عنوان دیکھ کر آپ کو یقینی طور پر حیرت ہورہی ہوگی اپنی
پہلی نظر میں آپ یہی کہہ رہے ہوںگے کہ یہ اردو اخبارات پر سراسر الزام ہے،
ایک سفید جھوٹ ہے۔ اردو اخبارات سے زیادہ دوسرا کون مودی کا مخالف ہو سکتا
ہے۔ ہر روز تمام اردو اخبارات کی شہ سرخی مودی کے خلاف ہوتی ہے ،بی جے پی
کے خلاف ہوتی ہے، بی جے پی مخالف مضامین کو ترجیحی طور پر اخبارات میں جگہ
ملتی ہے۔ اکثر و بیشتر مضامین اسی موضوع سے متعلق ہوتا ہے ۔گجرات فساد کا
چرچا روزانہ اخبار میں ہوتا ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے اور یہ کہنا کیوں کر
درست ہوسکتاہے کہ مودی کو آگے بڑھانے میں اردو اخبارات کلیدی رول ادا کر
رہا ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے ابھی گزشتہ دوروز قبل تقریبا اردو کے تمام
اخبارات میں صفحہ اول پہ نریندر مودی کا انتخابی اشتہار شائع ہوا تھا۔ بعض
اخبار میں کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا آخر کیوں ؟ جب اردو اخبارات کی اصل
مہم مسلم مسائل کو حل کرنا ہے، مسلمانوں کو در پیش مسائل سے نجات دلانا ہے،
فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار تک پہونچنے سے روکنا ہے تو پھر ان کے اخبار میں
چند ٹکوں کی خاطر یہ اشتہار کیوں شائع ہو رہا ہے؟۔
دراصل اردو اخبارات کا یہ مقصد ہے ہی نہیں، ان کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے
اور بس، روزنامہ راشٹریہ سہارا ہندوستان کا سب سے بڑا اخبار مانا جاتا ہے ،اس
کے دس ایڈیشن ہندوستان کے کل دس شہروں سے شائع ہوتے ہیں، دوسرے نمبرپر
روزنامہ انقلاب ہے جس کے کل سترہ ایڈیشن کی اشاعت چار صوبوں مہاراشٹردہلی
یوپی اور بہار سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں اخبار غیر مسلموں کا ہے اور ان کا مقصد
صرف اور صرف صحافت کی آڑ میں تجارت کرنا ہے، ان کے بارے میں اگر کوئ یہ
کہتا ہے کہ سہارا پریوار، دینک جاگرن گروپ اور مڈدے میڈیا ارود کو فروغ دے
رہا ہے تو یہ اردو صحافت کے ساتھ ظلم اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ان
دونوں اخبارات کے علاوہ بے شمار اردو اخبارات ہیں جن کے مالکان مسلمان ہیں
لیکن ان کی پالیسی اسی طرح ہوتی ہے اور ان کا بھی مقصد سوائے پیسہ کمانے کے
کچھ اور نہیں ہوتاہے، اردو اخبارات میں نمایاں طور پہ کسی اشتہار کاشائع
ہونا قارئین کو یہی پیغام دیتاہے کہ شائع شدہ اشتہار سے اخبار بھی متفق ہے۔
عوام یہ نہیں جانتی ہے کہ اشتہار پیسہ کے عوض میں شائع ہوتا ہے ،اخبار کو
اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے کہ کیسا اشتہار ہے کس کا اشتہار ہے اور مواد
کیا ہے؟۔ اردو اخبارات میں مسلم مخالف جماعتوں کا اشتہار اس لئے بھی قبیح
ہے کہ اس کے قارئین صرف مسلمان ہوتے ہیں ایسے میں ان اخبارات کے سہارے جب
ان تک یہ پیغام پہونچے گا تو وہ یقینی طور پر متاثر ہوں گے اور یہی سمجھیں
گے ہمارا اخبار ہم سے یہی کہ رہاہے کہ مسلمان مودی کہ حمایت کریں۔
بہار کا قدیم اردو اخبار روزنامہ قومی تنظیم پٹنہ مسلمانوں کا معتبر اخبار
مانا جاتاہے۔ سہارا اور انقلاب کی آمد کے باوجود بھی اس اخبار کی حیثیت
اپنی جگہ برقرار ہے ،اسی طرح روزنامہ منصف حیدرآباد کا اہم ترین اردو اخبار
ہے لیکن قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ ان اخبارات نے بھی مودی کا اشتہار شائع
کرنےمیں کوئ جھجھک محسوس نہیں کی ۔دوسرے اخبار کا تذکرہ ہی فضول ہے جن کا
مقصد ہی پیسہ کمانا ہے ۔ایسے بھی انتخاب کا موسم پیسہ کمانے کے لئے موسم
بہار مانا جاتا ہے۔ صرف راجدھانی میں 14 سو اخبارات و رسائل کا رجسٹریشن ہے
جبکہ پرنٹ میں سو اخبار بھی نہیں ہے۔ ان اخبارات کی فہرست میں تن تنہا
روزنامہ عزیز الہند اپنے وعدے پر قائم ہے اور مسلم مخالف کسی بھی اشتہار کو
یہاں جگہ نہیں ملتی ہے اس اخبار کی ایک خاص بات یہ کہ یہاں پہلے صفحہ پر
کبھی بھی کوئی اشتہار شائع نہیں ہوتاہے اور نہ ہی چند ٹکوں کی خاطر حاصل
ہونے والے اسلام مخالف اور فحش اشتہار اور مواد کوجگہ ملتی ہے۔ ڈاکٹر عزیز
برنی صاحب کا یہ عمل بلا شبہ قابل ستائش ہے اور اخبار کی پیشانی پر لکھے
ہوئے جملے کا وہ مکمل پاس و لحاظ کر رہے ہیں۔ |