نارووال پاکستان کے صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے ۔ یہ شہر
پنجاب کے شمال مشرق میں واقعہ ہے۔ دریائے راوی کے کنارے واقع اور پاک بھارت
سرحد سے صرف ساڑھے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مشہور شہروں نارووال اور
شکرگڑھ میں شامل ہیں۔ آبادی تقریباً 18لاکھ ہے۔ ضلع نارووال میں عمومی طور
پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں۔ اس کا رقبہ 2337 مربع کلومیٹر ہے
۔اسے انتظامی طور پر تین تحصیلوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ تحصیل نارووال میں
39 یونین کونسلیں جبکہ شکر گڑھ میں 35 یونین کونسلیں ہیں۔
کئی سالوں سے نارووال کو قلعہ احمدآباد کے مقام سے گزرنے والے نالہ ڈیک سے
بھی کافی شہرت حاصل ہے۔ جہاں سے ہرسال سیلابی ریلے گزرتے ہیں جس سے لاکھوں
افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اربوں روپے کی فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ درجنوں لوگ زندگی
کی بازی ہار جاتے ہیں۔ جبکہ حکمرانوں کو ہیلی کاپٹروں پر علاقے کی سیر کرنے
کا بھی موقع ملتا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ کے لیڈر احسن اقبال کی ذاتی کرپشن اوراپنے بھائیوں کو
غیرقانونی فائدے پنجاب حکومت سے لے کر پہنچانے پر مبنی رپورٹ The Don of
Narowal کے عنوان سے لاہور سے عارف نظامی کی زیرادارت چھپنے والے انگریزی
روزنامے پاکستان ٹوڈے نے چھاپی تھی۔ جب معروف کالم نگار ہارون الرشید نے اس
سننسی خیز سٹوری کا حوالہ اپنے ’’جنگ‘‘ کے ایک کالم میں دیا تو حیرانی کی
بات ہے یہ کہ فوری طور پر یہ سٹوری پاکستان ٹوڈے کی ویب سائٹ سے ہٹا لی گئی
تاکہ دنیا بھر کے قارئین اس نیٹ پر نہ پڑھ سکیں۔
’’ رپورٹ یاسر حبیب کی تھی ‘‘ یہ رپورٹ2011ء میں شائع کی گئی جس کے پاکستان
مسلم لیگ کے سینئر راہنماء جو نارووال کے حلقہ این اے 117 سے تعلق رکھتے
ہیں، اپنے علاقے میں ایک ’’ڈان‘‘ کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ان کے
اس غیرشریفانہ کردار نے ان کی اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے
جو ان کی ’’غنڈہ گردی‘‘ اور بھائیوں کے لیے اقربا پروری سے بہت تنگ ہیں۔
احسن اقبال اور ان کے رشتہ داروں کے خلاف لاہور پریس کلب میں ہونے والے ایک
مظاہرے میں ساٹھ سالہ عبدالغنی کی موت جس کا تعلق ڈھوک چک بس اڈا نارووال
سے تھا، کی وجہ سے پہلے ہی عوام میں بہت غصہ پایا جاتا ہے ۔ تاہم اس کے
باوجود مسلم لیگ نواز پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ
احسن اقبال کو ان کی پنجاب میں حکومت کرنے والی پارٹی نے یہ لائسنس دیا ہوا
ہے کہ وہ ان کی حمایت سے جو چاہیں کرتے رہیں۔
پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ذرائع نے یہ انکشاف کیا ہے کہ احسن اقبال نے
نارروال میں اپنی حکومت قائم کر لی ہے جہاں سے وہ تین دفعہ الیکشن جیت کر
رکن پارلیمنٹ بن چکے ہیں اور انہیں جتانے میں ان کی والدہ آپا نثار فاطمہ
کے رشتہ داروں رانا رمضان اور رانا افضل نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کو احسن اقبال اور ان کے رشتہ داروں کے بارے میں بہت
ساری شکایتں موصول ہوئیں جن میں کہا گیا تھا وہ سب ڈرگز اور انسانی سمگلنگ
میں ملوث ہیں اور اس کے علاوہ لوگوں سے بھتہ بھی وصول کرتے ہیں۔ ان کے
بیشتر رشتہ دار اپنے آپ کو ایم این اے یا ایم پی اے سے کم نہیں سمجھتے اور
جوان کی بات نہیں مانتے، انہیں ہراساں کرنے کے علاوہ اغوا ، قتل بھی کیا جا
سکتا ہے ۔
ایڈووکیٹ احسن اختر، جو کہ احسن اقبال کے رشتہ داروں کے خلاف عدالت میں ایک
کیس لڑ رہے ہیں نے ’پاکستان ٹوڈے ‘ کو بتایا کہ احسن اقبال حکومت میں اپنا
اثر و رسوخ استعمال کر کے کروڑوں روپے کے کنٹریکٹ لے کر اپنے کزنز کو دیتے
رہتے ہیں۔ ان کے رشتہ دار بہت مال بنا رہے ہیں اور اس کے علاوہ اپنی مرضی
کے ٹرانسفر اور پوسٹنگ بھی کراتے ہیں۔
احسن اقبال اس کے علاوہ اپنی دور طالبعلمی سے ایک بدنام زمانہ مائیگریشن
کیس کے حوالے سے بھی خبروں میں رہے ہیں۔ احسن اقبال نے ٹیکسلا انجینئرنگ
یونیورسٹی سے لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں تبدیلی کے لیے سیاسی
اثرورسوخ استعمال کیا تھا۔ گیارہ مئی 1978ء (جنرل ضیاء کا دور جس میں احسن
اقبال کی والدہ آپا نثار فاطمہ فوجی آمر کے بہت قریب سمجھی جاتی تھیں) کے
سینڈیکٹ اجلاس کے منٹس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان دو یونیورسٹیوں کے
درمیان اس طرح کے کسی طالب علم کو تبادلہ کرانے کی کوئی گنجائش نہیں تھی
کیونکہ طالب علم ان دو اداروں میں میرٹ پر داخل ہوتے تھے۔ تاہم سینڈیکٹ نے
احسن اقبال رجسٹریشن نمبر 76-UCET-18 کو ٹیکسلا سے لاہور یونیورسٹی تبادلے
کی اجازت دے تھی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق احسن اقبال اپنی سازشوں
کی وجہ سے بھی بہت مشہور تھے۔ جب نوازشریف جلاوطنی کاٹ رہے تھے تو وہ سازش
کر کے پارٹی کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری بن گئے۔ صدیق الفاروق کو پارٹی کا
انفارمیشن سیکرٹری بنانے تک کا نوٹیفیکشن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔ تاہم
احسن اقبال نے سابق ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی جعفر اقبال گجر کے ساتھ مل کر
یہ سازش تیار کی اور نواز شریف کو ذہن بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اپنے بدتمیزانہ اندار گفتگو کی وجہ سے ان کا اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کے
ساتھ تعلق کوئی اچھا نہیں ہے ۔ وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ذہانت،
پروفیشنل ازم اور تعلیم میں بہت بہتر سمجھتے ہیں، لہذا وہ کسی کو خاطر میں
نہیں لاتے اور سولو فلائٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز کے ایک لیڈر نے
بتایا کہ احسن اقبال نے اپنے چھوٹے بھائی مجتبیٰ جمال کو پنجاب حکومت کے
لیگل پینل پر ایڈجسٹ کرایا۔ مجتبیٰ احسن جیل کمیٹی کے رکن ہیں۔ جیل سے
متعلقہ تمام تر قانونی کارروائیاں، کیسز جو ہوتے ہیں، وہ ان کے ہاتھوں سے
ہو کر عدالتوں میں جاتے ہیں اور موصوف دونوں ہاتھوں سے مال کما رہے ہیں۔
احسن اقبال نے اپنے ایک اور بھائی مصطفیٰ کمال کو وزیراعلیٰ کی ٹاسک فورس
برائے پارکس اور ہارٹی کلچر ل کا چیئرمین بنوا رکھا ہے ۔ مصطفیٰ کے خلاف اس
وقت ایک انکوائری بھی ہو چکی ہے کہ وہ اپنے اس عہدے کو اپنے کاروبار کے لیے
استمعال کر رہے ہیں۔ (موصوف کسی دور میں اس ادارے کو پھول فراہم کرتے تھے
اور اب اس کے باس بن بیٹھے تھے)۔ پتہ یہ چلا کہ مصطفیٰ کو ہرگز ہارٹی کلچر
کا کوئی علم نہیں کہ اسے اس عہدے پر فائز کیا جاتا جو ویسے ایک ٹیکنوکریٹ
کے لیے مختص ہے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ مصطفےٰ پچھلے دور حکومت میں پنجاب
ہارٹی کلچرل اتھارٹی کے ساتھ بہت ساری بزنس ٹرانزنکشن میں ملوث پائے گئے
تھے ۔ وہ ہارٹری گروپ، پلانٹ سپیس اور پلانٹ کیئر جیسی فرمز بھی چلاتے رہے
جو پی ایچ اے کو پھول پودے فراہم کیا کرتی تھیں۔ ذرائع کے مطابق احسن اقبال
کو خوش کرنے کے لیے پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی نے یہ لازمی قرار دے دیا تھا
کہ ان کی فرم سے پھول پودے ضرور حاصل کیے جائیں۔
چندزوربعدخبرکی تردید کی گئی کہ Pakistan Today عارف نظامی کے پاکستان ٹوڈے
نے خبر غائب کرنے کے بعد جو وضاحت چھاپی وہ اپنی جگہ ایک اور کہانی لگتی
ہے۔ اخبار میں چھپنے والے ایک کالمی معذرت نامہ میں کہا گیا ہے کہ خبر میں
لکھے گئے بعض الزامات درست ثابت نہیں ہوئے اور خبر کی زبان بھی نامناسب
تھی۔ اس کی وضاحت نہیں کی گئی کہ کون سے الزامات غلط تھے اور کون سے درست۔
ہم نے اپنے ایک معزز قاری کی پاکستان ٹوڈے کے معذرت نامہ کی طرف توجہ دلانے
پر اس خبر کا ترجمہ آف لائن کردیا تھا، لیکن ایک بڑی تعداد میں قارئین نے
بعد میں ہم پر بھی دباؤ میں آنے کا الزام لگایا۔ چنانچہ خبر کا ترجمہ اور
پاکستان ٹوڈے کا معذرت نامہ دونوں حاضر ہیں۔ جھوٹ سچ کا فیصلہ آپ خود کر
لیں۔ نارووال کی تقدیر بدلنے والوں کا کیا حال ہے۔ |