گھر کے افرا د سلامت ہیں نہ گھر با قی ہے
شر پسندو ں میں مگر جذبہ شر با قی ہے
ایسے عالم میں بھی پر واز کی تحریک ہے کیو ں
با زؤ ں میں مرے شا ید کوئی پر با قی ہے
کو ئی طا قت تجھے مرغوب نہیں کر سکتی
تیرے دل میں اگر اﷲ کا ڈر با قی ہے
حضرت واصف علی واصف فرما تے ہیں ’’کچھ لو گ پیسے کے لیے شہرت قربان کردیتے
ہیں اور کچھ لو گ شہر ت کے لیے پیشہ قربان کردیتے ہیں ‘‘لمحہ فکریہ تو یہ
ہے کہ ہما رے معا شر ے میں بے ایمان ، بد یا نت ، دغا باز، بد عنوان ، بد
کردار ، عیبی اور بہت سی برائیو ں کا ارتکا ب کرنے والا مہذ ب ، عزت دار
اور با وقا ر سمجھا جا نے لگا ہے جبکہ اس کے بر عکس شریف النفس ، ایماندار
، دیا نتدار ، وفا شعا ر ، محنتی اور بھر پو ر صلا حیتیں رکھنے والے کو نا
پسند اور حقیر جا نا جا تا ہے ۔ یہا ں پر کسی کی قابلیت ، معزز یت اور صلا
حیت کا پیمانہ ہی دولت اور ظا ہری جا ہ وجلال ٹھہرا ۔ دو ر نہیں ماضی قریب
کی با ت ہی لے لی جا ئے تو اس با ت کا واضح ثبو ت ملتا ہے کہ تقریباََ 7
سال جیل کے اندر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر نے والا اور سزا یا فتہ
شخص نہ جا نے کتنے ہی جرائم میں ڈوبا ہو امہذ ب ترین کہلا تے ہو ئے عملی
طور پر اسلامی جمہو ریہ پاکستان کے سب سے بڑے عہدے صدر مملکت کے لا ئق قرار
پایا با ت یہا ں تک نہیں رکی بلکہ تقریبا 5 سال تک جیل میں سزا کا ٹنے والا
اور کردار و افکا ر سے ماورا سوچ کا مالک یہا ں وزیر اعظم کے عہد ے سے نواز
دیا گیا ، سینکڑوں مظلومو ں کا قاتل یہا ں بہت بڑے صو بے کا گو رنر بنا دیا
گیا ، وزرا ئے اعلیٰ سمیت وزراء اور مشیران کا معیا ر بھی عیا شی ، بد قما
شی اور روشن خیالی جیسی خو بیو ں سے وابستہ افراد کی قسمت میں ہے با زار
حسن سے بد تر اور سیا ہ معا شرہ ہما رے حکمرانوں نے عوام کو دے رکھا ہے جہا
ں پر فن اور کردار کی کوئی حثیت نہیں بلکہ ایک انسان کی قدرو قیمت اور عزت
وتعظیم کا اندازہ اسکے شہا نہ لبا س اور تز ئین و آرائش سے لگایا جا تاہے ۔
سا دگی کو پسند کرنے وا لے عجز و انکسا ری کو اپنا نے وا لے اور سچائی و
ایما نداری کو اپنا طر ہ امتیا ز بنا نے والے کو کوئی اپنا رشتہ دار بنانا
بھی پسند نہیں کرتا ہے اس وطن عزیز کی اسا س ، نظریا ت اور فکر کا جنا ز ہ
سر عام نکالا جا تا ہے۔معذرت کے ساتھ یہا ں زندو ں سے زیادہ مر نے والوں کی
قدر و قیمت ہے ۔روز ہی حوا ء کی بیٹیو ں کی عزتیں پامال ہو تی ہیں ، روز ہی
بے گنا ہو ں کے لا شے تڑپتے ہو ئے منو ں مٹی تلے اتا ر دیے جا تے ہیں ، روز
ہی ڈکیتیو ں ، چو ریو ں اور رزہزنی کے واقعات نمودار ہو تے ہیں لیکن بے حس
و بے پرواہ قوم محض خواب خرگو ش میں مبتلا ء اپنے اپنے ذا تی مفادات ، فکر
معاش اور حرس و ہوس دولت میں ڈوبی بد مست ہا تھی کی طرح اپنا وقت گزار رہی
ہے ۔ گذ شتہ روز بر اعظم ایشیا ء کے عظیم خطہ پاکستان کی سرزمین پر موجود
مشہو ر ومعروف انڈسٹری میں گیس کی چوری کا انکشا ف ہو ا تو ہر کوئی ذی
شعورآدمی حیرت و حیرانی کا اظہا ر کرتا ہوا دکھائی دیا ۔ مد تو ں بعد کسی
مخبری پر سپر ایشیاء کے ہا ں ایف آئی اے حکام اور محکمہ سوئی گیس نے مشترکہ
چھا پہ مارا تو بد نیتی اور بد گمانی رکھنے کے با وجود بھی ایف آئی اے اور
محکمہ سوئی گیس حکام نے گھنٹو ں کی ریسرچ کے بعد آخر کا رگیس چوری کا کھرا
لگا ہی لیا جو کہ محض گیس چو ری ہی نہیں بلکہ گناہ کبیرہ کا انکشاف ٹھہرا
شہر کی مہذ ب ، معزز ترین ، سرمائیہ دا ر اور عزت دا ر فیملی اﷲ کے گھر
یعنی مسجد سے غیرقانونی پا ئپ لا ئن کے زریعے گیس چو ری کرنے میں مشغول تھے
شا ید ان کے خیال میں اﷲ کے گھر کی ہر شے پر اس کے بندوں کا حق ہے اور یہا
ں سے جو تی چرانا ، ٹوٹیا ں چو رانا ، واٹر کولر سے لٹکا ہو ا گلا س چھپانا
اور اسی طرح سے گیس چورانا بھی کوئی بری با ت نہیں ۔خیر ان کی نظر میں یہ
کوئی گنا ہ یا بری با ت نہیں آخر کا ر گیس بھی تو قدرت کا انمول تحفہ ہے
اور وہ کونسی کسی حاکم یا سیاست دان یا ریا ست کی ملکیت ہے ۔ تین گیس میٹر
اتا ر لیے گئے ایک دن قبل محکمہ سوئی گیس کے عملہ نے چھا پہ ما را لیکن
انہیں کچھ بھی نہ ملا پھر دوبا رہ مخبر کے اسرار پر ایف آئی اے اور محکمہ
سو ئی گیس عملہ نے مشترکہ کا روائی میں آخر نہ چا ہتے ہو ئے بھی گیس چو ری
کا سراغ لگا لیا ۔ گیس کی یہ چو ری تقریبا 10 سال سے عمل میں لائی جا رہی
تھی جس کی مالیت 1.5 ارب کے قریب بنتی ہے لیکن اس کے بر عکس سپرایشیاء
انڈسٹری کو تقریبا 1.5 کڑوڑ تک جر ما نہ کیا گیا مسجد کے میٹر کی آڑ میں چو
ری تو ایک طرف دو سری طرف ایک اس سے بھی بڑا انکشا ف یہ ہو ا کہ انڈسٹری
مالکان کے والدین کے نام پر قائم کر دہ حاجی محمد دین اینڈ سنز ویلفئیر
ہسپتال کے سپیشل ڈو میسٹک میٹر سے بھی ایک ہیوی تر ین 1200 KV کا جنریٹر
بھی پکڑا گیا جس کے زریعہ سے پو ری انڈسٹری کو چلایا جا رہا تھا ، تین سے
چا ر ڈومیسٹک میٹر گیس چو ری کے اس گنا ؤنے جرم میں استعمال میں لا ئے جا
رہے تھے جن کے زریعہ سے ڈا ئر یکٹ لائن سے ریگو لیٹر کے زریعہ سے پر یشر ان
ہا نس کرنے کے بعد انڈسٹری کی مشینری کو بڑی آسا نی سے چلا یا جا رہا تھا
جس میں 2 عدد بھٹیا ں ، 3 عدد فرنسز ، 1 عدد ہیوی بو ائلر ، 3 سے 4 عدد
مولڈ نگ مشینیں اور دیگر ز ضروریا ت کی مشینری چلائی جا رہی تھی انڈسٹری کا
حقیقی دا رو مدار اسی گیس کی چو ری پر منحصر تھا جسے قدرت نے عیا ں کر دیا
ورنہ اتنے بڑے جاہ جلال کے مالک انڈسٹری مالکان کے خلا ف چلنے کی اور انہیں
منظر عام پرلا نے کی جسا رت بھلا کو ن کرسکتا تھا ۔ سپر ایشیاء انڈسٹری پر
ایف آئی اے نے ایک ایف آئی آر بھی درج کی FIR # 124/14 دفعہ U/S 406 ,
462-C, 420 , 34,109PPC لیکن اس کے با وجود بھی پیسے کی چمک دھمک نے ایک
وفا قی ادارہ کو ملزمان کو گرفتا ر کرنے کی اجا ز ت نہ دی ۔ محکمہ سوئی گیس
کے آفیسر انجنیئر آپریشن را نا امتیا ز علی ، انجنیئر ڈسٹری بیو شن وقا ص
خاں اور تفتیشی ایف آئی اے سب انسپکٹر جا وید اقبال گھمن کا کردار بڑا رو
شن ، مثبت اور اہم رہا ہے ۔ لیکن جب مرکزی سطح پر مک مکا پالیسی لا نچ کی
جا ئے گی تو ما تحت آفیسران کہا ں تک جنگ لڑ سکتے ہیں ۔اے ڈی FIA رانا خرم
اور ایس ایچ او شاہد پر ویز نے ملزم پارٹی سے کامیاب ڈیل کر کے کیس ختم
کروانے کے عزم کاا عادہ کیا ہے ۔انڈسٹری کے جن مالکا ن اور انتظامیہ پر ایف
آئی آر درج کی گئی ہے ان میں شامل پاکستان تحریک انصا ف این اے 95 کے ٹکٹ
ہولڈر بیر سٹر علی اشرف مغل بھی شامل ہیں جو نما ئندے ہیں اس پاکستان تحریک
انصا ف کے جو عدل و انصا ف اور انقلابی تبدیلیو ں کی علمبردار ہے تو کیا
کوئی جما عت کے سربراہ سے پو چھ سکتا ہے کہ جناب عمران کیا گیس چو ر و ں ،
قا تلو ں ، بد عنوا نو ں اور ملکی خزانے کو نقصا ن پہنچا نے والو ں کے
زریعہ سے آپ کیسی تبدیلی اور انقلاب لانا چا ہتا ہے؟ کیا ہی درست ہو تا کہ
انصا ف کا بول بالا دکھائی دیتا کہ پہلے دن گیس چو ری میں ملوث ہو نے پر
اپنی جگہ ضلعی صدارت کے امیدوار بن کر بیٹھے سرمائیہ دار علی اشرف مغل کو
اسی وقت پا رٹی سے فا رغ کر دیا جا تا اور پاکستان تحریک انصا ف کے ترجمان
اور صوبائی صدر اس کی تصدیق کر دیتے لیکن یہا ں تو سوچنا پڑے گا کہ ایک
مستحکم سرمائیہ دار عہدیدار کو پا رٹی سے فا رغ کرنے سے پیسے کہا ں سے آئیں
گے؟ اور بے پنا ہ فنڈ ز کا بندو بست کیسے ہو گا؟ کچھ سیاست دان بیرونی طا
قتو ں کے ہا تھو ں یر غما ل ہو ئے ہیں معا شی پریشانی کے با عث اور بچے کچے
فکر معاش حرص و ہوس زر میں مبتلا ء اندرونی طو ر پر بھی مال کی وجہ سے مجبو
ری و محرومی کا شکا ر بنے ہو ئے ہیں قومی خزانہ لو ٹنے وا لے پیسے کے بلبو
تے پر ہر غیر قانونی فعل کرنے کے با وجود بھی معزز و مہذ ب ہیں جبکہ بعض
سفید پو ش لاکھ خصوصیا ت اور ہنر ہو نے کے باوجود بھی کسمپرسی کی زندگی بسر
کرنے پر مجبو ر ہیں اسی حلقہ میں اس سے قبل ایک اور انڈسٹری کے مالک بھی
گیس چو ری میں ملوث پا ئے گئے جو ایک بڑی جما عت پاکستان پیپلز پارٹی کے
ٹکٹ ہولڈر تھے چو ہدری محمد صدیق مہر لیکن ان کے پیسے اور امارت نے انہیں
مکمل تحفظ فراہم کیا اور چو ری ثا بت اور ایف آئی آر درج ہو نے کے با وجود
بھی عدالت سے سرخرو لو ٹے اور پارٹی نے بھی ایسی شخصیت کو قبول کیا یہا ں
پر جو رسم چلائی جا رہی ہے کہ گیس چو رو ں ،بجلی چو رو ں ، ٹیکس چو رو ں
اور دیگر غیر قانونی افعال میں مبتلا ء افراد میں عہدو ں اور ذمہ داریو ں
کی تقسیم اس عمل سے بے پنا ہ نقصا ن ہو رہا ہے کیا ہی اچھا ہو تا کہ قومی
خزا نے لوٹنے والو ں ، بد عنوانو ں اور بد یا نت افراد کا بھی معاشی سماجی
و سیاسی طو ر پر مکمل بائیکا ٹ کیا جا تا اور ان کو معا شرے میں ایسی منفی
حرکا ت و سکنا ت کی سزا ملتی تو کوئی بھی ایسی جرات دوبارہ نہ کرتابلکہ
نشان عبرت بن جاتا کسی گناہگا ر کا احتساب، یہا ں تو جزا سزا صرف کتا بو ں
میں بند ہے یہا ں تو الٹی گنگا بہتی ہے جو جتنا بڑا مجرم اور قصور وار
ٹھہرتا ہے مزید شہرت اور عز ت کی بلندیو ں کا مصداق بن جا تا ہے ۔
رکھتا ہے وہ منصف سے وکیلو ں سے مراسم
مجرم کو عدالت سے سزا کیسے ملے گی ؟ |