
مہاراشٹرمیں 45، مغربی بنگال میں 34لوک سبھا کی سیٹیں ہیں۔ بی جے پی کے
انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندرا مودی کا تعلق گجرات سے ہے اور
اس وقت وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ گجرات میں لوک سبھا کی 22 سیٹیں ہیں۔
انڈین نیشنل کانگریس کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار اور کانگریس کی انتخابی مہم
کے سربراہ راہول گاندھی امیٹھی سے الیکشن لڑ رہے ہیں جو ان کی آبائی سیٹ ہے
جس پر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی الیکشن لڑتے رہے ہیں۔اتر پردیش میں
واقع یہ حلقہ اس بار بھی خصوصی توجہ کا مرکز ہو گاکیونکہ بی جے پی راہول
گاندھی کے مقابلے میں سمریتی ایرانی کو ان کے مقابلے میں اتارا ہے ۔وہ
بھارتیہ جنتا پارٹی کی نائب صدر بھی ہیں۔سمریتی سابقہ ماڈل، معروف ٹیلی
ویڑن اداکارہ اور پروڈیوسرہیں جو ایک این جی او چلا رہی ہیں جو غریب لوگوں
کو پینے کا صاف پانی مہیا کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مہنگے الیکشن کا
نجام کیا ہوتا ہے۔ |