نئے امریکی صدر بارک اوباما کی پاک افغان نئی پالیسی کا اعلان

جی ہاں!اوباما کی نئی پاک افغان پالیسی بش پالیسی کا ہی تسلسل ہے
پاک افغان نئی پالیسی میں امریکا نے پاکستان کو لالچ دے کر اپنی امداد کی بھی بھیک مانگ لی

یہ ہم پاکستانیوں کے لئے بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب 27مارچ 2009 کو نئے امریکی صدر بارک اوباما کو پاکستان اور افغانستان سے متعلق دہشت گردی کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرنا تھا تو عین اسی روز اس سے چند گھنٹے قبل خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے علاقے بھگیاڑی میں پاک افغان شاہراہ پر واقع ایک دو منزلہ مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران عین اس وقت خود کش بم دھماکا ہوا کہ جب مسجد میں موجود 250سے300 کے قریب نمازیوں نے اللہ اکبر کی صدا میں نیت باندھی ہی تھی (جس کے متعلق یہ خیال کہا جارہا ہے کہ خیبر ایجنسی میں اب تک ہونے والے اپنی نوعیت کے بم دھماکوں میں یہ سب سے بڑا دھماکہ ہے) جس کے نتیجے میں 85سے زائد نمازی شہید اور 100کے قریب یا اس سے زائد شدید اور معمولی زخمی بھی ہوئے جنہیں مقامی اور پشاور کے اسپتالوں میں طبی امداد فراہم کی گئی اس موقع پر ہر محب وطن پاکستانی اور مسلمان نے دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی گھناؤنی کارروائی میں کوئی مسلمان ملوث نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کوئی ایسا انسان جس کے دلی میں زرہ برابر بھی انسانیت ہوتی وہ بھی اسی ناپاک حرکت نہیں کرسکتا ہے یقیناً اس میں وہ انسان نما حیوان ملوث ہوسکتا ہے کہ جو صرف اور صرف حیوان اور وہ بھی آدم خور جو پیدا ہی انسانوں کی خون پینے کے لئے ہوا ہے اور اس کا مقصد ہی انسان کا خون پی کر اور بہا کر خوش ہونا ہے بہرحال! گزشتہ جمعہ کو جمرود کی جامع مسجد میں جو المناک سانحہ رونما ہوا اس میں کوئی مسلمان ملوث نہیں ہوسکتا اس واقع کے پیچھے یقیناً امریکی اور بھارتی ایجنٹ ملوث ہوسکتے ہیں جو پاکستان میں امن وسکون کو تہس نہس کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے ہیں ادھر نئے امریکی صدر بارک اوباما نے 20جنوری 2009 کو اپنا منصب صدارت سنبھالتے ہی امریکی عوام سے اپنے پہلے خطاب میں جو اپنی عوام اور عالمی برادری سے پاک افغان پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا وعدہ کیا تھا اسے بھی انہوں نے 27مارچ 2009 بروز جمعہ کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران پورا کردیا اگرچہ نئے امریکی صدر بارک اوباما کی پاک افغان پالیسی سے متعلق یہ خیال کیا جارہا ہے کہ ان کی اعلان کردہ پاک افغان پالیسی بھی سابق امریکی صدر بش کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے امریکی تاریخ کے نئے سیاہ فارم امریکی بارک اوباما کی پالیسیوں سے پاکستان کو مشروط امداد کے شکنجے میں اس طرح سے جکڑ دیا گیا ہے کہ پاکستان کو ہر حال میں اپنی معیشت اور اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط اور استحکام بخش بنانے کے لئے امریکی امداد پر ہی انحصار کرنا ہوگا اس کے بغیر پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ پاکستان اور کوئی راہ اختیار کرے یوں پاکستان کو ہر صورت میں امریکی مشروط امداد کے عوض وہ کچھ کرنا پڑے گا جو امریکا چاہے گا اور امریکا کیا چاہے گا اس کا بھی اظہار امریکی صدر بارک اوباما نے پاک افغان نئی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اس طرح سے کیا کہ پاکستان کو اگلے پانچ سالوں میں اربوں ڈالرز کی امداد دی جائے گی جس کے لئے پاکستان کو اپنے یہاں قائم دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنا ہوگا اس موقع پر ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے ساتھ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ساتھ بھی مل کر کام کرنا ہوگا اس مشورے کے ساتھ ہی انہوں نے پاکستان اور افغانستان پر احسان جتاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں نے منصب صدارت سنبھالتے ہی پاک افغان پالیسی تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور آج اس پالیسی کا جائزہ لینے کے بعد اس کا اعلان کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صورت حال اچھی نہیں ہے وہاں فوجیوں پر حملے ہورہے ہیں ہمارا مقصد افغانستان میں القاعدہ کو کچلنا ہے کیوں کہ القاعدہ پاکستان میں امریکا پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے (اس موقع پر انہوں نے یہ کہہ کر واضح عندیہ دیا کہ القاعدہ پاکستان میں ہے اور یہاں سے وہ امریکا میں حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہے حالانکہ حکومت پاکستان القاعدہ کی پاکستان میں موجودگی کی اول روز سے ہی انکاری ہے مگر اس کے باوجود بھی امریکا حکومت پاکستان کی اس وضاحت پر یقین کرنے کو قطعاً تیار نہیں) جبکہ اوباما کا کہنا تھا کہ میری سب سے بڑی کوشش اور ذمہ داری یہ ہے کہ میں امریکیوں کی جان ومال کی حفاظت کروں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کا مستقبل اس کے پڑوسی پاکستان سے وابستہ ہے اس موقع پر انہوں یہ اس بھی ارادہ ظاہر کیا کہ امریکا پاکستان اور افغانستان میں ان کا مستقبل بہتر بنانے کے لئے سرماریہ کاری کا بھی منصوبہ کررہا ہے جبکہ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ اسامہ بن لادن پاک افغان سرحد پرعسکریت پسندوں کو تربیت دے رہا ہے ان کہنا تھا کہ 9/11کے بعد سے القاعدہ سینکڑوں پاکستانیوں کو قتل کرچکی ہے بے نظیر بھٹو بھی دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہوئیں ہاں البتہ! انہوں نے حکومت پاکستان کو اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کو ماضی کے پیش نظر بلینک چیک تو نہیں دے سکتا اس مرتبہ حکومت پاکستان کو بھی کچھ کرکے دکھانا ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کو دہشت گردی سے متعلق مؤثر کارکردگی کرنی ہوگی تب اس سے تعاون کیا جائے گا انہوں نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ پاکستانیوں کو بھی وہی چاہیے جو امریکیوں کو چاہیے اس کا یہ مطلب ہے کہ پاکستانیوں کو بھی امن اور ترقی کی ضرورت ہے اور امریکا بھی یہ ہی چاہتا ہے کہ پاکستان میں امن اور سکون قائم ہو اور یہ اس ہی وقت ممکن ہے کہ جب پاکستان دہشت گردی سے پاک ہو اور امریکا پاکستان سمیت دنیا بھر سے دہشت گردی کے خاتمے کا عزم کئے ہوئے ہے اوباما نے اس موقع پر یہ بات ایک بار پھر دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انتہا پسندوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے انہوں نے ہی بے نظیر بھٹو، سمیت پاکستانی فوجیوں اور سینکڑوں پاکستانیوں کو بھی بے دردی سے شہید کیا ہے انہوں نے پاک افغان سرحد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاک افغان سرحدی علاقہ دنیا کے لئے بڑا خظرناک خطہ بنا ہوا ہے ہاں البتہ! امریکی صدر نے پاکستان سے متعلق یہ حوصلہ افزا ریمارکس بھی دیئے کہ قانون کی حکمرانی سے پاکستانی عوام کے مسائل حل ہوسکیں گے اور یہ ایک اچھا عمل ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم ہوگئی ہے انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں جو پاک افغان پالیسی سے متعلق تھی اس میں اس کا بھی برملا اعلان کیا کہ ہم دہشت گردوں کو ہر حال میں شکست دیں گے اور ہم گولی اور بم سے دہشت گردوں کے خلاف اپنی جاری مہم ہرگز ہرگز ختم نہیں کرسکتے کیوں کہ عسکریت پسند عناصر پاک افغان سرحد پر آزادی سے اپنی نقل وحرکت جاری رکھے ہوئے ہیں ان کی اس آزادی کو ہم ہر چیلنچ کا مقابلہ کرتے ہوئے ختم کرنے کا عزم کئے ہوئے ہیں بہرحال ان تمام اعلانات کے باوجود انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس 1.5ارب ڈالرز کا گیری لوگو بل پاس کرے اور ہم پاکستان کو اگلے پانچ سال کے دوران اربوں ڈالرز امداد بھی دیں گے انہوں نے اس موقع پر یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 7سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہم اب تک 9/11 کے واقع میں ملوث دہشت گردوں تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ اس واقع میں ملوث عناصر کا تعلق پاکستان اور افغانستان ہے۔ انہوں نے اس کا بھی اعادہ کیا کہ امریکا افغانستان کو فتح نہیں کرنا چاہتا میرے خیال سے وہ اس موقع پر یہ بھی واضح کردیتے تو اور اچھا ہوتا کہ انہوں نے یہ بات کیوں کہی ہے کہ امریکا افغانستان کو فتح نہیں کرنا چاہتا اس سے نہ صرف افغانستان کے باشندوں میں کئی سوال پیدا ہوئے ہیں بلکہ پوری مسلم امہ بھی ایک مخمصے کی شکار ہوکررہ گئی ہے کہ اوباما نے افغانستان کو فتح کرنے کی بات کیوں کی ہے؟

انہوں نے افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ افغانستان میں کرپشن اپنے عروج پر ہے اس کے خاتمے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے اس سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ افغانستان کے موجودہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کے لئے بھی عنقریب مشکلات پیش آسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے تعاون سے پاکستان اور افغانستان کے لئے نیا کونٹیکیٹ گروپ بنائیں گے جس میں ایران، چین اور بھارت شامل ہونگے انہیں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ ایران، چین اور بھارت کو شامل کرنے کا کیا مطب ہے میرے نزدیک اس گروپ کی آڑ میں پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکا کا دراصل ارادہ یہ ہے وہ خود تو باہر رہے اور آئندہ پاک افغان مسائل کے حل کے معاملات بھارت دیکھے اور بھارت ہی جنوبی ایشیا کا چوھدری بن کر بیٹھ جائے۔

ویسے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کی پاک افغان پالیسی میں پاکستان کا ذکر افغانستان سے زیادہ تھا اس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ امریکا کا اگلا ہدف پاکستان کے وہ علاقے ہونگے جن سے متعلق اس نے گزشتہ دنوں دہشت گردوں کی موجودگی کا اشارہ دے دیا تھا اور اب امریکا 1.5ارب ڈالرز کی امداد کے عوض پاکستان کے ان علاقوں پر بھی اپنی فوج کشی اور ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہے اور پھر حکومت پاکستان بھی ان ڈالرز کی چمک اپنی آنکھیں خیرہ (بے حیائی سے) بند کئے بیٹھ جائے گی اور امریکا وہ کچھ کرے گا جو وہ چاہے گا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 972190 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.